نظم خضر راہ کی تشریح

0

یہ نظم انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ اجلاس میں پڑھی گئی۔ نظم پڑھتے وقت علامہ اقبال اور سامعین پر گریہ طاری رہا۔ اس نظم میں اس دور کے مسلمانوں کی زبوں حالی کو بذریعہ سوالات پیش کیا ہے۔ خلافت کا خاتمہ اور عربوں کی ترکوں سے غداری وغیرہ اس نظم کا پس منظر ہیں۔

شعر 1 :

احلِ دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر
گوشہَ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب

معانی:👈

  • ساحلِ دریا : سمندر یا دریا کا کنارہ
  • محوِ نظر : دیکھنے، نظارہ کرنے میں مصروف
  • گوشہ : کونا
  • جہانِ اضطراب : بے چینی کی دنیا

تشریح :-اس نظم کی تشکیل حضرت خضر علیہ السلام اور ایک شاعر کے مابین مکالمے سے ہوئی ہے۔ حضرت خضر کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ اقبال نے اپنے اشعار میں بے شمار مقامات (جگہ) پر حضرت خضر اور ان کے خصوصی کردار کا ذکر کیا ہے ۔ اقبال کہتے ہیں کہ ایک شاعر رات میں ساحل دریا پر سرگرداں پھر رہا تھا ۔ ان لمحات میں نہ جانے میرا دل کس لیے اضطراب اور بے چینی میں مبتلا تھا۔

شعر 2 :-

شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب

معانی:👈

  • سکوت افزا : خاموشی بڑھانے والی
  • آسودہ : آرام کرنے والی
  • نرم سیر : آہستہ آہستہ بہنے والا
  • تصویرِ آب : پانی کا عکس

تشریح :- وہ رات انتہائی خاموشی بڑھانے والی تھی، ساحل پر خوشگوار ہوا کا دور دورہ تھا اور اسی مناسبت کے ساتھ دریا بھی بڑی آہستگی اور نرم روی کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ شاعر کہتا ہے کہ اس لمحے دریا کا نظارہ کرتے ہوئے مجھے حیرانی اس امر کی تھی کہ یہ دریا ہے یا پھر پانی کی تصویر ہے۔

شعر 3 :-

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیر خوار
موجِ مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب

معانی:👈

  • گہوارہ : جھولا
  • طفلِ شیر خوار : دودھ پینے والا بچہ
  • موجِ مضطر : بے قرار لہر
  • مستِ خواب : نیند میں ڈوبی ہوئی

تشریح :- دریا کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے گہوارے میں کوئی شیر خوار بچہ خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہو۔ یا پھر پانی کی مضطرب موج تھک تھکا کر محو خراب ہو۔

شعر 4 :-

رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجمِ کم ضو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب

معانی:👈

  • فسوں : جادو
  • طائر : پرندہ، پرندے
  • آشیانوں : گھونسلوں
  • اسیر : قیدی
  • انجم کم ضو : تھوڑی روشنی والے ستارے
  • گرفتارِ طلسمِ ماہتاب : چاندنی، چاند کے جادو میں بندھے ہوئے

تشریح :-ان لمحات میں پرندے اپنے آشیانوں میں رات کے سحر میں گرفتار ہو کر سو رہے تھے۔ اور کم روشنی والے ستارے غالباً چاند کے طلسم میں گرفتار تھے۔

شعر 5 :

دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیکِ جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانندِ سحر رنگِ شباب

معانی:👈

  • پیکِ جہاں پیما : دنیا بھر میں گھومنے پھر نے والا قاصد
  • رنگِ شباب : جوانی کی سی تازگی

تشریح:- اُس لمحے سامنے نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ساری دنیا کی رہنمائی کرنے والا خضر رو برو (سامنے) کھڑا ہے اور اس کی ضعیفی میں بھی صبح کی طرح عالم شباب کا رنگ موجود ہے۔

شعر 6 :

کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرارِ ازل
چشمِ دل وا ہو تو ہے تقدیرِ عالم بے حجاب

معانی:👈

  • جویا : جاننے کا خواہشمند
  • اسرارِ ازل : قدرت کے بھید
  • چشمِ دل : مراد بصیرت کی آنکھ
  • تقدیرِ عالم : دنیا، کائنات کی حقیقتیں
  • بے حجاب : بے پردہ ہونا

