نظم عبدالقادر کے نام

0

علامہ اقبال کی نظم عبدالقادر کے نام کی تشریح

علامہ اقبال کی یہ نظم ان کے پہلے شعری مجموعہ “بانگ درا” میں شامل ہے۔ اقبالؔ نے یہ بلیغ نظم 1908ء کے آغاز میں اپنے دوست اور اردو ادب کے محسن شیخ سر عبدالقادر کے نام لکھی تھی جو 1907ء میں ان کے ساتھ ہی انگلستان میں مقیم تھے۔شیخ صاحب ایک معروف شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے 1901ء میں اردو زبان کی خدمت کا بیڑا اٹھایا اور اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود نصف صدی تک نہایت خلوص اور تندہی کے ساتھ اس کی ترویج و اشاعت میں کوشاں رہے۔ اردو ادب کے محسن کی حیثیت سے ان کا نام ہماری قومی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ شیخ سر عبدالقادر کی دو بہت مشہور خوبیاں تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ہر شخص کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے، دوسری یہ کہ اس زمانہ میں اللہ پر اور اس کی مشیت پر ایمان رکھتے تھے۔ آپ جنوری 1950ء میں اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔

اس نظم علامہ اقبال نے اپنے دوست کو اپنے دلی ارادوں سے آگاہ کیا ہے اور اس نظم کی اہمیت جو کچھ ہے اسی بنا پر ہے کہ اس میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کو اپنے مقصدِ حیات سے آگاہ کر دیا ہے۔چنانچہ ان کی حیات ارضی کے باقی ماندہ 30 سال اس بات پر شاہد ہیں کہ انہوں نے جو فیصلہ 1908ء میں کیا تھا، مرتے دم تک اس پر نہایت مضبوطی کے ساتھ قائم رہے۔واضح ہو کہ جو خیالات علامہ اقبال نے اس نظم میں ظاہر کیے ہیں انہیں کو وضاحت کے ساتھ نظم “خضر راہ” اور “طلوع اسلام” میں پیش کیا ہے۔

علامہ اقبال کی یہ نظم 11 اشعار پر مشتمل ہے جس کا آخری شعر فارسی زبان میں ہے۔ اب آئیے اس نظم کی شعر بشعر تشریح پڑھتے ہیں۔

پہلا شعر

پہلے شعر میں علامہ اقبال اپنے دوست کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ہمارے ملک ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی حالت قابلِ اطمینان نہیں ہے، ان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اس لیے آؤ ہم تم مل کر اس تاریکی کو دور کر دیں یعنی زندگی کو قوم کی خدمت میں بسر کرنے کا عزم کر لیں۔

دوسرا شعر

شاعر فرماتے ہیں کہ انسان کی زندگی بہت مختصر ہے اور جدوجہد کا زمانہ چند سال سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں لازم ہے کہ اپنی زندگی قوم کو بیدار کرنے کے لیے وقف کر دیں اور اس کے لئے حتی المقدور کوشش کریں۔

تیسرا شعر

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو عاشق رسولﷺ بننے کا درس دیں کیونکہ اس عشق کی بدولت ان میں یہ طاقت پیدا ہوجائے گی کہ وہ آئندہ کے زمانہ میں کامیاب ہو سکیں گے۔

چوتھا شعر

شاعر فرماتے ہیں کہ آو ہم اپنی نوجوان نسل کو ان کے بزرگوں کے کارنامے سنائیں تاکہ ان کے اندر بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی آرزو پیدا ہو۔

پانچواں شعر

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ آو مسلمانوں کو جدوجہد کا سبق پڑھائیں اور اس حقیقت سے آگاہ کردیں کہ دنیا میں جدوجہد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی، تاکہ وہ جو آج بے مایہ اور محکوم ہیں آئندہ چل کر سربلند اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔

چھٹا شعر

آو ہندوستان کے مسلمانوں کو غیر اسلامی یعنی چینی روایات، تہذیب اور تمدن کے نقصانات کو واضح کرکے ان کو عربی زبان، تہذیب اور روایات کا شیدائی بنا دیں۔

ساتواں شعر

اس شعر میں صنعت تلمیخ استعمال کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ 1908ء میں دمشق سے مدینہ منورہ تک ریل آ گئی تھی۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر وقت انقلاب رونما ہوتا رہتا ہے چناچہ دیکھ لو مدینہ میں اونٹ بیکار ہوگئے۔ لہذا اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان بھی اپنے اندر انقلاب پیدا کریں تاکہ کم از کم اس کے لئے تیاری کر دیں۔

آٹھواں شعر

شاعر فرماتے ہیں ہمیں لازم ہے کہ مسلمانوں کو ازسرنو حقائقِ اسلام سے روشناس کریں اور یہ کہ ان کے دلوں میں عشق رسولﷺ کی آگ بھڑکا دیں تاکہ وہ اپنا تن من دھن سب اسلام کے نام پر قربان کر سکیں۔

نواں شعر

یورپ بالخصوص انگلستان میں، جس عشق رسولﷺ نے ہم کو غیر اسلامی زندگی سے محفوظ رکھا، ہم کو لازم ہے کہ دنیا کو اس نعمت سے روشناس کردیں یعنی تمام دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچائیں۔

دسواں شعر

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ کاش ہم شمع سے سبق لے سکیں، اگرچہ وہ خود جل کر ختم ہو جاتی ہے لیکن دنیا والوں کو اپنے نور سے منور کر دیتی ہے۔ اسی طرح ہم دوسروں کو اسلام کی نعمت سے مالا مال کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیں۔

گیارہواں شعر

شمع کے دل میں جو خیال بھی پیدا ہوتا ہے وہ اس کی زبان پر آجاتا ہے۔ جلنا خیال تو نہیں ہے جو دل میں پوشیدہ رہ سکے۔مطلب یہ ہے کہ جس طرح شمع کا ظاہر و باطن یکساں ہوتا ہے یعنی جو اس کے اندر ہے وہ جل جل کر باہر آتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنا ظاہر و باطن یکساں رکھے۔