نظم پرندے کی فریاد کی تشریح

0

حوالہ: یہ نظم پرندے کی فریاد سے لیا گیا ہے اس کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

شعر 1 :

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا

تشریح:- پرندہ کہہ رہا ہے کہ آج مجھے اپنا گزرا ہوا زمانہ یاد آ رہا ہے کے سب کے ساتھ مل کر بہاروں کا مزہ لیتے تھے، سب مل کر گیت گاتے تھے۔

شعر 2 :

آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

تشریح:- پرندہ کہتا ہے کہ اپنے گھونسلے میں بہت آزادیاں حاصل تھیں اپنی خوشی سے کہیں بھی چلے جاتے تھے، اور اپنی خوشی سے چلے آتے تھے۔

شعر 3 :

لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا

تشریح:- پرندہ کہتا ہے کہ جب وہ نظارہ یاد آتا ہے کہ بےچاری شبنم کے آنسوؤں پر کلیاں مسکراتی تھی تو اس وقت میرے دل پر بہت چوٹ لگتی تھی۔

شعر 4 :

وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت
آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانہ

تشریح:- پرندہ کہتا ہے کہ وہ مجھے پیاری پیاری صورت یاد آتی ہے جیسے کوئی کامنی سی مورت ہو، اس کے دم سے میرا آشیانہ آباد رہتا تھا۔

شعر 5 :

آتی نہیں صدائیں اس کی میرے قفس میں
ہوتی میری رہائی اے کاش میرے بس میں

تشریح:- پرندہ کہتا ہے کہ میں قید خانے میں قید ہوں۔ یہاں تک اس کی آواز نہیں آتیں، مجھے وہ آوازیں سننے کی تمنا رہتی ہے۔ کاش کہ مجھ میں اتنی طاقت ہوتی کہ میں اس قید خانے سے آزاد ہو جاتی۔

شعر 6 :

کتنا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں
ساتھی تو ہے وطن میں، میں قید میں پڑا ہوں

تشریح:- پرندہ کہتا ہے کہ میں بھی کتنا بدنصیب ہوں کہ گھر ہوتے ہوئے بھی گھر کو ترس رہا ہوں، میرے سبھی ساتھی وطن میں ہیں اور میں یہاں پنجرے میں قید ہوں۔

شعر 7 :

آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہے
میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں

تشریح:- پرندہ کہتا ہے کہ اب بہار کا موسم آ گیا ہے اور پھولوں کی کلیاں مسکرا رہی ہے اور میں بد نصیب اس اندھیرے قید خانے میں اپنی تقدیر کو رو رہا ہوں۔

شعر 8 :

اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں
ڈر ہے یہی قفس میں، میں غم سے مر نہ جاؤں

تشریح:- اے اللہ میں اپنی اس قید خانے کی زندگی کا دکھ کسے سناؤں۔ مجھے یہ ڈر لگتا ہے کہ میں غم کے مارے یہیں مر نہ جاؤں گا

شعر 9 :

جب سے چمن چھٹا ہے، یہ حال ہو گیا ہے
دل گم کو کھا رہا ہے، غم دل کو کھا رہا ہے

تشریح:- پرندہ کہتا ہے کہ میں جب سے چمن چھوڑ کے اس پنجرے میں آیا ہوں، میرا یہ حال ہو گیا ہے کہ دل اس قید کے غم کو برداشت کر رہا ہے، اور قید کا غم دل کو مایوس کرتا جاتا ہے۔

شعر 10 :

گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوۓ دلوں کی فریاد یہ صدا ہے

تشریح:- پرندہ کہتا ہے کہ اے سننے والے اسے گانا سمجھ کر خوش نہ ہو یہ گانا نہیں ہے بلکہ یہ تو میری درد بھری فریاد ہے جو میرے غم کے مارے میرے دل سے نکلی۔

شعر 11 :

آزاد مجھ کو کردے او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے

تشریح:- پرندہ آخری شعر میں کہتا ہے کہ اے مجھے قید کرنے والے اب تو مجھے آزاد کر دے، دیکھ میں بے زبان پرندہ ہوں، مجھے آزاد کرکے میری دعا لے۔

سوالات و جوابات

سوال 1:- اس نظم کا عنوان کیا ہے؟

جواب :- اس نظم کا عنوان “پرندے کی فریاد” ہے۔

سوال 2:- پرندے کو کونسا زمانہ یاد آ رہا ہے؟

جواب :- وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب بہار کے موسم میں سب مل کر گاتے تھے۔

سوال 3:- پرندہ کس چیز کو ترس رہا ہے؟

جواب :- پرندہ اپنے گھونسلے کو ترس رہا ہے۔

سوال 4:- چمن چھوٹنے کے بعد پرندے کی کیا حالت ہو گئی ہے؟

جواب :- یہ حالت ہو گئی ہے کہ پرندے کا دل غم سہہ رہا ہے اور غم اس کے دل کو تڑپا رہا ہے۔

تحریر محمد طیب عزیز خان محمودی