اقبال کا فنی و فکری ارتقاء

0

شاعری کی ابتداء

اقبال کی شاعری پر اظہار خيال کرنے والے مفکرين اس بات پر متفق ہيں کہ ان کی شاعری کا آغاز اسی وقت وہ گيا جب وہ ابھی سکول کے طالب علم تھے اس سلسلے ميں شيخ عبدالقادر کہتے ہيں،
”‌ جب وہ سکول ميں پڑھتے تھے اس وقت سے ہی ان کي زبان سے کلام موزوں نکلنے لگا تھا-“
عبدالقادر سہروردي کا کہنا ہے کہ،
”‌ جب وہ سکول کی تعليم ختم کر کے اسکاچ مشن کالج ميں داخل ہوئے تو ان کی شاعری شروع ہوئی-“

ان دونوں آراء ميں اگرچہ معمولي سا اختلاف ہے ليکن يہ بات ثابت ہو جاتي ہے کہ علامہ اقبال کي شاعري کا آغاز انہي دنوں ہوگيا تھا جب وہ اپنے آبائي شہر سيالکوٹ کے چھوٹے موٹے مشاعروں ميں بھي شرکت کيا کرتے تھے- ليکن ان کي اس زمانہ کي شاعري کا نمونہ دستياب نہيں ہو سکا ہے- کچھ عرصہ کے بعد علامہ اقبال جب اعليٰ تعليم کے لئے لاہور پہنچے تو اس علمي ادبي مرکز ميں ان کي شاعرانہ صلاحيتوں کو ابھرنے اور تربيت پانے کا سنہري موقعہ ہاتھ آيا، يہاں جگہ جگہ شعر و شاعري کي محفلوں کا چرچا تھا-

مرزا رشد گورگاني دہلوي اور مير ناظم لکھنوي جيسے پختہ کلام اور استادي کا مرتبہ رکھنے والے شاعر يہاں موجود تھے اور ان اساتذہ شعر نے ايک مشاعرے کا سلسلہ شروع کيا تھا- جو ہر ماہ بازارِ حکيماں ميں منعقد ہوتا رہا- اقبال بھي اپنے شاعرانہ ذوق کي تسکين کي خاطر اس مشاعر ے ميں شريک ہونے لگے- اس طرح مرزا ارشد گورگاني سے وہ بحيثيت شاعر کے متعارف ہوئے اور رفتہ رفتہ انہوں نے مرزا صاحب سے اپنے شعروں پر اصلاح بھي ليني شروع کر دي- اس زمانہ ميں وہ نہ صرف غزليں کہا کرتے تھے- اور يہ غزليں چھوٹي بحروں ميں سادہ، خيالات کا اظہار لئے ہوئي تھيں- البتہ شوخي اور بے ساختہ پن سے اقبال کي شاعرانہ صلاحيتوں کا اظہار ضرور ہو جاتا تھا- بازار حکيماں کے ايک مشاعرے ميں انہي دنوں اقبال نے ايک غزل پڑھي جس کا ايک شعر يہ تھا-

موتی سمجھ کے شانِ کريمی نے چن لئے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے

اس شعر کا سننا تھا کہ محفل مشاعرہ ميں موجود سخن سنج اصحاب پھڑک اُٹھے اور مرزا ارشد گورگاني نے اسي وقت پيشن گوئي کي کہ اقبال مستقبل کے عظيم شعراء ميں سے ہوگا-

شاعری کي شہرت

اقبال کي شاعري کا چرچا شروع شروع ميں بازار حکيماں کے مشاعروں تک محدود تھا- يا پھر لاہور کے کالجوں کي ادبي مجالس ميں انہيں شاعر کي حيثيت سے پہچانا جاتا تھا- ليکن زيادہ عرصہ نہيں گذرا تھا کہ شہر کي ادبي مجالس ميں انہيں ايک خوش گو اور خوش فکر نوجوان شاعر کي حيثيت سے پہنچانا جانے لگا- انہي دنوں انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پر بھي توجہ کي-

