مسجد قرطبہ کا خلاصہ

0

’’مسجدِ قرطبہ‘‘ اقبالؔ کی ایک مشہور و معروف نظم ہے جو ان کے مجموعۂ کلام ’’بالِ جبریل ‘‘ میں شامل ہے اور جسے انہوں نے ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص قرطبہ میں لکھی ہے- اس نظم میں اقبال ؔکا فکر و فن اپنے مرتبۂ کمال پر نظر آتاہے- اس کا شمار اقبالؔ کی شاہکار نظموں میں ہوتا ہے-
’’مسجدقرطبہ‘‘ آٹھ بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند میں ایک مرکزی خیال پایا جاتاہے-نظم کے پہلے بند میں اقبالؔنے وقت اور زمانہ کی حکیمانہ اور فلسفیانہ بحث کرتے ہوئے اپنے حرکی نظریۂ حیات کو پیش کیاہے-وقت کی بہاؤ او راس کی روانی کا فنکارانہ انداز ملاحظہ کیجیے:

سلسلۂ روز و شب نقشِ گِر حادثات
سلسلۂ روز و شب اصلِ حیات و ممات
سلسلۂ روز و شب تارِ حریرِ دورنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز وشب ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیرو بم ممکنات
تجھ کو پرکھتاہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلۂ روز وشب صیرفیِ کائنات
توہے اگر کم عیار میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات موت ہے میری برات
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی روجس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کارِ جہاں بے ثبات !کار جہاں بے ثبات
اول و آخر فنا ظاہر و باطن فنا
نقش کہن ہوکہ نو منزل آخر فنا

اقبالؔ کہتے ہیں کہ سلسلۂ روز و شب سے ہی زندگی کے تغیرات و انقلابات رونما ہوتے اور جملہ حادثات و واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں-اس میں حرکت و عمل اور روانی و بہاؤ کی ایک کیفیت پائی جاتی ہے جو اصل زندگی ہے اور اس کا سکون موت ہے -یہ سلسلۂ روز و شب اپنے وجود میں ریشم کے دوتار سیاہ و سفید رکھتا ہے جس سے ذات اپنی صفات کی قبا تخلیق کرتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے تمام جلالی اورجمالی صفات زمانے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات و حادثات سے نمایاں ہوتے ہیں اور جو چشم بینا رکھتا ہے اس کا بھرپور مشاہدہ کرتا اور نصیحت اخذ کرتا ہے- رات اور دن کا یہ سلسلہ جسے اقبال نے زمانہ کا نام دیا ہے در اصل ازل کے ساز کا وہ آہ و فغاں ہے جس کے سبب فطرت ممکناتِ زیر و بم یعنی عروج و زوال کو نمایاں کرتی ہے -زمانہ کی حیثیت صیرفی کائنات کی ہے –

جوحیاتِ انسانی کے اچھے اور بُرے اعمال کو پرکھتا اور اس کا تعین کرتا ہے اور جس شخص کی خودی ضعیف و ناقص ہوتی ہے اس کے حصّے میں موت کے سواکچھ نہیں ہوتا اور زمانہ اسے فراموش کردیتا ہے برخلاف اس کے جس بندہ کی خودی عشق لازوال سے مستحکم اور پائدار ہوتی ہے اس کے حصّے میں دائمی زندگی ہوتی ہے- موت اس کے وجود کو مٹاتی نہیں بلکہ مزید نکھارتی ہے- سلسلۂ روزو شب کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں نہ دن ہے نہ رات بلکہ اس میں پیہم حرکت اور بہاؤ ہے سکون نہیں ہے- بند کے آخر میں اقبال نے اس حقیقت کو شاعری کا حسین جامہ پہنانے کی کامیاب سعی کی ہے کہ اس کائنات میں علم و ہنر کے جتنے بھی معجزے نمایاں ہیں یا نمایاں ہوں گے وہ سب فانی ہیں اس لیے کہ کارخانۂ علم یا کارِ جہاں کو ثبات حاصل نہیں ہے- انسان کی بنائی ہوئی ہر چیز کا ظاہر اور باطن سب فنا ہوجانے والی ہے خواہ وہ چیز نئی ہو یا پرانی-

دوسرے بند میں پہلے بند سے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ انسان کے تخلیق کردہ نقوش کو ثبات حاصل نہیں ہے تاہم جس شئے یا جس نقش کی تخلیق میں مردِ مومن کا عشق اور اس کاخونِ جگر شامل ہوتا ہے اس کے حصّے میں فنا نہیں ہوتی بلکہ اس پر ثبات کا رنگ غالب ہوتاہے کیونکہ مردِ خدا کا عمل عشق لافانی اور عشق حقیقی سے فروغ پاتا ہے لہذاعشق کی طرح اس کا عمل بھی لافانی ہوجاتا ہے – اس بند میں اقبال نے جس جذبۂ عشق کو صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے وہ اردو کے عام شعراء سے قطعاً جداگانہ ہے- اقبال ؔ کا عشق حد درجہ فعال ومتحرک ہے- اسے عشقِ حقیقی کا نام دیا جاسکتا ہے- اقبالؔ نے اس عشق کو بڑی وسعت عطا کی ہے-

