نظم ترانۂ ملّی

0

نظم ترانہ ملی کی تشریح

یہ نظم علامہ اقبال کے پہلے شعری مجموعہ “بانگ درا” میں شامل ہے۔ترانۂ ملی علامہ اقبال کی طرف سے لکھی گئی ایک بہترین نظم ہے جس میں انھوں نے نسلی قوم پرستی کی بجائے مسلمانوں کو بطور مسلم رہنے اور اس پر فخر کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ نظم (ترانۂ ہندی) ‘سارے جہاں سے اچھا’ نظم کی بحر میں لکھی ہے اور اسے اس کے جواب کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

جب علامہ اقبال نے وطنیت کے عقیدہ کو ترک کیا اور اس کے بجائے ترانہ ملی لکھا جو آج ملک کے بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ یہ ترانہ علامہ اقبال کی دراصل حق یژدہی اور صداقت پسندی پر شاہد عادل ہے کہ جب ان پر حقیقت منکشف ہو گئی تو انہوں نے صاف لفظوں میں اس کا اعلان کر دیا اور اس بات کی مطلق پروا نہ کی کہ میری شہرت یا ہر دلعزیزی کو نقصان پہنچ جائے گا۔

بے شک 1908ء سے پہلے وہ یہی سمجھتے تھے کہ مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ مل کر متحدہ قومیت بنا سکتے ہیں یا ہندو اور مسلم دونوں مل کر ایک قوم بن سکتے ہیں لیکن انہوں نے قرآن حکیم کا بنظر غائر مطالعہ کیا تو ان پر یہ صداقت واضح ہوگئی کہ مسلمانوں کی قومیت کا سنگ بنیاد وطن نہیں بلکہ عقیدۂ توحید ہے۔ چناچہ انہوں نے 1910ء سے لے کر دمِ آخر اسی صداقت کی تبلیغ کی۔

یہ نظم 11 اشعار پر مشتمل ہے جن کی بحر ان کی ایک مشہور نظم “ترانہ ہندی” کی طرز پر ہے۔ آئیے اب ان اشعار کی تشریح پڑھتے ہیں۔

پہلا شعر

علامہ اقبال فرماتے ہیں ہم مسلمان ہیں اور مسلمان کی تعلیم یہ ہے کہ تمام مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی حصہ میں رہتے ہوں، ایک مستقل قوم ہیں کیونکہ ان کی قومیت کی بنیاد وطن پر نہیں بلکہ عقیدۂ توحید پر ہے۔ اس لیے کوئی خاص ملک ہمارا وطن نہیں ہے بلکہ ساری دنیا ہمارا وطن ہے۔

دوسرا شعر

چونکہ ہم عقیدۂ توحید الہی کے حامل اور اس کے امین ہیں اور یہ عقیدہ ایک حقیقت ابدی ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس عقیدہ کو نہیں مٹا سکتی اس لیے ہم بھی نہیں مٹ سکتے۔

تیسرا شعر

کعبہ دنیا میں خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کا پہلا گھر ہے، ہم اس کے نگہبان ہیں اور وہ ہمارا نگہبان ہے۔ جب تک کعبہ موجود ہے مسلمان موجود رہیں گے اور جب تک مسلمان زندہ ہیں کعبہ بھی برقرار رہے گا، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔

چوتھا شعر

مسلمانوں نے اپنے دین کی عظمت قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ جہاد کیا ہے اس لئے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تلواروں کے سائے میں پرورش پائی ہے چنانچہ ہمارا قومی نشان بھی ہلال ہے جو تلوار سے مشابہ ہے۔

پانچواں شعر

ہم نے مغرب میں مراقش اور اندلس تک فتوحات حاصل کی ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ جب ہم تسخیر ممالک کے لئے نکلے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے سیلاب کو نہ روک سکی۔

چھٹا شعر

اے دنیا والو! یاد رکھو ہم مسلمان باطل سے مرعوب نہیں ہو سکتے، باطل بارہا ہمارے مقابلہ میں آ چکا ہے لیکن ہمیں مغلوب نہیں کر سکا۔

ساتواں اور آٹھواں شعر

تاریخ گواہ کہ ہم نے اندلس اور بغداد میں عظیم الشان حکومتیں قائم کیں اور دنیا کو علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کی دولت سے مالا مال کر دیا۔

نواں شعر

دنیا سے یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ ہم نے حجاز کی عزت قائم رکھنے کے لئے اپنے خون کو پانی کی طرح بہایا، حجاز کا ذرہ ذرہ اس صداقت پر گواہی دے سکتا ہے۔ حرمین شریفین کو ہم اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔

دسواں شعر

سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آقا اور پیشوا ہیں اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک ہر مسلمان کے حق میں باعث آرام جان ہے۔

آخری شعر

اقبال کا ترانہ مسلمانوں کے لیے گویا “بانگ درا” ہے یعنی سر بلندی اور برتری کے حصول کا پیغام ہے اور خدا کے فضل و کرم سے ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