نظم جبریل و ابلیس کی تشریح

0

شاعر مشرق علامہ اقبال کی مقبولیت کا آغاز ان کی نظموں سے ہوتا ہے۔ اقبال کی شاعری نے ہی انہیں عوام و خواص میں روشناس کرا دیا۔ اقبال نے نظم کی ہر فارم میں طبع آزمائی کی ہے۔مخمس،مسدس،ترجیح بند، قطعات و رباعیات وغیرہ سبھی کچھ ان کی کلیات میں ملتا ہے۔ اس مضمون میں ہم نے علامہ اقبال کی مشہور و معروف نظم ”جبرائیل و ابلیس“ کی مکمل و تسلی بخش تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔

نظم جبرائیل و ابلیس ان کے دوسرے شعری مجموعہ کلام ”بال جبرائیل“ میں شامل ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی اس نظم میں دو آفاقی کرداروں کا جو مکالمہ پیش کیا ہے، بلاشبہ ان کے کلام میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ نظم کا آغاز کردار جبرائیل کے اس مصرعے سے ہوتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔۔

جبرائیل

ہمدم دیرینہ! کیسا ہے جہانِ رنگ و بو

جبرائیل ابلیس سے دوستانہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ اے پرانے دوست! ذرا یہ بتاؤ کہ تم نے خدا کی بنائی اس خوبصورت دنیا کو کیسا پایا؟ کچھ وہاں کی کہانی مجھے بھی سناؤ۔

اس مصرعے میں جبرائیل نے ابلیس کو ہمدم دیرینہ یعنی پرانا دوست کہہ کر مخاطب کیا ہے(کیونکہ ابلیس پہلے فرشتوں میں ہی شامل تھا) اور جہاں رنگ و بو یعنی خوبصورت دنیا کے بارے میں پوچھا ہے۔ اس ایک مصرعہ سے ہی اقبال کی شاعری کی بلندی اور اعلیٰ تخیّل کا احساس ہوتا ہے۔

ابلیس

سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو

ابلیس نے اپنے جواب میں عرض کیا کہ اس نے خدا کی مخلوق کو ان چھ کیفیات میں مبتلا پایا۔ ابلیس کا جواب حقیقت پر مبنی ہے۔ اقبال نے اس مصرعے کے ذریعہ واضح کر دیا ہے کہ دنیا انہیں چھ کیفیات کا نام ہے۔ وہ کون سا شخص ہے جو ان چھ کیفیات میں سے کسی ایک سے آشنا نہیں ہے۔

جبرائیل

ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو

جبرائیل ابلیس سے کہتے ہیں کہ آسمانوں پر ہر وقت تیری ہی بات ہوتی ہے۔ وہاں کے باشندے جو کبھی تیرے ساتھی ہوا کرتے تھے اب بھی تجھے یاد کرتے ہیں اور یہ آرزو کرتے ہیں کہ تو واپس آ جائے اور پھر سے ان میں شامل ہو جائے۔ جبرائیل مزید کہتے ہیں کہ کیا تو اپنے ساتھیوں کے لئے بارگاہ رب العزت میں توبہ نہیں کر سکتا۔ جس سے کہ تو پھر ان میں شامل کر دیا جائے اور پھر سے اپنا وہی مقام حاصل کر لے۔ یہاں علامہ اقبال نے ابلیس سے ندامت و پشیمانی اور توبہ کے لئے کنایہ سے کام لیا ہے اور کیا خوب کام لیا ہے کہ “تیرا چاک دامن ہو رفو” یہ کنایہ ان کے کلام کی بہترین مثال ہے۔

ابلیس

آہ اے جبرائیل تو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سر مست مجھ کو ٹوٹ کی میرا سبو

جبرائیل کے مکالمے کو سن کر ابلیس جواباً کہتا ہے کہ اے جبرائیل مجھے افسوس ہے کہ تجھے اس راز کی خبر نہیں کہ میرا سبُو (یعنی گھڑا یا مٹکا) اب ٹوٹ چکا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اب ابلیس اس دینا کی مستی میں مدہوش ہو چکا ہے اور قیامت تک یہ مدہوشی ختم ہونے والی نہیں۔

اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کُو

ابلیس مزید کہتا ہے کہ اوپر کی دنیا میں اب میرا گزر ممکن نہیں۔ میں اب وہاں نہیں رہ سکتا نہیں رہ سکتا۔ وہ عالم بے کاخ و کو ہے یعنی ایسی دنیا جہاں نہ کوئی محل (کاخ) ہے اور نہ ہی کوئی گلی کوچہ (کُو), اس کے برعکس اس نئی دینا میں ہر طرف ایک ہنگامہ اور شور و غل کا ماحول ہے اور بہت سے محل اور گلی و کوچے بھی موجود ہیں۔ وہاں (اوپر کی دنیا میں) تو بے حد خاموشی اور سکون ہے, تو ایسے ماحول میں اب میرا دل کیسے لگے گا۔

جس کی نو امیدی سے ہو سوزدرون کائنات
اس کے حق میں تقنطو اچھا ہے یہ لاتقنطو

اس مصرعے میں ابلیس نے جبرائیل کو اپنے ندامت و پشیمانی نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس کے (خدا کے) حضور میں میری گستاخی اتنی معمولی نہیں ہے کہ میرے شرمندہ ہونے سے وہ میری خطا معاف کر دے گا۔ (یہاں اقبال نے ابلیس کا خدا کا حکم نہ ماننے اور آدم کو سجدہ نہ کرنے پر جنت کے فرشتوں میں سے نکالے جانے کے واقعہ کا اشارے کنایہ کے ذریعہ ذکر کیا ہے) اس مصرعے میں اقبال نے ابلیس کی زبان سے ایک حقیقت واضح کر دی ہے وہ یہ کہ ابلیس خدا تعالیٰ کی رحمت سے بلکل مایوس نہ ہوتا تو کیوں اس دنیا میں آکر رہتا۔ اور اگر وہ یہاں نہ آتا تو اس عالم کے باشندوں میں سوز و گداز اور مایوسی کا رنگ کیسے پیدا ہوتا۔ اسی سبب ابلیس تقنطو کے بجائے لاتقنطو کہتا ہے کہ میرے لئے رحمت الٰہی سے ناامید رہنا ہی مناسب ہے۔

