نظم بوڑھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو

0

نظم ‘بوڑھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو’ کی تشریح

علامہ اقبال کی یہ تمثیلی نظم(بوڑھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو) ان کے چوتھے شعری مجموعے “ارمغان حجاز” میں شامل ہے جو علامہ اقبال کی وفات کے چند مہینے بعد 1938ء میں شائع ہوا۔اس کتاب میں علامہ اقبال کا اردو اور فارسی دونوں زبانوں کا کلام شامل ہے۔زیر بحث نظم “بوڑھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو” بھی اسی کتاب میں شامل ہے جس میں ایک بوڑھا بلوچ اپنے بیٹے کو چند نصیحتیں کرتا ہے۔بوڑھے بلوچ سے بلوچستان کا خانہ بدوش بلوچ بھی مراد ہو سکتا ہے اور مثالی مسلمان بھی کیونکہ خانہ بدوش صحرا نورد بلوچ کی طرح سچا مسلمان بھی اپنے آپ کو کسی خطۂ زمین سے مستقل طور پر وابستہ نہیں کر سکتا یعنی کسی ملک کو وطن نہیں بنا سکتا کیونکہ ساری دنیا اس کا وطن ہے۔بہر حال علامہ اقبال کی یہ نظم گیارہ اشعار پر مشتمل ہے جن کی تشریح پیشِ خدمت ہے۔

پہلا شعر

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا

اس شعر میں بوڑھا بلوچ اپنے بیٹے کو کہتا ہے کہ دہلی اور بُخارا بڑے پُر رونق شہر ہیں اور وہاں کی زندگی ہر قسم کی سہولتوں اور عشرت سے میسر ہے لیکن جو بات تیرے علاقہ بلوچستان میں ہے وہ ان شہروں میں کہاں ہے۔ یہ علاقہ اگرچہ بیاباں ہے، یہاں آبادی کم اور خشک علاقے اور پہاڑ زیادہ ہیں لیکن جو آزادی اور خوشگواری یہاں ہے وہ شہروں میں نہیں ہوسکتی۔ خدا کرے کہ تجھے اس علاقہ کی آب و ہوا محظوظ کرے۔

دوسرا شعر

جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا

بلوچستان کا علاقہ وسیع ہے، شہروں کی طرح محدود نہیں۔ یہاں پہاڑوں کے درمیان خوبصورت وادیاں بھی ہیں ریگستان بھی ہے۔ تو جس طرف کو چاہے بہتے ہوئے سیلاب کی طرح نکل جا ، تجھے کوئی روکنے والا نہیں۔
اس شعر کی ایک دوسری تشریح بھی ہو سکتی ہے:
اے نوجوان! تو اپنے اندر سیلاب کی صفت پیدا کر۔ جب تیرے اندر یہ شان پیدا ہوجائے گی تو تجھے معلوم ہوگا کہ کشمیر کی وادی بھی میری ہے اور ترکستان اور تاجکستان کا صحرا بھی میرا ہی ہے۔

تیسرا شعر

غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا

اس شعر میں شاعر فرماتا ہے کہ انسان کے لئے اصل سرمایہ دنیا کا سازوسامان اور آسائش و آرائش نہیں بلکہ اپنی عزتِ نفس کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو دنیا سے بے نیاز شخص کو دارا کا تاج پہناتی ہے۔ وہ بوریا نشین ہو کر بھی تخت نشین ہوتا ہے۔ اس لئے تو اس علاقے میں دلی اور بخارا جیسی رونق نہ ہونے کو نہ دیکھ بلکہ یہ دیکھ کہ جو عزتِ نفس تو یہاں ملحوظ خاطر رکھ سکتا ہے وہ ان شہروں میں نہیں ہے۔

چوتھا شعر

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

بوڑھا بلوچ اپنے بیٹے سے مخاطب ہے کہ یہ چھپا ہوا فن یا باطنی علم کہ جس کی بدولت دارا کا تخت و تاج ایک درویش کے پاؤں کے نیچے ہوتا ہے اور بادشاہ اس کے در کے غلام بن جاتے ہیں، کسی مردِ کامل، کسی ولی کو ڈھونڈ کر اسے حاصل کر۔ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ اس میں شیشے کو پتھر بنا دینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مراد ہے کہ دینی سازوسامان اور شان وشوکت رکھنے والے کو ایسی بے نیازانہ شان عطا کرتا ہے کہ دنیاوی جاہ و جلال والے بھی اس کی چوکھٹ پر سر جھکاتے ہیں۔

