اقبال کی نظم شعاع امید کا تنقیدی جائزہ

0
سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیا ہے عجب چیز کبھی صبح کبھی شام
مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہری ایام
نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت
نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام
پھر میرے تجلی کدہ دل میں سما جاؤ
چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام
آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں
بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش
اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھویں سے ہے سیہ پوش
مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم
لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش
پھر ہم کو اسی سینہ روشن میں چھپا لے
اے مہر جہاں تاب نہ کر ہم کو فراموش
اک شوخ کرن شوخ مثال نگہ حور
آرام سے فارغ صفت جوہر سیماب
بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب
چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو
جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب
خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب
چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن
یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ درناب
اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی
جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں
محفل کا وہی ساز ہے بیگانہ مضراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

اقبال کی نظم ”شعاع امید“ ان کے مجموعۂ کلام ”ضرب کلیم“ سے لی گئی ہے۔اس مجموعے کی سبھی نظمیں اقبال کے ایسے خیالات کا اظہار کرتی ہیں کہ جن سے عصر حاضر کے بت پاش پاش ہو جائیں اور اس کتاب کے آغاز میں اقبال نے دور حاضر کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ وہ اپنے قارئین کو خودی میں ڈوب کر اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا درس دیتے ہیں۔

نظم ”شعاع امید“ دراصل اہل ہند کو اقبال کی بشارت ہے کہ ان کی زندگی کے اندھیرے ایک دن دور ہوں گے اور ہر طرف امیدوں اور آرزوؤں کے اجالے ہوں گے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ مذہب کی تعلیمات پر عمل کریں۔

نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ سورج نے اپنی شعاعوں کو یہ پیغام دیا کہ تم عرصۂ دراز سے دنیا کے ہر گوشے کو منور اور روشن کیے جا رہی ہو اور دنیا والے ہیں کہ اجالوں کی اہمیت نہیں جانتے اور ان کا برتاؤ بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ نہ تمہیں ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت ہے نہ پھولوں کے اطراف روشنی پھیلانے میں آرام ہے۔ لہذا گلستانوں اور ویرانوں میں چمکنا چھوڑ دو اور میری آغوش میں واپس آ جاؤ۔

شعاعیں آفتاب کے حکم پر واپس چلی جاتی ہیں اور دنیا بے رنگ و نور ہو جاتی ہے اور دنیا والے ترقی و کامیابی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ مغرب والوں نے دنیاوی ترقی کی خاطر مشینوں کو اپنایا ہے اور اپنے خالق سے منہ موڑ کر رات دن مشینوں میں مصروف ہیں۔ مشرقی اقوام کا یہ حال ہے کہ وہ ایمان والے تو ہیں لیکن ان کے دل حرکت و عمل سے اور ایمانی قوت سے بیگانہ ہیں۔

شعاعیں سورج کی وسیع آغوش میں چھپ جاتی ہیں لیکن ایک شعاع جو حور کی طرح منور اور سیماب وش تھی، وہ سورج سے عرض کرتی ہے کہ اسے اجالا پھیلانے اور واپس دنیا میں جانے کی اجازت ملے اور جب تک ہندوستانی قومیں اہل مغرب کی گرفت سے آزاد نہ ہو جائیں وہ مشرق کے گوشے گوشے پر یوں ہی چمکتی رہے گی۔

شوخ کرن مزید کہتی ہے کہ مشرق کی امیدوں کا مرکز ہندوستان ہے۔ یہاں کی سرزمین اقبال کے اشکوں سے سیراب ہے۔ یہاں کی خاک چاند تاروں کی طرح روشن ہے۔ یہاں کے لوگ ہنر مند و دانشور ہوتے ہیں۔ وہ اس بات پر افسوس بھی کرتی ہے کہ ایک زمانہ پہلے یہاں کے ہندو مسلم مذہبی قدروں کے دلدادہ تھے اور خوف خدا ان کے دلوں میں باقی تھا لیکن اب یہ حالت ہے کہ بت خانے کے دروازے پر برہمن سو رہا ہے اور مسلمان مسجد کے اندر اپنی تقریر کو رو رہا ہے۔ دونوں قومیں غفلت کا شکار ہیں اور عمل سے دور ہیں۔ اس لیے وہ کرن سورج سے عہد کرتی ہے کہ مغربی ممالک اور مشرقی ممالک کی قوموں کو ایسا راستہ دکھاؤں گی کہ جس پر چل کر وہ اپنے امراض کا مداوا کر سکیں گے۔