تشریح :- چند لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہو کر یوں گویا ہوا کہ اے شاعر تو جو ابتدائے آفرینش سے کائنات کے تمام رازوں سے آگاہی رکھنے والاہے۔ اس حقیقت کو بھی پوری طرح جان لے کہ دل کی آنکھیں روشن ہوں تو پوری کائنات کی تقدیر اور اس کے بارے میں تفصیلات واضح ہو کر پردے سے باہر آ جاتی ہیں۔

شعر 7 :

دل میں یہ سُن کر بپا ہنگامہَ محشر ہوا
میں شہید جستجو تھا، یوں سخن گستر ہوا

معانی:👈

  • ہنگامہَ محشر بپا ہونا : قیامت کا سا شور اٹھنا، پیدا ہونا
  • شہید جستجو : تلا ش کا مارا ہوا
  • سخن گستر : بات کرنے والا

تشریح :- حضرت خضر کی زبان سے یہ نکتہ میری سماعت سے ٹکرایا تو دل میں ایک محشر سا بپا ہو گیا ۔ میں تو ابتدا سے ہی حقیقت کی تلاش و جستجو میں مگن رہا تھا۔ حضرت خضر سے مخاطب ہو کر بولا۔

شعر 8 :

اے تری چشمِ جہاں بیں پر وہ طوفاں آشکار
جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش

معانی:👈

  • چشمِ جہاں بیں : ایسی آنکھ، نگاہ، جس نے دنیا کو خوب دیکھا ہو
  • سوتے ہیں خموش : یعنی ابھی برپا نہیں ہوئے

تشریح :- اے خضر تو بے شک صاحب بصیرت انسان ہے جس کی نگاہیں ان طوفانوں سے بھی آگاہی رکھتی ہیں جو ابھی خاموشی کے ساتھ دریا میں محو خواب ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تو انقلابات سے بھی واقف ہے جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئے۔

شعر 9 :

کشتیِ مسکین و جانِ پاک و دیوارِ یتیم
علمِ موسیٰ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش

معانی:👈

  • کشتیِ مسکین : ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے حضرت خضر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک غریب کی کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے اس کشتی میں سوراخ کر دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراض کیا تو حضرت خضر نے جواب دیا کہ بادشاہ کے آدمی بیکار میں کشتیاں پکڑ رہے تھے ۔ میں نے سوراخ اس لیے کیا تا کہ اس غریب کی کشتی بچ جائے۔
  • جانِ پاک : اسی مذکورہ سفر میں حضرت خضر نے ایک نوجوان کو قتل کر دیا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام معترض ہوئے تو حضرت خضر نے جواب دیا کہ یہ نوجوان ملحد تھا اور اس کے ماں باپ مومن، اس کی کوشش تھی کی والدین بھی ملحد ہو جائے۔ اس لیے میں نےاسے قتل کر دیا۔
  • دیوارِ یتیم : اسی طرح حضرتِ خضر اور حضرتِ موسٰی علیہ السلام ایک بستی سے گزرے تو ان بستی کے لوگوں سے کھانا مانگا تو انھوں نے کھانا دینے سے انکار کر دیا۔ کچھ آگے بڑھے تو ایک مکان جس کی دیوار گرنے والی تھی حضرت خضر نے اس کی مرمت کر دی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیموں کے باپ کا خزانہ دفن ہے اگر دیوار گر جاتی تو لوگ یہ خزانہ اٹھا لیتے اس کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ دیوار بنائی۔
  • علمِ موسیٰ : حضرت موسیٰ کی بصیرت اور معجزے
  • حیرت فروش : بیحد حیران

تشریح :- اس شعر میں اقبال سورہ کہف میں بیان کردہ ایک واقعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک یتم و مسکین کی کشتی کو خراب کرنے ایک بے گناہ بچے کا قتل اور ضیافت سے انکار کر دینے کے باوجود یتیم بچے کی دیوار کو ازسر نو تعمیر کرنا اور ان کے بارے میں حضرت موسی سے اعتراضات اور سوالات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ نبی ہونے کے باوجود حضرت موسیٰ جیسے پیغمبر کا علم بھی تیرے سامنے حیرت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

شعر 10 :

چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد
زندگی تیری ہے بے روز و شبِ فردا و دوش

معانی:👈

  • صحرا نورد : جنگلوں، ریگستانوں میں گھومنے پھرنے والا
  • بے روز و شب و فردا و دوش : دن رات آنے والے کل اور گزرے ہوئے کل کے بغیر، یعنی وقت کی قید سے آزاد