ايک ادبي مجلس ميں انہوں نے اپني اولين نظم ”‌ہمالہ“ سنائي تو اسے بہت پسند کيا گيا- چنانچہ اقبال کي يہ پہلي تخليق تھي جو اشاعت پذير ہوئي- شيخ عبدالقادر نے اسي زمانہ ميں اردو زبان و ادب کي ترويج و ترقي کے لئے اپنا پہلا مشہور رسالہ ”‌مخزن“ جاري کيا تھا- اس کے پہلے شمارے ميں اپريل 1901 ء ميں اقبال کي يہ نظم شائع ہوئي يہ گويا ان کي باقاعدہ شاعري کا آغاز تھا- ان کے پہلے مجموعہ کلام ”‌بانگ درا“ کي اولين نظم يہي ہے- اور اسي نظم کے چھپنے کے بعد ان کي شہرت روز بروز پھيلتي چلي گئي-

شاعری کے مختلف ادوار

اقبال کے ذہني و فکري ارتقاء کي منازل کا تعين اس کي شاعري کو مختلف ادوار ميں تقسيم کرکے کيا جاتا رہا ہے کيونکہ اقبال نے اپنے افکار و خيالات کے اظہار کا ذريعہ شاعري کو ہي بنايا ہے- يہ طريقہ سب سے پہلے شيخ عبدالقادر نے اختيار کيا تھا- انہوں نے ”‌بانگ درا“ کا ديباچہ لکھتے وقت اقبال کي شاعري پر تبصرہ کيا ہے- اور اسے تين ادوار ميں تقسيم کيا ہے- ليکن يہ تقسيم بعد ميں اس لئے قابل قبول نہيں رہي کہ شيخ عبدالقادر کے پيش نظر اقبال کا وہ کلام تھا جو ”‌بانگ درا“ ميں شامل ہے-

بعد کے نقادوں کے ان کے پورے کلام کو پيش نظر رکھ کر شيخ عبدالقادر کي پيروي کرتے ہوئے اُسے مختلف ادوار ميں تقسيم کيا ہے- چنانچہ مولانا عبدالسلام ندوي اور طاہر فاروقي نے اقبال کي شاعري کے چار ادوار قائم کئے ہيں- ان دونوں کے ہاں ادوار کا تعين تقريباً يکساں ہے- طاہر فاروقي نے اپني کتاب ”‌سيرت اقبال“ اور عبدالسلام ندوي نے اپني کتاب”‌ اقبال کامل“ ميں ان ادوار کا تعين کيا ہے- ان دونوں کے نزديک اقبال کي شاعري کے مندرجہ ذيل چار ادوار ہيں-

  • 1- پہلا دور از ابتداء1905ء يعني اقبال کے بغرضِ تعليم يورپ جانے تک کي شاعري
  • 2-دوسرا دور 1905ء تا 1908ء يعني اقبال کے قيامِ يورپ کے زمانہ کي شاعري
  • 3- تيسرا دور 1908ء تا 1924ء يعني يورپ سے واپس آنے کے بعد ”‌بانگ درا “ کي اشاعت تک کي شاعري
  • 4- چوتھا دور 1924ءتا 1938ء”‌بانگ درا“ کي اشاعت سے اقبال کے وفات تک کي شاعري

بعد ميں ڈاکٹر سيد عبداللہ نے اپني کتاب ”‌طيف اقبال“ ميں يہي طريقہ استعمال کرتے ہوئے صرف ايک دور کا اضافہ کرتے ہوئے اقبال کي شاعري کو پانچ ادوار ميں تقسيم کيا ہے- ڈاکٹر سيد عبداللہ نے دراصل اقبال کي شاعري کو ان سياسي واقعات کي روشني ميں تقسيم کرنے کي کوشش کي ہے جن سے ہندوستان کے مسلمان متاثر ہوتے رہے- اس لئے ان کي شاعري کي تقسيم ان چار ادوار ميں ہي درست ہے جو مولانا عبدالسلام ندوي اور طاہر فاروقي نے متعين کئے ہيں-

شاعری کا پہلا دور

اقبال کي شاعري کا پہلا دوران کي شاعري کي ابتداء سے 1905 ء تک يا بالفاظِ ديگر اس وقت تک شمار کيا جاسکتا ہے جب وہ اعليٰ تعليم کے حصول کي خاطر يورپ روانہ ہوئے- اس دور کي خصوصيات ذيل ہيں-

