نظم شعاع امید کی تشریح

0

🔺حوالہ:- یہ نظم شعاع امید سے ماخوذ ہے اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔ اقبال کا مجموعہ کلام “ضربِ کلیم” سے لی گئی ہے۔ اس نظم میں سورج اور کرنوں کا مقابلہ پیش کیا ہے۔ اور سورج کی زبانی قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا درس دیا گیا ہے۔

شعر 1 :-

سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیا ہے عجیب چیز کبھی صبح کبھی شام

تشریح :- اس بند میں اقبال سورج کی زبانی فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کتنی عجیب اور انوکھی جگہ ہے۔ جہاں کبھی صبح تو کبھی شام ہوتی رہتی ہے یعنی ہر وقت کچھ نہ کچھ تبدیل رونما ہوتی رہتی ہے۔

شعر 2 :-

مدت سے تم آوارہ ہو پہناۓ فضا میں
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہرئِ ایام

تشریح:- سورج کہتا ہے کہ اے میری شعاعوں تم ایک مدت سے اس فضا میں آوارہ کی طرح آزاد گھوم رہی ہو۔ زمانے کے رات دن تم سے نا مہربان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔یعنی لوگ اس روشنی سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔ بلکہ لوگوں میں بے رخی بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں میں پیار و محبت اور وفا نام کی چیز باقی نہیں رہی۔

شعر 3 :-

نہ ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت
نے مثل صبا طوفِ گل و لالہ میں آرام

تشریح:- تمہارے چمکنے سے نہ ریت کے ذروں کو سکون مل رہا ہے نہ ہوا کی طرح پھولوں کے طواف سے سکون حصل ہو رہا ہے۔

شعر 4 :-

پھر میرے تجلی کدۂ دل میں سما جاؤ
چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام

تشریح:-اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ دنیا کے باغ، کھڑکی، اور دروازے چھوڑ کر اپنے گھر واپس لوٹ آؤ ، اور میرے دل میں آکر سما جاؤ کیونکہ یہی تمہارا سچا عاشق اور قدردان ہے۔

شعر 5 :-

آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہے شعاعیں
بچھڑے ہوۓ خورشید سے ہوتی ہے ہم آغوش

تشریح:- اس بند میں اقبال فرما رہے ہیں کہ شعاعیں مشرق و مغرب کی بیداری سے مایوسی کا اعلان کرکے سورج کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے واپس لوٹ رہی ہیں اور وہ اپنے سورج سے ہم آغوش ہو رہی ہیں، گلے مل رہی ہیں۔

شعر 6 :-

ایک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش

تشریح:- کرنوں کا خیال ہے کہ اب مغرب (یورپ) کی دنیا میں کسی بھی صورت میں اجالا ممکن نہیں۔ کیونکہ اس کی فضا مشینوں کے دھوئیں سے گرد آلود ہو چکی ہے، ایسے لگتے ہیں جیسے کالے کپڑے پہنے ہوں۔ یعنی صنعتی ترقی کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔اور مذہب اور روحانیت سے دور ہو گۓ ہیں۔

شعر 7 :-

مشرق نہیں گو لزتِ نظارہ سے محروم
لیکن صفتِ عالمِ لاہوت ہے خاموش

تشریح:- ایشیائی لوگ ویسے تو روشنی کے دیدار سے محروم نہیں ہے، کیونکہ مشرقی لوگوں میں ابھی روحانیت اور مذہبیت سے لگاؤں باقی ہے۔ وہ خدا پرست ہیں،وہ عالمِ لاہوت یعنی فرشتوں کی دنیا کی طرح خاموش ہے۔ یعنی ان میں حرکت و حرارت نہیں، وہ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے۔

شعر 8 :-

پھر ہم کو اسے سینۂ روشن میں چھپا لے
اے مہرِ جہاں تاب نہ کر ہم کو فراموش

تشریح:- اس لیے کرنیں سورج سے التجا کرتی ہے کہ اے ہمارے مسیحا ہم کو واپس اپنے روشن سینے میں جگہ دے دے، اے سارے زمانے کو روشن کرنے والے تو ہمیں نظر انداز نہ کر۔

شعر 9 :-

اک شوخ کرن، شوخ مثالِ نگہِ حور
آرام سے فارغ صفتِ جوہرِ سیماب

تشریح:- اس نظم کے بند میں اقبال کہتے ہیں کہ جب تمام شعاعیں لوگوں کی حرکت سے مایوس ہو چکیں تو ایک خوبصورت چنچل کرن، جو کسی حور کی نگاہوں کی طرح چنچل تھی، جس میں عمل و حرکت تھی وہ چاند کے پانی (سیماب) کی طرح آرام سے دور تھی اور بےچین تھی۔