تشریح :- اے خضر آخر یہ کیا تماشا ہے کہ تو آبادیوں کو چھوڑ کر ریگستانوں میں گھومنے پھرنے میں مصروف رہتا ہے اور تیری زندگی دیکھا جائے تو رات دن کے علاوہ آج اور کل یعنی ماضی و مستقبل کے تصورات سے قطعی آزاد ہے۔

شعر 11 :

زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے
اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش

معانی:👈

  • زندگی کا راز : زندگی کی حقیقت، اصلیت
  • خروش : شور، ٹکراوَ

تشریح:- لیکن اتنا بتا دے کہ یہ جو انسان کی زندگی ہے اس کا حقیقی بھید کیا ہے سلطنت و حکومت کی نوعیت کیا ہے اور یہ جو سرمایہ و محنت کے مابین آویزش ہے اس کی بنیاد کیا ہے یعنی سرمایہ دار اور محنت کش کے مابین تصادم کی فضا کیوں قائم ہے۔

شعر 12 :

ہو رہا ہے ایشیا کا خرقہَ دیرینہ چاک
نوجوان اقوامِ نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش

معانی:👈

  • دیرینہ چاک ہونا : پرانی گدڑی کا پھٹ جانا، مراد پرانے طور طریقے اور خصوصیات چھوڑ دینا
  • نوجوان : یعنی نئی نسل کے لوگ
  • اقوامِ نو دولت : وہ قومیں جنھیں نئی دولت ہاتھ لگی ہو
  • پیرایہ پوش : یعنی نقالی، پیروی کرنے والا

تشریح :- اے خضر دانا! آج صورتحال یہ ہے کہ ایشیائی ممالک کی تہذیب و ثقافت دم توڑ رہی ہے اور نئی نئی اقوام ہیں کہ اقتدار حاصل کر رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نئی نسلیں ان تازہ ترقی پزیر قوموں کے انداز و اطور اپنا رہی ہیں۔

شعر 13 :

گرچہ اسکندر رہا محرومِ آبِ زندگی
فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناوَ و نوش

معانی:👈

  • اسکندر : سکندرِ رومی
  • آبِ زندگی : آب حیات جسے پینے والا ہمیشہ زندہ رہتا ہے
  • فطرتِ اسکندری : سکندر کا مزاج، فتوحات، بادشاہت
  • گرم ناوَ نوش : پینے پلانے میں مصروف

تشریح :- ہر چند کہ سکندر جیسا اولوالعزم فاتح پوری کوشش اور جدوجہد کے باوجود آب حیات سے محروم رہا اور ہمیشگی کی زندگی نہ اپنا سکا۔ اس کے باوجود آج بھی سکندر کی مانند جنگ و جدل اور فتح و شکست کا سلسلہ جاری و ساری ہے‌۔

شعر 14 :

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفےٰ
خاک و خوں میں مل رہا ہے تُرکمانِ سخت کوش

معانی:👈

  • ہاشمی : مراد عرب حکمران جنھوں نے 1916ء میں ترکوں کے ساتھ غداری کی جس سے ترکی خلافت ختم ہو گئی۔
  • بیچتا ہے : اشارہ ہے عربوں کی اسی غداری کی طرف
  • ناموسِ دینِ مصطفی : حضور اکرم کے دین، اسلام کی عزت
  • خاک و خون میں ملنا : بری طرح تباہ ہونا
  • سخت کوش : بیحد محنتی جفاکش

تشریح :- ہاشمی جن کے طفیل ساری دنیا میں اسلام وسعت پذیر ہوا آج ناموس رسول مقبول کو داوَ پر لگائے بیٹھے ہیں اور ترک جو ایک عرصے تک اسلام کے مخالف رہے اب اس کی بقا کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔

شعر 15 :

آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے

معا نی:👈

  • آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے : اشارہ ہے 1914ء کی عالمگیر جنگ کی آگ کی طرف۔ اولادِ ابراہیم یعنی مسلمان اور نمرود یعنی یہ جنگ چھیڑنے والی یورپی قو میں
  • مقصود ہے : خواہش ہے

تشریح:- ماضی کی طرح حضرت ابراہیم کی اولاد اور نمرود کے مابین آویزش جاری ہے یعنی حق و باطل میں بدستور تصادم ہے۔ اتنا بتا کہ کیا اب بھی مسلمان امتحان کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

تحریر محمد طیب عزیز خان محمودی🔺
https://m.youtube.com/watch?v=pc6eRupqMNY&feature=youtu.be