روايتی غزل گوئی

اپني شاعري کے بالکل ابتدائي زمانہ ميں اقبال کي توجہ غزل گوئي کي جانب تھي اور ان غزلوں ميں رسمي اور روايتي مضامين ہي باندھے جاتے تھے- واپس آنے کے بعد انہوں نے مرزا ارشد گورگاني سے اصلاح ليني شروع کي تب بھي ان کي غزلوں کا روايتي مزاج برقرار رہا – البتہ ان کي طبيعت کي جدت طرازي کبھي کبھي ان سے کوئي ايسا شعر ضرور کہلوا ديتي تھي جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہوتا تھا- يہ وہ زمانہ تھا جب استاد داغ کي زبان داني اور شاعري کا چرچا تمام ہندوستان ميں پھيلا تھا- اقبال نے اصلاحِ سخن کي خاطر داغ سے رابطہ پيدا کيا- وہ نہ صرف اپني غزلوں پر داغ سے اصلاح ليتے رہے بلکہ داغ کا لب و لہجہ اور رنگ اپنانے کي کوشش بھي کي- اور داغ کي طرز ميں بہت سي غزليں کہيں – چند غزليں جو اس دور کي يادگار کے طور پر باقي رہ گئي ہيں وہ واضح طور پر داغ کے رنگ نماياں کرتي ہيں انہي ميں سے وہ مشہور غزل بھي ہے جس کے چند اشعار يہ ہيں-

نہ آتے ہميں اس ميں تکرار کيا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کيا تھی
تمہارے پيامی نے سب راز کھولا
خطا اس ميں بندے کي سرکار کيا تھی

نظم نگاری

اقبال نے جلد ہي اندازہ کر ليا تھا کہ روايتي قسم کي غزل گوئي ان کے مزاج اور طبيعت سے مناسبت نہيں رکھتي اور انہيں اپنے خيالات کے اظہار کے لئے زيادہ وسيع ميدان کي ضرورت ہے چنانچہ انہوں نے نظم نگاري کي جانب توجہ کي اور اس کا آغاز”‌ ہمالہ“ جيسي خوبصورت نظم لکھ کر کيا جسے فوراً ہي قبول عام کي سند حاصل ہوگئي- اس سي ان کا حوصلہ بندھا اور انہوں نے پے درپے نظميں لکھني شروع کر ديں – انہي نظموں ميں ان کي وہ مشہور نظميں شامل ہيں جو ”‌نالہ يتيم “، ”‌ہلال عيد سے خطاب“ اور ”‌ابر گہر بار“ کے عنوان سے انجمنِ حمايت اسلام کے جلسوں ميں پڑھي گئيں-

مغربی اثرات

اقبال کو شروع ہی سے مغربی ادب کے ساتھ شغف رہا تھا چنانچہ اپني شاعري کے ابتدائي زمانہ ميں انہوں نے بہت سي انگريزي نظموں کے خوبصورت ترجمے کئے ہيں- ”‌پيام صبح “، ”‌عشق اور موت“ اور ”‌ رخصت اے بزم جہاں“ جيسي نظميں ايسے تراجم کي واضح مثاليں ہيں- اس زمانہ ميں انہوں نے بچوں کے لئے بھي بہت سي نظميں لکھي ہيں- مثلاً مکڑاور مکھي، ايک پہاڑ اور گلہري، ايک گائے اور بکري ، بچے کي دعا، ماں کا خواب، ہمدردي وغيرہ يہ تمام نظميں مغربي شعراء کے کلام سے ماخوذ ہيں-

فلسفہ خودی

اقبال کے ابتدائي دور کي کئي نظميں اس لحاظ سے بہت اہميت کي حامل ہيں کہ ان ميں اقبال کي فلسفہ خودي کے کئي عناصر اپني ابتدائي اور خام شکل ميں موجود ہيں- يہي عناصر ہيں جنہيں آگے چل کر اپني صورت واضح کي اور مربوط و منظم ہو کر اقبال کے نظام فکر ميں بنيادي حيثيت اختيار کر لي اور اس کا نام فلسفہ خودي قرار پايا- اس فلسفہ خودي کے درج ذيل عناصر ہيں-

  • 1 .اقبال کے فلسفہ خودي ميں انسان کي فضيلت، استعداد اور صلاحيتوں کا بڑا زور ديا گيا ہے-
  • 2 .فلسفہ خودي کا دوسرا بڑا عنصر عشق اور عقل کي معرکہ آرائي ميں عشق کي برتري کا اظہار ہے-
  • 3 .فلسفہ خودي کا ايک اور عنصر خير و شر کي کشمکش ہے جو کائنات ميں ہر آن جاري ہے-
  • 4 .فلسفہ خودي کا ايک بہت قوي عنصر حياتِ جاوداني اور بقائے دوام کا تصور ہے-
  • 5 .اقبال کے فلسفہ خودي کا ايک اہم عنصر يہ ہے کہ زندگي کي جہد مسلسل خيال کرتے ہيں-