شعر 10 :-

بولی کہ مجھے رخصتِ تنویر عطا ہو
جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب

تشریح:وہ شوخ کرن کہنے لگی کہ اے میرے عاشق (سورج) مجھے اس وقت تک روشن ہونے کی آزادی عطا کر میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک کہ مشرق کا ہر ذرہ روشن نہ ہو جائے۔

شعر 11 :-

چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو
جب تک نہ اٹھیں خاک سے مردانِ گراں خواب

تشریح:- وہ شوخ کرن کہنے لگی میں ہندوستان کے اندھیرے ماحول کو ہر کز نہیں چھوڑوں گی جب تک میں خوابِ غفلت میں پڑے ہوۓ لوگوں کو بیدار نہ کر دوں۔

شعر 12 :-

خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب

تشریح:- در اصل مشرق (ایشیا) کی امیدوں کا یہی ہندوستان مرکز بنا ہوا ہے یعنی یہ مٹی آسمان (خدا) کی امیدوں کا مرکز ہے۔ اور یہی وہ مٹی ہے جسے اقبال جیسے عظیم شاعر نے اپنے اشکوں سے اسی ہندوستان کی مٹی کو سیراب کیا ہے۔

شعر 13 :-

چشمِ مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن
یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ دُرِ نایاب

تشریح:- اور اسی ہندوستان کی خاک سے چاند اور پروین (ستارہ کا نام) کی آنکھیں روشن ہیں۔ اور یہی وہ خاک ہے جس کے سنگ ریزہ (کنکر) بھی قیمتی موتی سے بھی بڑھ کر ہے۔

شعر 14 :-

اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواصِ معانی
جن کے لیے ہر بحر پُر آشوب ہے پایاب

تشریح:- اقبال کہتے ہیں کہ مشرقی دنیا یعنی ہندوستان کی اس مٹی سے ایسے ایسے عالم و فاضل، رشی منی اور معنی و مقصد کے تیراک پیدا ہوۓ ہیں کہ جن کے لیے طوفان اٹھانے والے سمندر میں بھی غوطے لگانا مشکل کام نہیں ہے۔

شعر 15 :-

جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں
محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب

تشریح:- اقبال کہتے ہیں کہ مشرقی دنیا یعنی ہندوستان کی اسی مٹی سے عظیم ایسی ایسی ہستیوں نے جنم لیا۔ جو اپنی سنگیت سے گیتوں کو اس طرح سجاتے تھے کہ سُن کر دلوں میں گرمی پیدا ہو جاتی تھی مگر افسوس آج وہی ساز مضراب (سنگیت بجانے کا ایک کانٹا) سے دور ہو گیا ہے۔

شعر 16 :-

بت خانے کے دروازے پر سوتا ہے برہمن
تقدیر کو روتا ہے مسلمان تہِ محراب

تشریح:- اقبال کہتے ہیں کہ پنڈت اپنے مندر کے دروازے پر سوتا رہتا ہے اور مسلمان مسجد کے محرابوں کے نیچے بیٹھ کر اپنی تقدیر کو روتا ہے اور آنسو بہاتا رہتا ہے۔

شعر 17 :-

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حزر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

تشریح:- اقبال کہتے ہیں کہ ضروری یہ ہے کہ تو اب مشرق (ایشیا) سے پرہیز کر اور نہ مغرب (یورپ) سے بچنے کی کوشش کر، بس فطرت کے اشارے کو سمجھ اسکا اشارہ ہے کہ ہر رات کو صبح بنا دی جائے۔

سوالات و جوابات▪️

سوال 1 :- شعاعِ امید کے معنی ہیں؟

جواب :- امید کی کرن۔

سوال 2 :- لفط ‘مہر عالم تاب’ کے معنی ہیں؟

جواب :- دنیا کو روشن کرنے والا سورج۔

سوال 3 :- عالمِ لاہوت سے اقبال کی مراد ہے؟

جواب :- فرشتوں کی دنیا۔

سوال 4 :- اقبال کو کن کن القاب و خطابات سے یاد کیا جاتا ہے؟

جواب :- شاعر اسلام – شاعر خودی – شاعر مشرق – شاعر ملت – شاعر مستقبل – شاعر مجاہد – امام العصر – حسان الہند – ملک الشعرا – سر ، کے القاب و خطابات سے یاد کیا جاتا ہے۔

▪️محمد طیب عزیز خان محمودی▪️