علامہ اقبال کی نظم نگاری

0

اقبال کی نظر میں نظم کا مطلب ہوتا ہے کہ اس میں فکری وحدت ہو۔ یہ تصورِ نظم دراصل انہیں یورپ سے ملا ہے۔ انہوں نے یورپی شعرو ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا کہ نظم کو جو چیز باندھ کر رکھتی ہے وہ ہے اس کی فکری وحدت۔

  • اقبال کی نظم نگاری کا ذیل کے عنوانات کے تحت مطالعہ کرنا مناسب ہوگا:
  • ١۔ ترجمہ شدہ نظم اور ماخوذ نظمیں
  • ٢۔ فطرت نگاری
  • ٣۔ وطن دوستی کے جذبات سے متاثر نظمیں
  • ٤۔ اشتراکی تحریک کا اثر
  • ٥۔ خودی کا فلسفہ
  • ٦۔ اقبال کا فن

1۔ ترجمہ شدہ نظم اور ماخوذ نظمیں

اقبال نے چند اور چھوٹی چھوٹی نظمیں بھی لکھیں جن کا مرکزی خیال یورپی شعراء سے ماخوذ ہے۔ ایسی نظمیں عموماً بچوں کے لیے لکھی گئیں ہیں۔ان میں ایک مکڑا اور مکڑی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری، بچے کی دعا، ہمدردی، ماں کا خواب وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا انداز بیان بہت سادہ اور دلنشین ہے۔

کچھ نظمیں ترجمہ نہیں لیکن ان پر انگریزی اور یورپی انداز تفکر و تاثرات اور اسلوب بیان انگریزی ہے۔ ان میں تین نظمیں پرندہ اور جگنو، پرندے کی فریاد، والدہ مرحومہ کی یاد میں ہیں۔ ان میں ولیم کاوپر کی نظموں کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ ان کے علاوہ ایک آرزو“ سمول راجر کی نظم”اے وش“ کی طرح ہے۔ اسی طرح ”خفستگان خاک سے استفسار“ اور ”گورستان شاہی“ دونوں گرے ایلجی کے اثرات کو بتاتی ہیں۔

پہلے دور میں ان کے یہاں کافی ایسی نظمیں ملتی ہیں جو یا تو انگریزی زبان سے ترجمہ ہیں یا جن کا خیال یورپی ادب سے لے کر اسے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ عموماً انہوں نے اصل کی روح کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور اسے اپنی تخلیق بنا دیا ہے۔ انگریزی، امریکی اور جرمن شعراء کا انہوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔

بانگ درا میں عشق اور موت، پیام صبح اور رخصت اے بزم جہاں، ٹینی سن، لانگ فیلو اور ایمرسن سے ماخوذ ہیں۔ اقبال کی ایک نظم ہے ”حسن اور زوال“ اس کا مرکزی خیال جرمن ادب سے لیا گیا ہے اس لیے اس کے تعارفی نوٹ میں اقبال لکھتے ہیں:
”اصل خیال جرمن ادب سے لیا گیا میں ناظرین مخزن کے لیے تھوڑی تبدیلی کے ساتھ اردو میں منتقل کر دیا“

2۔ حسن فطرت یا فطرت نگاری

اقبال کے یہاں ایسی نظمیں کثیر تعداد میں ملتی ہیں جن میں فطرت کے مظاہر کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ مجموعی طور پر ہم حسن فطرت سے متعلق اقبال کی نظموں کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

  • ١۔ پہلی وہ نظمیں جن میں فطرت کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ ابتدائی دور کی یادگار ہیں اور ان میں فطرت کے حسین مناظر سے اقبال کی جمالی حس متاثر ہوئی ہے۔ وہ مظاہر فطرت کو کسی خاص زاویۂ نظر سے نہیں دیکھتے۔ ایسی نظموں میں ہمالہ، گل رنگیں، آفتاب صبح، ماہ نو، انسان اور بزم قدرت، چاند اور کنار راوی، چاند اور تارے، ایک شام، دریائے ہاہیڈل برگ کے کنارے پر، شامل ہیں۔ ان میں فطرت کی حسین عکاسی کی گئی ہے۔
  • ٢۔ دوسری طرف ان کی ایسی نظمیں ہیں جن میں مناظر فطرت اور مظاہر قدرت مقصودبالذات نہیں ہیں بلکہ اپنے فلسفیانہ افکار کی ترجمانی کے لئے ان کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ایسی نظموں میں اقبال کے ابتدائی دنوں کی بے چینی نہیں دکھائی دیتی۔