اقبال کے اس ابتدائي دور کي شاعري کا مجموعي طور پر جائزہ ليا جائے تو ڈاکٹر سيد عبداللہ کے بقول ،
”‌ يہ ايک طرح کا جستجو، کوشش، اظہار اور تعمير کا دور ہے اقبال کي آنے والي شاعري کے بيشتر رجحانات اور شاعرانہ افکار کے ابتدائي نقوش و آثار اس شاعري ميں مل جاتے ہيں-“
جبکہ ڈاکٹر عبداللہ روماني کا کہنا ہے-
”‌ اس دور کا اقبال نيچر پرست ہے اور جو چيز اس دور کي نظموں ميں نماياں نظر آتي ہے وہ تنہائي کا احساس ہے اس بھري انجمن ميں اپنے آپ کو تنہا سمجھنے کا احساس اور زادگانِ فطرت سے استعفار اور ہم کلامي اقبال کي رومانيت کي واضح دليل ہے-“

شاعری کا دوسرا دور

اقبال کي شاعری کا دوسرا دور 1905ء ميں ان کي يورپ کے لئے روانگي سے لےکر 1908ء ميں ان کے يورپ سے واپسي تک کے عرصہ پر محيط ہے- گويا اس دور ميں ان کا وہ کلام شامل ہے جو انہوں نے اپنے قيام يورپ کے دوران لکھا اس تمام عرصہ ميں انہيں شعري مشغلہ کے لئے بہت کم وقت ملا کيونکہ ان کا زيادہ وقت اعليٰ تعليم کے حصول پي – ايچ – ڈي کے لئے تحقيقي مصرفيات اور مغربي افکار کے مطالعہ ميں صرف ہوتا رہا- شائد ان ٹھوس علمي مصروفيات کا يہي اثر تھا کہ ايک مرحلہ پر وہ شاعري کو بيکار محض تصور کرنے لگے اور اس مشغلہ کو ترک کرنے کا ارادہ کر ليا- شيخ عبدالقادر جو اُن دنوں انگلستان ميں تھے لکھتے ہيں کہ،
”‌ ايک دن شيخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا مصمم ارادہ ہو گيا ہے کہ وہ شاعري کو ترک کر ديں اور قسم کھا ليں کہ شعر نہيں کہيں گے- ميں نے ان سے کہا کہ ان کي شاعري ايسي شاعري نہيں جسے ترک کرنا چاہيے- شيخ صاحب کچھ قائل ہوئے کچھ نہ ہوئے آخر يہ قرار پايا کہ آخري فيصلہ آرنلڈ صاحب کي رائے پر چھوڑا جائے – آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق رائے کيا اور فيصلہ يہي ہوا کہ اقبال کے لئے شاعري چھوڑنا جائز نہيں-“
اس زمانہ کي شاعري کي خصوصيات درجِ ذيل ہيں،

پيامبری

اقبال کي اس دور کي شاعري ميں يورپ کے مشاہدات کا عکس واضح نظر آتا ہے يورپ کي ترقي کے مشاہدہ نے ان پر يہ راز کھولا کہ زندگي مسلسل جدوجہد، مسلسل حرکت، مسلسل تگ و دو اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے سے عبارت ہے- اس لئے مولانا عبدالسلام ندوي کہتے ہيں،
”‌ اسي زمانہ ميں ان کا زاويہ نگاہ تبديل ہوگيا اور انہوں نے شاعر کي بجائے پيامبر کي حيثيت اختيار کر لي-“
چنانچہ انہوں نے ”‌طلبہ علي گڑھ کالج کے نام“ کے عنوان سے جو نظم لکھي اس ميں کہتے ہيں،

اوروں کا ہے پيام اور ، ميرا پيام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے
شمع سحر کہہ گئي، سوز ہے زندگي کا راز
غمکدہ نمود ميں ، شرط دوام اور ہے

اس طرح چاند اور تارے اور کوشش ناتمام بھي اسي پيغام کي حامل ہيں-

يورپی تہذيب سے بيزاری

اقبال يورپ کي ترقي سے متاثر ہوئے تھے ليکن ترقي کي چکا چوند انہيں مرغوب نہيں کرسکتي ہے- وہ صحيح اسلامي اصول و قوانين اور قرآني احکام پر عمل کرنے اور بري باتوں سے پرہيز کرنے کے قائل ہيں- مغربي تہذيب کا کھوکھلا پن ان پر ظاہر ہوتا ہے وہ اس سے بےزاري کا اظہار و اشگاف الفاظ ميں کرتے ہيں-

