اقبال کا نظریۂ فن

0

اقبال کا نظریۂ فن

اقبال کی پہلی شناخت ان کی شاعری ہے۔ اس لحاظ سے وہ صرف ہندوستان یا اُردو ادب کے ہی شاعر نہیں بلکہ تمام دنیا کے شاعر ہیں اور صرف شاعر ہی نہیں بلکہ خطیب، مصلح، فلسفی اور مورّخ سبھی کچھ ہیں۔ اقبال ایسے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے دنیا کے تمام فلسفوں کا بغور مطالعہ مکمل اور مستقل طور پر کیا ہے۔ انہوں نے خودی کی تعلیم دی۔ عمل عشق,فقہ,کسب حلال, ضبط نفس وغیرہ ان کی شعری تعلیم کی بنیاد ہیں۔ اقبال ناامیدی کے شاعر نہیں، ان کے کلام میں امید اور حسرت جلوہ گر ہے۔

اقبال خیالی شاعر ہونے کے باوجود عملی شاعر بھی تھے۔ ان کی دنیا عملی دنیا ہے جس میں خوشی و غم اور امید و یاس کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور وہ کبھی بھی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتے۔ ان کے افکار و خیالات سے حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا فلسفہ صرف فلسفہ نہیں ہے بلکہ حیات انسانی کا ایک نظام فکر ہے۔ جس میں انسان دوستی کا خیال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال انسانی زندگی میں محبت و اخوت کے چراغوں کو روشن رکھنا چاہتے ہیں۔ انسان کو بیکراں بنانا ان کی زندگی کا بڑا مقصد ہے اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے۔ اقبال نے اس بنیادی خیال کو زیادہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔

یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ طورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اُچھل کر بیکراں ہو جا

اقبال کے فکر و فن میں اتنی گہرائی و وسعت و ہمہ گیری ہے کہ اس کا سمجھنا کسی غیر متوازن اور جذباتی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اقبال کو سمجھنے کے لئے فلسفی کے دماغ اور شاعر کے دل کے ساتھ ساتھ انسانی شعور کی بھی ضرورت ہے۔ انسانیت اور انسان دوستی کا یہ شعور تو انہیں سمجھنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہی محور ہے جس کے گرد ان کے تمام افکار و خیالات گردش کرتے ہیں۔ یہی بنیاد ہے جس پر انہوں نے اپنے فکر و فن کی بنیاد استوار کی ہے۔

اقبال انسانی زندگی میں فرد کی اہمیت کے قائل ہیں۔ اپنے فلسفے میں جس چیز کو انہوں نے خودی سے تعبیر کیا ہے وہ یہی انسان کی بلندی اور عظمت کا خیال ہے لیکن یہ خودی صرف فرد تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ آگے چل کر یہ خودی اجتماعی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ خودی کی منشاء انسانی زندگی میں جاری ہے۔ اس سے زندگی میں حرکت, سوزوساز, اور محبت کا رشتہ استوار ہوتا ہے۔

اقبال کے خودی سے متعلق چند مشہور اشعار ملاحظہ فرمائیں؀

خودی کیا ہے رازدرون حیات
خودی کیا ہے بیداریئ کائنات
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
میرا طرق امیری نہیں غریبی ہے
خودی نا بیچ غریبی میں نام پیدا کر

اقبال کی شاعری کے اہم ادوار

پہلا دور

شاعری کی حیثیت سے اقبال کی شاعری کے تین دور تسلیم کئے جاتے ہیں۔ پہلا دور 1899ء سے 1905ء تک کا ہے جب اقبال کی عمر محض 20 برس تھی۔ یہ دور ان کی تیاری کا زمانہ کہا جا سکتا ہے۔ اس زمانے کے کلام میں جو زیادہ تر غزلوں کی صورت میں ہے ان کی طباعی کی جھلک اور ان کی سحر نگاری کی ابتداء نظر آتی ہے۔

اقبال نے اپنی شاعری کی ابتداء غزل سے کی تھی۔ شعر و سخن سے زمانہ طالب علمی سے ہی شغف رکھتے تھے۔ اقبال بذریعہ ڈاک مرزا داغ دہلوی سے اصلاح لیتے تھے۔ لہٰذا اسی زمانے میں اقبال کو مرزا داغ دہلوی سے شرف تلمذ حاصل ہوا لیکن داغ کو بھی اس ذہین شاعر اور طالب علم کی ابتدائی غزلیں دیکھ کر کہنا پڑا کہ اس میں اصلاح کی گنجائش نہیں۔ داغ اقبال کے استاد ہونے پر فخر کرتے تھے۔