پانچواں شعر

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

اس شعر میں بوڑھا بلوچ فرد اور جماعت کے تعلق کو بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے نوجوان! اس حقیقت کو ذہن نشین کرلے کہ قوم کی تقدیر یعنی مستقبل میں اس کی ترقی تیری جدوجہد پر موقوف ہے۔ جیسے افراد ہونگے ویسی ہی قوم بھی ہوگی اس لئے تجھے اپنی زندگی قوم کی ترقی کیلئے وقف کر دینی چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر میں غفلت سے کام لوں گا تو میری قوم تباہ و برباد ہو جائے گی۔

چھٹا شعر

محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص
کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا

اس شعر میں شاعر فرماتا ہے کہ دریا میں سے موتی حاصل کرنے کے لیے غوطہ لگانے والا جو غوطہ خور ساحل پر ہی بیٹھا رہتا ہے اور دریا میں غوطہ نہیں لگاتا وہ موتیوں کی دولت سے بے نصیب رہتا ہے۔مراد یہ ہے کہ دنیا میں قوموں کی خوشحالی کا دارومدار ان کے افراد کی عملی میدان میں دوڑ دھوپ پر منحصر ہے۔ جس قوم کے افراد محنت کش، باعمل اور باغیرت ہوتے ہیں وہ قوم ترقی پر فائز ہو جاتی ہے اور اگر اس کے برعکس ہو تو ان کی بے عملی اور بے غیرتی قوم کو لے ڈوبتی ہے۔

ساتواں شعر

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اے نوجوان! اس صداقت کو اپنے دل میں جگہ دے کہ اگر تو دین کو قربان کرکے آزادی حاصل کرے گا تو اس سودے میں تجھے سراسر نقصان ہوگا۔ بیشک آزادی حاصل کرنے کے لیے کوشش کر لیکن دین بیچ کر آزادی مت لے۔
اس شعر میں علامہ اقبال نے مسلمان نوجوانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا تھا کہ نظریہ وطنیت قبول کرکے اگر تمہیں آزادی حاصل ہوئی تو وہ بیکار ہے کیونکہ جب تم مسلمان ہی نہ رہے تو آزاد ہو کر بھی کیا فائدہ ہوا؟

آٹھواں شعر

دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اے نوجوان اس وقت دنیا میں اسلام (روح ( اور وطنیت (بدن) کے مابین زبردست جنگ برپا ہے۔ تہذیب مغرب جس کی بنیاد مادہ پرستی ہے، اسلام کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ علامہ اقبال نے اس شعر میں اقوام یورپ کو “درندوں” سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس تہذیب کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عادات کے اعتبار سے حیوان بن جاتا ہے۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم نے اس حقیقت کو واضح کر دیا۔

نواں شعر

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

اے نوجوان اس وقت اسلام اور کفر میں شدید مقابلہ ہورہا ہے۔روح اور بدن کے اس معرکہ میں جس کا اوپر کے شعر میں ذکر ہوا ہے، دو فریق آمنے سامنے ہیں۔ ایک فریق اللہ ہے اور دوسرا شیطان۔ اللہ کو اہل ایمان پر بھروسا ہے کہ اگر انہوں نے دین کے میدان میں مضبوطی سے اپنے پاؤں جمائے رکھے تو فتح روح یعنی مومن کی ہوگی۔ اس کے مقابلے میں اگر یورپ کی صنعتی ترقی والی اقوام چھائی رہیں تو پھر شیطان کی فتح ہوگی اور روح مٹ جائے گی۔ اور ایسے میں انسان نما درندے پیدا ہوں گے اور انسان ختم ہو جائیں گے۔

دسواں شعر

تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

قوموں کی تقدیر یا قسمت میں کیا ہے کوئی نہیں کہہ سکتا ، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اگر کوئی مرد مومن ہو تو اس کی بصیرت میں یہ صفت پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے ایک اشارے سے قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔کوئی وقت تھا کہ مسلمان قوم میں ایسے بے شمار مرد کامل ہوتے تھے اب مسلمان اس مردِ مومن کو ترس گئے ہیں۔

گیارہواں شعر

اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را

پس ایک نوجوان! اے عہدِ حاضر کے مسلمان! تو اس نازک وقت میں اپنے بزرگوں کے طرزِ عمل کو سامنے رکھ اور ان کے نقشِ قدم پر چل مجھے یقین ہے کہ تو ضرور کامیاب ہوگا۔ ” شاہان چہ عجب گر بنوازند گدارا ” یہ حافظ شیرازی کی غزل کا مشہور مصرعہ ہے۔ شاہاں یہاں بزرگانِ دین کی طرف اشارہ ہے یعنی اگر مسلمان سلف صالحین کی اتباع کریں گے تو فضلِ الٰہی ضرور ان کے شاملِ حال ہوگا۔