علامہ اقبالؔ کی خودی

0

‘خودی’ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ “خود” سے مشتق ہے،خودی بامعنی ذات خویش جسے عربی میں انا اور انگریزی میں (Selea) کہتے ہیں۔خودی کو اردو میں لفظ “میں” سے تعبیر کرسکتے ہیں۔جب ایک انسان یہ کہتا ہے کہ مثلاً میں یہ کام کروں گا تو وہ لفظ ‘میں’ سے اپنی ذات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ہم اس کی تشریح نہیں کر سکتے کہ یہ ‘میں’ دراصل کیا ہے، بس اتنا جانتے ہیں کہ وہ موجود ہے۔اقبال کا پیغام یہی ہے کہ اس نقطۂ نوری کو پہچانو۔

خودی کے مرادی معنی


خودی سے ہم بعض اوقات خود داری اور عزت نفس بھی مراد لیتے ہیں اور اس مفہوم کی سرحد تکبر سے ملی ہوئی ہے یعنی جب اس جذبہ میں افراط ہوجائے تو تکبر کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے۔

تصوف میں خودی کا مفہوم

صوفیا کے لٹریچر میں خودی سے خود بینی یا تکبر مراد لی گئی ہے۔ وہ خودی کو اچھے معنوں میں استعمال نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ہمیں تصوف کی کتابوں میں ایسے جملے ملتے ہیں کہ جب تک خودی کو نہ مٹایا جائے خدا نہیں مل سکتا،گویا صوفیا خودی کو تکبر کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، وہی تکبر جس کے متعلق سعدی نے لکھا ہے؀

تکبر عزازیل را خوار کرد
بزندان لعنت گرفتار کرد

یہی وجہ ہے کہ جب 1914ء میں اقبال نے اپنے شہرہ آفاق مثنوی “اسرار خودی” شائع کی تو صوفیوں کی جماعت نے ازراہ نادانی ان پر اعتراض کیا کہ اقبال تو مسلمانوں کو تکبر کی تعلیم دے رہے ہیں اور یہ ہنگامہ 1915ء سے شروع ہو کر 1920ء تک جاری رہا۔چنانچہ علامہ اقبال نے اس باب میں اپنی پوزیشن واضح کی اور بتایا کہ خودی کو میں نے ان معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے۔

خودی کے اصطلاحی معنی

علامہ اقبال کے کلام میں خودی سے خود بینی یا غرور مراد نہیں ہے بلکہ اس کا مصداق وہ شے ہے جس سے قیامت کے دن بازپرس ہوگی یا وہ شے مراد ہے جس کا تزکیہ کر لیا جائے گا تو انسان فلاح پا جائے گا۔چنانچہ اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے “قد افلح من زكاها” تحقیقکہ وہ مراد کو پہنچا جس نے اس نفس کو سنوار لیا یعنی جس نے اپنی خودی کا تزکیہ کر لیا وہ کامیاب ہو گیا۔

اقبال کے الفاظ میں خودی ایک نقطہ نوری ہے۔ چنانچہ گلشن راز جدید میں لکھتے ہیں؀

نقطہ نوری کہ نام اور خودی است
زیر خاک ما شرار زندگی است

یعنی خودی ایک غیر مادی جوہر ہے لیکن مادی جسم پر تصرف کرسکتی ہے۔یہ موج نفس کیا ہے؟ تلوار ہے، خودی کیا ہے؟تلوار کی دھار ہے۔خودی وہی شے ہے جس سے منطقی اصلاح میں نفس ناطقہ کہتے ہیں اور قرآن مجید نے اس کو کہیں نفس سے تعبیر کیا ہے،کہیں روح سے، اور اس کی تین حالتیں بیان کی ہیں۔نفس امارہ، نفس لوامہ، اور نفس مطمئنہ۔

خودی وہ جوہر ہے جس کی بدولت انسان استنباط، استخراج اور استدلال کر سکتا ہے۔خودی وہ جوہر ہے جس کی بنا پر انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب عنایت ہوا ہے اور انسان کی خودی اس احساس کا نام ہے کہ میں اشرف المخلوقات ہوں۔خودی میں بے اندازہ قوتیں مخفی ہیں اور اقبال کے فلسفہ خودی کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان ان مخفی قوتوں کی صحیح طریق پر تربیت کر لے۔اور تربیت کا طریقہ یہ ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی کامل اتباع کرے اور اتباع کی واحد صورت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے محبت کرے۔

خلاصہ کلام یہ کہ عشق رسولﷺ کے بغیر اتباع رسول ناممکن ہے۔اور اتباع رسول کے بغیر خودی مرتبۂ کمال تک نہیں پہنچ سکتی۔اور جب تک خودی مرتبۂ کمال کو نہ پہنچے انسان اپنا مقصد حیات حاصل نہیں کرسکتا اور اگر مقصد حیات حاصل نہ ہوا تو عدم اور وجود دونوں برابر ہو گئے۔یہی وجہ ہے کہ اقبال نے عشق رسولﷺ پر اپنا سارا زور قلم صرف کر دیا ہے۔

اقبال کا یہ فلسفہ قرآن کریم کی اس آیت شریفہ سے ماخوذ ہے:

“قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله”


(سوره ال عمران)

یعنی اے رسولﷺ!آپ مسلمانوں سے فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ میری اتباع کرو،اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا۔

اس آیت کو سمجھنے کے لئے ذیل کی آیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے:

“والذين امنوا اشد حبا لله”


(سورہ بقرہ)

جو لوگ ایماندار مومن ہیں ان کی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔یعنی ایمان کی بنیاد محبت الہی میں ہے اور اللہ سے محبت کرنے کی صورت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اتباع کی جائے۔اور اتباع رسولﷺ بغیر محبت رسولﷺ کے نہیں ہو سکتی اس لیے دراصل ایمان کی بنیاد محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے۔