ديارِ مغرب کے رہنے والو خدا کي بستي دکاں نہيں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر اب کم عيار ہوگا
تمہاري تہذيب اپنے خنجر سے آپ ہي خود کشي کرے گي
جو شاخ نازک پر بنے گا آشيانہ ناپا ئيدار ہوگا

اسلامی شاعری

مغربي تہذيب کے کھوکھلے پن اور ناپائيداري کا ادراک کرنے کے بعد اورجس فن افکار نے اس تہذيب کو جنم ديا تھا ان کي بے مائيگي کو سمجھ لينے کے بعد اقبال آخر کار اسلامي نظريہ فکر کي جانب راغب ہوئے- اسي تغير فکر نے ان کے اندر ملتِ اسلاميہ کي خدمت کا جذبہ بيدار کيا- اس جذبے کي عکاسي ان کي نظم ”‌شيخ عبدالقادر کے نام “ ميں ہوتي ہے- جہاں وہ لکھتے ہيں-

اُٹھ کہ ظلمت ہوئي پيدا افقِ خاور پر
بزم ميں شعلہ نوائي سے اجالا کرديں
شمع کي طرح جئيں بزم گہ عالم ميں
خود جليں ديدہ اغيار کو بينا کر ديں

فارسی شاعری کا آغاز

اس دور ميں اقبال نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسي ميں طبع آزمائي شروع کي – فارسي زبان کي وسعت اور اس کے پيرايہ اظہار و بيان کي ہمہ گيري کے ساتھ اقبال کو اپني شاعري کے وسيع امکانات کي بڑي مطابقت نظر آئي-

اس دور تک پہنچتے پہنچتے اقبال کے افکار و خيالات کسي قدر واضح اور متعين شکل اختيار کرنے لگتے ہيں- يورپي تہذيب کي ملمع کاري اور کھوکھلے پن کا ان پر اظہار ہوگيا ہے اور وہ ملک کي نجات مشرقي افکار و نظريات ميں پانے لگے ہيں- اس ملت کے لئے ان کے پاس اب يہ پيغام ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں پر سختي سے کار بند ہوں-

شاعری کا تيسرا دور

اقبال کي شاعري کا تےسرا دور 1908ء ميں يورپ سے ان کي واپسي کے ساتھ شروع ہوتا ہے- اور 1924ء ميں ”‌بانگ درا“ کي اشاعت تک شمار کيا جاتا ہے يہ دور ان کے افکار و خيالات کي تکميل اور تعين کا دور ہے اس دور کي خصوصيات مندرجہ ذيل ہيں-

وطنيت و قوميت

اقبال نے قيام يورپ کے دوران اُن اسباب کا بھي تجزيہ کيا تھا جو مغربي اقوام کي ترقي اور عروج ممد و معاون ہونے اور ان حالات کا بي گہرا مشاہدہ کيا تھا جو مشرقي اور خاص طور پر اسلامي ممالک کے زوال اور پسماندگي کا باعث بنے- ان کي تيز بين نظروں کے سامنے اب وہ تمام حربے بے نقاب تھے جو مغربي اقوام نے مشرق کو غلام بنائے رکھنے کے لئے وضع کر لئے تھے- ان سب حربوں ميں زيادہ خطرناک حربہ وطنيت اور قوميت کا نظريہ تھا- اس تصور کو ملتِ اسلاميہ کے لئے سب سے زيادہ نقصان دہ سمجھنے لگے اِسي لئے انہوں نے کہا کہ،

ان تازہ خدائوں ميں بڑا سب سے وطن ہے
جو پيرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقوام ميں مخلوقِ خدا بٹتي ہے اس سے
قوميت اسلام کي جڑ کٹتي ہے اس سے

اسلامی شاعری

اس دور ميں اقبال صرف وطنيت اور قوميت کے مغربي نظريہ کو مسترد کرکے اس کے مقابلے ميں ملت کے اسلامي نظريہ کي تبليغ ہي نہيں کرتے- بلکہ اب ان کي پوري شاعري کا مرکز و محور ہي اسلامي نظريات و تعليمات بن گئے- اگرچہ اس زمانہ ميں انہوں نے دوسرے مذہبي پيشوائوں مثلاً رام اور گورونانک وغيرہ کي تعريف ميں بھي نظميں لکھيں ہيں- ليکن بحيثيت مجموعي ان کي پوري توجہ اسلام اور ملت اسلاميہ کي جانب ہے- ”‌شمع و شاعر“ اور ”‌خضر راہ“ اس زمانے کے حالات کا بھرپور جائزہ ليتي ہوئي نظميں ہيں-