اقبال کی شاعری کے پہلے دور میں لاہور کے اساتذہ مرزا ارشد گورگانی اور نیر ناظم حسین کا اثر غالب رہا۔ اقبال نے مرزا داغ کے بعد ان شعرا سے استفادہ اور مشورہ سخن کیا تھا. اسی لئے اقبال کی شاعری کا پہلا دور روایتی انداز سے وابستہ ہے. بانگ درا کے حصہ اول کی غزلیں اسی روش کی نمائندگی کرتی ہیں. نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں؀

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

بانگ درا میں اقبال نے اپنے نقطۂ نظر کو بلکل واضح کر دیا تھا کہ ملت اسلامیہ کی طاقت کسی وطن سے نہیں بلکہ توحید اور وحدت ملت سے ہے۔ انکا خیال تھا کہ پوری کائنات انسانی اولو العزمیوں (اعلیٰ بہادر) کی جولان گاہ ہے۔ اس لئے کسی مقام و سر زمین سے بندھ جانا اپنی تنہائی اور آزادی کو کھو دینے کے مترادف ہے۔

اقبال کی شاعری کے پہلے دور کی نمائندہ نظموں میں ہمالیہ, ترانہء ہندی, ہندوستانی بچوں کا قومی گیت, نیا شوالہ, بچے کی دعا وغیرہ ہیں۔ حب وطن کا جزبہ علامہ اقبال کے یہاں سرایت کئے ہوئے تھا. لہذا اس کا اظہار انہوں نے اپنی نظموں میں نہایت جوش اور سچائی کے ساتھ کیا ہے۔

“ہندوستانی بچوں کا قومی گیت” اور “ترانہ ہندی” *سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا* ہندوستانی بچوں کا مقبول ترین گیت ہے اس کے اشعار آج بھی ہمارے خون کی گردش میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ اس دور میں وطن کے لئے اقبال کے دل میں کتنا درد تھا۔ وطن پر فرقہ پرستی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں تو محب وطن اقبال کا دل تڑپ اٹھتا ہے جسکا اظہار وہ اپنی نظموں میں کھل کر کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں؀

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

اقبال کی مقبولیت کا آغاز ان کی پہلی نظم *ہمالیہ* سے ہوتا ہے اور اس دور کی شاہکار نظموں میں نظم *ہمالیہ* اقبال کی پہلی مطبوعہ نظم ہے۔ جسے اقبال کے دوست شیخ عبدالقادر نے اپنے رسالے *مخزن* کے پہلے شمارے میں *کوہستان ہمالہ* کے عنوان سے شائع کیا اور بانگ درا میں ہمالہ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس سے قبل اقبال نے *نالئہ یتیم* انجمن حمایت اسلام کے پندرہویں سالانا جلسے میں 1900ء میں پڑھی اور سولہویں جلسے 1901ء میں درد دل یا یتیم کا جطاب ہلال عید سے پڑھی تھی۔ ان نظموں نے اقبال کو غیر معمولی مقبولیت کے ساتھ عوام و خواص میں روشناس بھی کرا دیا۔ پھر وہ انجمن کے جلسون میں برابر نظمیں پڑھتے رہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انجمن حمایت کے سترہویں جلسے میں صدر جلسہ میاں نظام الدین نے اقبال کو *ملک الشعراء* کا خطاب بتاریخ 23/فروری/ 1901ء میں دیا تھا۔ اقبال اس دور میں ایک ملّی شاعر نہیں بلکہ ایک ملکی شاعر نظر آتے ہیں۔