ابلیس

ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامئہ عقل و خرد کا تار و پو

ابلیس نے جواب دیا کہ اے جبرائیل تونے میرے نافرمانی کرنے کے سبب پر غور نہیں دیا۔ وہ انکار و نافرمانی میرے حق میں جدائی کا سبب تو بن گیا لیکن اس سے ایک بات یہ ثابت ہو گئی کہ مجھ میں جو اخلاقی قوت ہے اس کے سبب میں نے جس بات کو صحیح سمجھا اسے بے خوف و خطر ظاہر بھی کر دیا۔ اور میرا یہ انکار بے وجہ نہیں میرے اس جامئہ فتنے (نافرمانی) کا نتیجہ یہ ہوا کہ کم عقل و چھوٹی سوچ رکھنے والے انسان میں یہ قوت پیدا ہو گئی کہ وہ اپنی شخصیت کو قائم رکھنے کی بنا کسی ڈر و خوف کے جرأت کر سکتا ہے۔ ابلیس نے اپنے پھیلائے اس فتنے کو ہر طرح سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے میں کہ تو

ابلیس طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے جبرائیل! تو اس دنیا میں جاری اچّھائی اور برائی کی اس جنگ کو کب سے ساحل پہ کھڑا دیکھ رہا ہے اور میں جو کہ اس جنگ کا سبب ہوں اور طوفان کے طمانچے بھی کھا رہا ہوں(یعنی لعنت اور ذلت بھی برداشت کر رہا ہوں) پھر بھی میرے پاؤں نہیں لڑکھڑا رہے۔ ابلیس اپنی خود سر عقلیت اور بالیٰ دستی پر اب بھی جامد ہے۔

خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو

ابلیس اپنی مدہوشی میں خوش ہو کر کہتا ہے کہ میں نے اس عالم ہستی میں جو طوفاں (فساد) پرپا کر رکھا ہے اس عام انسان تو کیا حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام جیسے باہمت انسان بھی میرے سامنے خالی ہاتھ بے بس اور لاچار نظر آتے ہیں۔ ان مصرعوں میں ابلیس کی خودسری و خوشفہمی عروج پر ہے۔

گر کبھی خلوت میسّر ہو تو پوچھ ﷲ سے
قصّہ آدم کر رنگیں کر گیا کس کا لہو

ان اشعار میں ابلیس کہتا ہے کہ اے جبرائیل کبھی خلوت (تنہائی) میسر ہو تو خداوند سے پوچھنا کہ آدم اور اولاد آدم کے واقعے کو کس نے اپنے لہو سے رنگیں کیا۔ اگر میں انکار نہ کرتا تو آج اولاد آدم کو یہ رنگینیان (بدکاری پر غلبہ) حاصل نہ ہوتے۔ یہاں ابلیس کے ذریعے اولاد آدم کو بھٹکانے اور بدکاری و دیگر فسادات میں مبتلا کرنے کا ذکر بڑے ہی مؤثر انداز میں کیا گیا ہے۔

میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط ﷲ ہُو ﷲ ہُو ﷲ ہُو

آخر میں ابلیس اپنے مقام کا رعب دکھاتے ہوئے فخر سے کہتا ہے کہ اے جبرائیل تو میرے مقام تک کبھی نہیں پہنچ سکتا، میں کہاں اور تو کہاں۔ میں نے رب کے حضور انکار کر کے اپنی انفرادیت اپنی خودی (عمل و عقل کی آزادی) کا ثبوت دے دیا۔ کیا تو ایسا کر سکتا ہے ؟؟ میرے مقابلے میں تو اپنی حیثیت پر غور کر کیا تو اپنے خدا کے سامنے اپنے کسی وعویٰ پر دلیل پیش کر سکتا ہے۔ کیا تجھ میں اتنا حوصلا ہے کہ تو اپنی خودی کا ثبوت دے سکتا ہے؟؟ ہرگز نہیں تیرے اندر مجھ جیسا حوصلہ, ہمت اور جرأت کہاں ہے۔

میرے سامنے تیری بساط ہی کیا ہے۔ تیری پوری زندگی صرف اس کی عبادت کرنا ہے اور بلا چوں چراں اس کی اطاعت کرنا ہے۔

اس نظم میں علامہ اقبال نے ابلیس کی سیرت کے اہم پہلوؤں کو روشناس کیا ہے اور اپنی شاعری کے مخصوص انداز اور اعلیٰ طرز بیان کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔ چونکہ ابلیس کائنات میں شر (برائی) کا سب سے بڑا مظہر ہے اسی لئے اقبال نے اسے ہی اپنی نظم کا موضوع بنایا ہے اور اسی کے ذریعے اچھے اور برے کا اثرانداز نقشہ پیش کیا ہے اور اس نظم میں تمام ادبی خوبیوں کو جمع کر دیا ہے جس کے سبب یہ نظم بال جبرائیل ہی نہیں بلکہ اُردو ادب کی بہترین نظموں میں شمار کی جاتی ہے‌۔

تحریر آفیرین ضمیر احمد