ایسی نظموں کے نمونے ان کے یہاں بعد کی نظموں میں بھی ملتے ہیں ہیں مثلاً ذوق و شوق، مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ۔ ان نظموں میں ایسے ٹکڑے ملتے ہیں جن کی علیحدہ کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن وہ ذہنی و فکری اور سماجی و تہذیبی صورتحال کے بیان کے لیے نئے تخلیقی محرک کے پس منظر کا کام کرتے ہیں۔ مثلاً ساقی نامہ میں پہلے بند میں جؤے کہستاں کی تصویر کشی؀

وہ جؤے کہستاں اچکتی ہوئی۔ اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی
اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی۔ بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ۔ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام۔ سناتی ہے یہ زندگی کا پیام

اقبال کے ابتدائی دور کی منظری نظموں میں مشاہدے سے زیادہ تخیل کی کارفرمائی ہے لیکن ایسا تخیل جس میں فکر کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ ان نظموں میں مناظر کی ایک جھلک دکھانے پر اکتفا کیا گیا ہے۔

3۔ وطن دوستی کے جزبات سے متاثر نظمیں

بیسویں صدی کے آغاز سے ہی ملک میں سیاسی و سماجی سطح پر بیرونی حکومت کے خلاف جس طرح کا ماحول تیار ہو رہا تھا اس کے نتیجے میں وطن دوستی کے جذبات ہر ہندوستانی کے دل میں شدید ہوتے جا رہے تھے۔اس عہد میں اقبال کے علاوہ دیگر شعراء نے مثلاً چکبست، ظفر علی خاں، جوش اور سیماب وغیرہ نے اپنی نظموں میں تندرستی کے ترانے اور نغمے گائے ہیں۔ وطن دوستی کے تحت اقبال نے کئی اہم نظمیں مثلاً نالہ یتیم، ہمالہ، صداۓ درد، تصویر درد، ترانہ ہندی، ہندوستانی بچوں کا قومی گیت اور نیا شوالہ جیسی نظمیں لکھیں۔

4۔ اشتراکی تحریک کا اثر

اقبال روس کی اشتراکی تحریک سے متاثر ہوئے۔ انہیں پہلے ہی سے دنیا بھر کے مزدوروں، غریبوں اور بے کسوں اور محکوموں و مجبوروں کے ساتھ ہمدردی تھی۔ انہوں نے فارسی میں” پیام مشرق“ میں فارسی کی چند نظموں میں اشتراکیت کے علمبرداروں کے نظریات اور ساتھ ہی سرمایہ داروں کے سفاکی اور محنت کشوں کی بے کسی کا نقشہ کھینچا ہے۔

اردو نظموں میں بھی ان موضوعات کو برتا ہے۔ ان کے مطالعے سے اشتراکی خیالات کی حمایت میں اقبال کے مخلصانہ جذبات کا پتہ چلتا ہے لیکن اس میں مادی بنیادوں پر ساری توجہ اور روحانیت کو نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے وہ بعد میں اس سے کنارہ کش ہو گئے۔

خضر راہ“ میں شاعر اور حضر کا مکالمہ بہت مؤثر ہے۔ فرمان خدا فرشتوں سے، اشتراکیت، کارل مارکس کی آواز اور لینن، مشہور نظمیں ہیں جن میں بیانیہ انداز میں اشتراکی خیالات کا اظہار کیا گیا۔ ”فرمان خدا فرشتوں سے“ کے بارے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ کمیونسٹ مینی فیسٹو کا لب لباب ہے۔ اور محنت کشوں کے لیے انقلاب کے بغاوت کی تحریک ہے۔

5۔ خودی کا فلسفہ

علامہ اقبال کو کامل یقین تھا کہ اس کرۂ ارض کا انسان اگر فلسفہ خودی پر عمل کرلے تو بلندیوں اور عظمتوں کی انتہائیوں کو چھو سکتا ہے؀

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندہ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

خودی کا تصور اقبال کی شاعری کا بنیادی تصور ہے جس کے بغیر ہم اقبال کی شاعری کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔یہ اقبال کے فلسفہ حیات کی بنیادی اینٹ ہے۔ ’خودی‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے انانیت،خود مختاری،خود غرض اور غرور و تکبر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

خودی کا لفظ اقبال کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ اقبال کے نزدیک خود نام ہے احساس غیرت مندی کا،جذبہ خودداری کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کر نے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔

اقبال نے اپنی کتاب ’اسرار خودی‘ کے دیباچہ میں ہی واضح کردیا ہے کہ خودی سے انکی مراد غرور و نخوت کے بجائے عرفان نفس اور خود شناسی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ”ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کوآگاہ کردینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی ”غرور“ استعمال نہیں کیاگیا ہے جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے۔

علامہ اقبال کے زمانہ میں یہ مسئلہ درپیش تھا کہ انسان کی انفرادیت، شخصیت یا انا کی کوئی مستقل حیثیت ہے یا یہ محض فریب تخیل ہے؟ اس کے جواب میں ایران و ہند کے حکماء اس نتیجہ پر پہنچے کہ کائنات میں صرف حقیقت کلی کا وجود ہے اس لئے انسانی ذات محض فریب نظر ہے۔

انسانی زندگی کا مقصود حیاتِ کلی کے بحرمیں خود کو فنا کردینا ہے اور اسی فنائے ذات کا نام انسانی نجات ہے۔ یہی وہ فلسفہ حیا ت تھا جو ہمارے ہاں نظریہ وحدۃ الوجود کے نام سے رائج ہے اور جس نے مسلمان جیسی ہمہ تن عمل قوم کو خاک کی آغوش میں سلادیا تھا۔

علامہ اقبال نے اسی فلسفہ حیات کے خلاف مسلسل احتجاج کیا اور اس کے بر عکس اپنا فلسفہ خودی پیش کیا۔اس نظریہ کا ملخص یہ ہے کہ حیات عالمگیر یا کلی نہیں ہے بلکہ انفرادی ہے۔ اس انفرادی زندگی کی اعلیٰ ترین صورت کا نام خودی ہے۔جس سے انسان کی شخصیت یا انفرادیت متشکل ہوتی ہے لہذا انسانی زندگی کا مقصود فنائے ذات نہیں بلکہ اثباتِ خودی اور بقائے ذات ہے۔

علامہ اقبال کے نزدیک جوں جوں انسان اپنے خلق اور انائے مطلق کے مانند ہوتا جاتا ہے وہ خود بھی منفرد اور نادر ہوتا جاتا ہے اسی کانام استحکامِ خودی ہے۔خدا کی مانند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے اندر صفات خدا وندی کو جذب اور منعکس کرتا چلا جائے۔ خودی کے ضعف اور استحکام کو پرکھنے کا معیار صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنی راہ میں آنے والے موافعات پر کس حد تک غالب آتا ہے۔

ہر وہ عمل جس سے خودی میں استحکام پیدا ہو خیر ہے اور ہر وہ عمل جس سے خودی کمزور ہوجائے شر ہے۔جب انسانی خودی موافعات پر غلبہ حاصل کرکے پختہ تر ہوجاتی ہے تو پھر موت کا جھٹکا بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اس طرح انسانی زندگی دوام سے ہمکنار ہوجاتی ہے۔

علامہ اقبال کو کامل یقین تھا کہ اس کرۂ ارض کا انسان اگر فلسفہ خودی پر عمل کرلے تو بلندیوں اور عظمتوں کی انتہائیوں کو چھو سکتا ہے اورلامکاں تک اسکی رسائی کو روکنا کسی فرد کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔اسی احساس خودی کو بیدار کرنے کیلئے انہوں نے ”اسرارِ خودی“،”رموزِ بے خودی“اور جاوید نامہ لکھی اور تصور خودی کو بڑے واضح اور بلیغ انداز میں بیان فرمایا۔

جس کا مقصد انسان کو اپنی آزادانہ خودی اور شخصیت سے آگاہ کرکے کارزار حیات میں بحیثیت خالق لانا ہے۔بوسیدہ روایات اور عقائد کے بتوں کو پست ہمتی اور غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر فکر و عمل کو نئے ماحول اور ضروریات کے مطابق ترتیب دینا ہے۔

موجودہ تہذیب و تمدن کے عدم مساوات کو بدل کر خواجہ و مزدور، حاکم و محکوم اور محمود وایاز کی تمیز کو مٹانا ہے،خالق و مخلوق میں ایک نیا رشتہ قائم کرکے دنیا میں ایک ایسی انسانی برادری قائم کرنا ہے جو قوائے فطرت پر فتح کرسکے اور اس خرابہ دہر کو جنت ارضی میں تبدیل کرسکے۔

خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشا ہی
نہیں ہے سنجزو طغرل سے کم شکوہ فقیر
خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پرنیاں و حریر
Hina Maheen written by