دوسرا دور

اقبال کی شاعری کا دوسرا دور 1905ء سے 1908ء تک کا ہے۔ یہ دور ان کے قیام یورپ سے تعلق رکھتا ہے۔ 1905ء میں اقبال اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان گئے تھے اور ٹرنٹی کالج کیمبرج میں داخلہ لیا تھا۔ اس کے بعد پی.ایچ.ڈی کی ڈگری کے لئے میونخ یونیورسٹی (جرمنی) میں 1907ء میں داخلہ لیا تھا۔ اقبال نے پی.ایچ.ڈی کے لئے اپنا مقالہ انگریزی میں داخل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور انہیں اس کی اجازت بھی مل گئی تھی لیکن اس کی ایک شرط تھی وہ یہ کہ اقبال اپنے مقالے کا دفاع (حفاظت) رومن زبان میں کرنے کے اہل ہوں۔ چنانچہ اس شرط پر اقبال جرمن زبان میں استعداد پیدا کرنے کے لئے لندن سے ہائیڈل برگ پہنچے جہاں ایک نجی ادارے میں جرمن سکھانے کا معقول انتظام تھا۔ جرمن زبان پر دسترس حاصل کر اقبال نے اپنا پی.ایچ.ڈی کا مقالہ Development of Mata physics in Persia (انگریزی میں) یعنی “ایران میں مابعد الطبعیات کا ارتقاء” کے موضوع پر داخل کیا۔ جس پر میونخ یونیورسٹی (جرمنی) نے 1908ء میں اقبال کو پی.ایچ.ڈی کی ڈگری سے نوازا۔

اس دور میں اقبال کی تصانیف کی تعداد بہت کم ہے۔ قیام یورپ کے زمانے میں اقبال نے شعر گوئی بلکل ترک کر دی تھی لیکن اپنے مخصوص دوستوں شیخ عبدالقادر اور پروفیسر آرنلڈ کے اصرار پر اس ارادے سے باز رہے۔ اس دور میں اقبال نے نظم “طلبہ علی گڑھ کے نام” 1907ء میں لکھی۔ جس میں اقبال نے پہلی مرتبہ قوم کے نوجوانوں کو کچھ اس طرح مخاطب کیا۔ ملاحظہ فرمائیں؀

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے
(بانگ درا حصہ دوم)

اسی نظم سے اقبال کے فلسفے کی بنیاد پڑی۔ وطن سے باہر جاکر اقبال کا نظریہ وطنیت بلکل جدا ہو گیا تھا۔ اس دوران ان کے خیالات میں جو تبدیلی آئی اس کا احساس نظم “عبدالقادر کے نام” میں ہوتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں؀

اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہء نوائی سے اجالا کر دیں
ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط
اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں
اہل محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق
سبگ امروز کو آئینہ فردا کر دین
جلوہ یوسف گم گشتہ دکھا کر انکو
تپش آمدہ تر از خون زلیخا کر دیں
(بانگ درا حصہ دوم)

یہ نظم انہوں نے 1908ء میں اپنے دوست سر عبدالقادر کے نام لکھی تھی۔ اس دور میں اقبال نے وقالت کے میدان میں بھی قدم جمانے کی کوشش کی تھی اور بیرسٹری کی ڈگری لنکران سے 1908ء میں حاصل کی لیکن وقالت میں اقبال کو زیادہ قامیابی نہیں مل سکی۔ اس کے برعکس تین چیزیں اس دور کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ایک یہ کہ اقبال کو اس عرصے میں فارسی کا بہت شوق ہو گیا تھا اور اسی زبان فارسی کو اپنے اظہار خیال اور جذبات کا ذریعہ بھی قرار دیا تھا۔ ہندوستان واپس آ کر پھر سے فارسی اور اردو میں شاعری کرنے لگے تھے۔ دوسرا یہ کہ وہ ایک ملّی شاعر ہو گئے تھے اور ان کے تمام خیالات اسی ایک مرکز پر جمع ہو گئے تھے۔ تیسرا یہ کہ اس دور کی ان کی نظمیں فلسفہ کے عمیق خیالات کے اظہار سے بڑھ گئیں اور فلسفیت ان پر غالب آ گئی جو اقبال کے فلسفۂ مشرق و مغرب پڑھنے کا نتیجہ تھا۔ “ترانہ ملّی” وغیرہ اسی انداز کی نظمیں ہیں۔ غزل گوئی کے اس دوسرے دور میں اقبال نے زبان کی نزاکتوں اور لفظوں کے محل استعمال پر عبور حاصل کیا۔ اقبال کی اس دور کی شاعری میں داغ کے مخصوص رنگ سخن اور انداز فکر کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔

تیسرا دور

اقبال کی شاعری کا تیسرا دور اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب آپ 1908ء میں انگلستان سے ہندوستان واپس آئے تھے۔ جب دوسرے دور میں اقبال کو غزل گوئی پر عبور حاصل ہو گیا تو انہیں بلندیوں کی تلاش ہوئی اور وہ غیر شعوری طور پر غالب کی طرف مائل ہوئے۔ یہ عمل ان کی غزل کے ارتقاء کا تیسرا مرحلہ تھا لیکن غالب بھی غزل گوئی میں اقبال کی منزل مقصود نہ بن سکے۔ غالب کا رنگ و آہنگ اقبال کی شاعری میں ملاحظہ فرمائیں؀

ظاہر کی آنکھ سے نا تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہء دل وا کرے کوئی
عزر آفرینِ حرمِ محبت ہے حسن دوست
محشر میں عزر تازہ نہ پیدا کرے کوئی

اس دور میں اقبال کی مشق شاعری درجہ کمال کو پہچ گئی۔ یہ دور ان کے کلام کا پرزور شیرنئی الفاظ کا خزانہ ہے مگر یہ الفاظ زیادہ تر فارسی میں ہیں اور ملیت کا عنصر اس میں غالب ہے۔ اس دور کی ابتدائی غزلوں میں اقبال کا مخصوص لب و لہجہ کبھی جطیبانہ اور اکثراوقات بیانیہ کے انداز میں ابھرتا ہے۔

یوں تو اقبال ابتداء سے ہی انجمن حمایت الاسلام کے جلسوں میں اپنی غزلیں پڑھا کرتے تھے اور اس لحاظ سے وہ قافی مشہور بھی ہوئے یہی نہیں بلکہ 1910ء میں اقبال انجمن حمایت اسلام کی جنرل کونسل کے رکن بھی منتخب ہوئے اور 1934ء میں صدر منتخب کئے گئے۔

جزبہ حب وطن سے محرومی تو انسان کی بدنصیبی ہے لیکن وطن پرستی ایسی وبا ہے جس نے دنیا کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں تقسیم کر دیا ہے اور مہذب انسان کا اس سے دور رہنا ضروری ہے۔ غرض یہ کہ نسلی امتیاز اور ملک پرستی کو اقبال بدترین لعنت خیال کرنے لگے۔ ایک عالمگیر اسلامی اخوت کا جواب ان کی آنکھوں میں بس گیا۔ اقبال ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں “یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا”۔

ابھی تک ان کی شاعری وطن تک محدود تھی اب وہ اس سے دست بردار ہو گئے تھے۔ بقول جاوید اقبال بسااوقات کہا کرتے تھے کہ “قیام یورپ سے قبل کا کلام میرے زمانۂ جاہلیت کا کلام ہے” اب یہ بات اقبال کے دل میں جاگزیں ہو گئیں کہ شاعری کو بامقصد ہونا چاہیے اور ان حالات میں ضروری ہے کہ شاعری سے پیغمبری کا کام لیا جائے۔ چنانچہ وہ انگلستان سے لوٹے تو اس عزم کے ساتھ کہ……

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
سرشار ہوگی آہ میری, لفظ میرا شعلہ بار ہوگا

اعتماد کے ساتھ مزید عرض کرتے ہیں کہ؀

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

اس دور کی نمائندہ نطموں میں سیر فلک, نصیحت, شکوہ, وطنیت, فلسفہ غم, نوید صبح وغیرہ بانگ درا کے حصہ سوم میں شامل ہیں۔ آخر میں اتنا ضرور عرض کرنا چاہوں گی کہ اقبال محض ایک خوش گو شاعر ہی نہیں بلکہ ایک خوش مزاج شخصیت کے مالک بھی تھے‌۔ اقبال ایک بلند پایہ فلسفی اور مورّخ بھی تھے، وطن و قوم سے محبت اور ہم وطنوں خصوصاً نوجوانوں کے حال سے متعلق درد بھرا دل بھی رکھتے تھے۔ اقبال چاہتے تھے کہ ان کی طرح ان کی قوم کے ہر نوجوان میں قومی درد اور قومی جزبہ پیدا ہو جائے۔

تحریر آفرین ضمیر احمد.