نظم ابر کوہسار

0

نظم “ابر کوہسار” کی تشریح

یہ نظم بھی علامہ اقبال کے پہلے شعری مجموعہ “بانگ درا” میں شامل ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے ابر یعنی بادل کی زبانی گفتگو کی ہے اور فطرت کے حسین نظارے پیش کیے ہیں۔یہ نظم مسدس کی ہیئت میں ہے۔ اس کی تشریح درج ذیل ہے۔

پہلا بند

پہاڑوں کے اوپر سے گھومنے والا آوارہ بادل جذبات میں آکر کہہ رہا ہے کہ میرا نشیمن (یعنی رہنے کی جگہ) اس قدر بلند ہے کہ آسمان کی بلندیوں کا بوسہ لیتا ہے اور فخر سے کہہ رہا ہے کہ میرے برسنے سے باغوں میں پھول کھلتے ہیں۔ میرا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں مجھے صحرا، گلشن، جنگل، ویرانے ہر جگہ پیاری لگتی ہے، میں فطرت کے ہر نظارے کے حسن میں اضافے کا باعث ہوں، ہر ٹھکانہ میری آمد کا منتظر رہتا ہے میں سب پر یکساں مہربان ہوں۔ اگر مجھے میرے سفر کے دوران کہیں آرام کی ضرورت ہو تو میرے لیے پہاڑوں پر اُگی ہوئی گھاس ریشمی بستر کا کام دیتی ہے۔ شعر میں لطیف ترین بات یہ ہے کہ جب بادل برستا نہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ پہاڑوں پر سبزے کے بستر پر آرام کر رہا ہے۔

دوسرا بند

بادل اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالی نے مجھ میں زندہ دلی پیدا کی ہے۔ میں جہاں جاتا ہوں رحمت کے اور رزق کے موتی بکھیرتا چلا جاتا ہوں، جس طرح کسی اونٹنی کے محمل میں بیٹھی حسینہ کے سفر کے دوران کوئی زبان آگے آگے اونٹنی کی نکیل کو پکڑ کر سفر کر رہا ہو، اسکو اپنے گیتوں کے ذریعے مست کر رہا ہو، میں بھی اللہ کی رحمت یعنی بارش کی اونٹنی کا حدی خان(گیت کار) ہوں یعنی میرے نغموں کی آہٹ سے بارش وجد میں آ کر برستی ہے۔ شاعر نے بادل کو زبان اور بارش کو اونٹنی میں بیٹھی حسینہ قرار دیا ہے۔
میں سوکھے کھیتوں کے کسانوں کا غم گسار ہوں ، میں جب گرجتا ہوں تو افلاس اور قحط کی نحوست کامپ جاتی ہے اور جب برستا ہوں تو کسان خوشحال ہو جاتا ہے۔میں باغ کے جوانوں کی محفل کی جان ہوں۔ شاعر نے یہاں باغ کے جوان پودوں اور درختوں کو قرار دیا ہے۔ شاعر کی شاعری فطرت کے مناظر کی ترجمانی ہی نہیں بلکہ قرآن شریف کے ان احکامات کی تفسیر بھی ہے جس میں مناظر فطرت کو اللہ کی نشانیاں بتایا گیا ہے۔ انسان کو ان پر غور وفکر کرنے سے عرفانِ خدا حاصل ہوتا ہے۔
رخ ہستی زندگی کو قرار دیا ہے، بادل کہتا ہے کہ میں زندگی کا ہنستا مسکراتا چہرہ بن کر اٹھلاتا پھرتا کوہ بہ کوہ صحرا بہ دریا چلا جاتا ہوں اور اس طرح پھیل جاتا ہوں جیسے کسی حسینہ کے چہرے پر کالی زلفیں بے قابو ہو کر بکھر جاتی ہیں اور مجھے ہوا کے تپھیڑے دوبارہ اکٹھا کر دیتے ہیں۔

تیسرا بند

جب کسی آبادی سے خاموشی سے گزر جاتا ہوں تو اس آبادی کے لوگ میرے خاموشی سے گزر جانے سے تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔دیدہ امید سے مراد آس لگانے والی آنکھ ہے، اس ترکیب نے شعر میں تڑپ پیدا کی ہے۔ جب میں خراماں خراماں کسی نہر کے کنارے سے گزرتا ہوں تو میری ہلکی ہلکی بوندوں کی یورش سے اس میں چھوٹے چھوٹے دائرے بنتے ہیں، وہ دائرے نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی بالیاں ہیں جو نہر کے کانوں میں، میں پہنا جاتا ہوں جس سے اس کا حسن اور دوبالا ہوجاتا ہے۔ بادل چونکہ سمندر کے پانی سے اٹھنے والے بخارات سے بنتے ہیں اور ان کے بننے اور اڑنے میں سورج کی تپش کی کارفرمائی ہے لہذا شاعر نے پروردہ خورشید کہا ہے۔ شاعر بادل کی زبان میں کہتا ہے کہ میں میں نئی نئی کھیتوں کی ہلکی ہلکی گھاس یا فصل کی آس ہوں کیونکہ اس کی شادابی میرے برسنے کی وجہ سے ہے یعنی میں سمندر میں پانی کی شکل میں پایا جاتا ہوں پھر سورج کی تمازت سے اٹھتا ہوں اس طرح گرمی آفتاب کی پرورش سے میں پانی بن جاتا ہوں۔ گویا میں فطرت کا بہت فکر انگیز شاہکار ہو جس میں اہل نظر کے لیے بہت کچھ دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کے لئے ہے۔