فلسفہ خودی

اس دور ميں اقبال کا فلسفہ خودي پوري طرح متشکل ہو کر سامنے آيا- ان کي اس دور کي شاعري تمام کي تمام اسي فلسفہ کي تشريح و توضيح ہے- چنانچہ اردو شاعري ميں بھي اس فلسفہ کا اظہار اکثر جگہ موجود ہے اسي زمانہ ميں انہوں نے کہا،

تور از کن فکاں ہے اپني آنکھوں پر عياں ہو جا!
خودي کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہوجا
خودي ميں ڈوب جا غافل، يہ عين زندگاني ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہوجا

شاعری کا چوتھا دور

يہ دور 1924ء سے لے کران کے وفات تک ہے اس کي خصوصيات درج ذيل ہيں-

طويل نظميں

”‌بانگ درا“ ميں اقبال کي کئي نظميں شامل ہيں جن ميں سے اکثر خارجي اور سياسي محرکات کے زير اثر ہيں- يہ محرکات چونکہ بہت ہيجان خيز تھے اس لئے نظموں ميں جوش و جذبہ کي فضا پوري طرح قائم رہي ہے- مثال کے طور پر ”‌شکوہ“ ”‌جواب شکوہ“ ، ”‌شمع و شاعر“ ، طلوع اسلام“ وغيرہ نظموں کے نام لئے جا سکتے ہيں – کئي طويل نظميں ”‌بال جبريل “ ميں ہيں جيسے ”‌ساقي نامہ“ وغيرہ-
نئے تصورات۔ اس دور کے کلام ميں کچھ نئے تصورات سامنے آئے مثلاً شيطان کے متعلق نظم ”‌ جبريل ابليس“

ہے مري جرات سے مشت خاک ميں ذوق نمود
ميرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تاروپو
گر کبھي خلوت ميسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہ آدم کو رنگيں کر گيا کسِ کا لہو

گزشتہ ادوار کی تکميل

بيشتر اعتبار سے يہ گزشتہ ادوار کي تکميل کرتا ہے- مثلاً پہلے ادوار ميں وہ يورپي تہذيب سے بيزاري کا اظہار کرتے ہيں جبکہ اس دور ميں وہ اس کے خلاف نعرہ بغاوت بلندکرتے ہيں اور اس کے کھوکھلے پن کو واشگاف کرتے ہيں-

افکار و نظريات ميں تغير و تضاد

اقبال کي شاعري کے مندرجہ بالا تفصيلي جائزہ سے يہ بات پوري عياں ہو جاتي ہے کہ وہ فکري ارتقاء کي مختلف منازل سے ضرور گزرے ہيں- ليکن فکري اور نظرياتي تضاد کا شکار کبھي نہيں ہوئے – ابتدائي دور ميں وہ وطن پرست تھے تو آخر وقت تک محب وطن رہے ہيں ليکن وطن کي حيثيت انہوں نے تسليم کرنے سے انکار کر ديا جو انسان کو مختلف گروہوں ميں تقسيم کرکے آپس ميں برسرِ پيکار رہتي ہے-

کچھ عرصہ بعد انہيں يہ شعور حاصل ہوکہ وہ ايسي ملت کے فرد ہيں جو جغرافيائي حدود ميں سمونا نہيں جانتي اس کا نتيجہ يہ نہيں ہوا کہ انہوں نے اپنے ہم وطن ديگر مذاہب کے پيرووں کے لئے نفرت کا اظہار کيا ہو- بلکہ صرف يہ ہوا کہ انہوں نے اپنا تشخص اس ملت کے حوالہ سے کيا جس کا وہ حصہ تھے- يہ ان کي فکري ارتقاء کے مختلف مراحل کے نشانات ہيں اور وہ بہت جلد وطن اور ملت کے متعلق ايک واضح نکتہ نظر کو اپنا چکے تھے- اس کے بعد وہ آخر وقت تک اسي نکتہ نظر کي وضاحت اور تبليغ ميں مصروف رہے اور کسي مقام پر کوئي الجھائو محسوس نہيں کيا۔