یہ عشق جملہ تخلیق و عمل کا محرکِ حقیقی ہے- اس عشق میں خلّا قانہ صفت پائی جاتی ہے-یہ عشق اپنے اندر بے پناہ قوت و طاقت رکھتا ہے -اسی عشق کی بدولت امامِ حسین عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باطل کے خلاف آوازبلند کی اور حق کی خاطر اپنی جانِ عزیز کو قربان کردیا اور لافانی حیات حاصل کرلی- حضرت ابراہیم علیہ السلام اسلام نے اسی عشق کی بدولت اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے نارِ نمرود کو گلے لگا لیا تو انہیں ایسی حیات ابدی حاصل ہوئی کہ ان کے کارہائے نمایاں اور ان کے عشق کو آج بھی زمانہ یاد کرتا ہے اور قیامت تک یاد کرتا رہے گا- یہ عشق جب انسان کے رگ و پئے میں سما جاتا ہے تو اسے جہاں روحانیت عطا کرتاہے وہیں اشیاء کے حقائق کا علم بھی بخشتا ہوا نظر آتا ہے- بند کے اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں اقبالؔ نے اپنے فلسفۂ عشق کے مختلف رنگ و آہنگ کو بے نقاب کرنے کی کامیاب سعی کی ہے-

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشقِ دمِ جبریل ، عشق دلِ مصطفی
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کاس الکرام
عشق فقیہ حرم، عشق امیر جُنود
عشق ہے ابن السبیل ا س کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات

اقبال ؔ کا کہنا ہے کہ گرچہ عشق کی راہ پر خار ہوتی ہے اور زمانہ سیل کی مانند ہوتا ہے تاہم عشق میں وہ قوت و طاقت ہوتی ہے کہ وہ راہ عشق کی مزاحمتوں کو اپنے خاطر میں نہیں لاتا اور زمانہ پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے اور اپنے نیک مقاصد کے حصوں کی خاطر اپنا سفر یقین محکم کے ساتھ جاری رکھتا ہے- اس عشق کے کلینڈر میں عصر حاضر کے علاوہ بھی بہت سے زمانے پنہاں ہوتے ہیں جن کا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا – اس رمز سے وہی آشنا ہوتا ہے جس کی خودی عشق کے توسط سے مستحکم ہوتی ہے اور جسے اپنی ذات اور خدا کی ذات کا عرفان حاصل ہوتا ہے یہ عشق اتنا پاکیزہ اور اس کا مقام اس قدر اونچا ہے کہ اقبالؔ نے اسے دمِ جبریل اور دلِ مصطفی سے تعبیر کیا ہے-اسی عشق کی بدولت کائنات کا ظہور ہوا اور رسول خدا اور کلامِ خدا معرضِ وجود میں آئے گویایہ عشق ایک طرح سے آسمانی جوہر ہے جس کے سبب انسان کا مقام اونچا اور اس کا مرتبہ بلند ہوتا ہے-

انسان کی تمام ترتابناکی، توانائی اور روحانیت اسی عشق کی مرہون منت ہیں – یہ عشق سخی میخوار کے شرابِ ناب سے لبریز ایک ایسا پیالہ ہے جس سے ہر خاص و عام اپنے اپنے ظرف کے مطابق فیض یاب ہوتا ہے- یہ عشق جہاں شریعت و طریقت و حقیقت کا محافظ ہے وہیں اللہ کی راہ میں جنگ کرنے والے مجاہدوں کی فوج کا امیر بھی ہے جو باطل کے خلاف جنگ پر آمادہ کرتا ہے اس عشق کے ہزاروںمقامات ہیں- اس کی حیثیت ایک مسافر کی ہے جو اپنے مقصد کے حصول میں اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اس دوران نئے نئے مقامات کا مشاہدہ کرتا ہے یعنی روحانی منازل طے کرتا ہے- اسی عشق کی بدولت زندگی کے ساز سے نغمہ جاری و ساری ہے- حیاتِ انسانی کی تمام تر روحانی قومیں اور مخفی صلاحیتیں عشق ہی سے ظہور پذیر ہوتی ہیں اور اسی عشق کے توسط سے بندہ اعلیٰ مدارج پر فائز ہوتا ہے اور ابدی مقام حاصل کرتا ہے-

تیسرے بند میں اقبالؔمسجدِ قرطبہ جو عشق کا حاصل اور اسلامی فن کا شاہکار ہے سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ آے حرمِ قرطبہ تیرا وجود بلا شبہ عشق کی بدولت ہے لہذا عشق کی طرح تجھے بھی دوام حاصل ہے- زمانہ تو صرف انہی نقوش کونیست ونابود کرتا ہے جن میں عشق کا فقدان ہوتاہے-

اے رمِ قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود

آگے اقبالؔ اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ مصوری ہو یا فن تعمیر و سنگ تراشی، موسیقی ہو یا شاعری، فن کا کمال اور اس کا معجزہ یہ ہے کہ اس میںفنکار کا خونِ جگر یعنی جذبۂ عشق شامل ہو- فنکار کے خلوص و محبت سے عاری فن میں نہ تو معروضی وموضوعی حسن کار فرماہوتاہے اور نہ ہی اُس کی حیثیت دائمی ہوتی ہے- اس میں دل نوازی اور نظر افروزی کا فقدان ہوتاہے-

رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزئہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

خونِ جگر جو اقبالؔ کی شاعری میں عشق کے مترادفات میں سے ہے اس کا وصف یہ ہے کہ بڑے سے بڑے پتھر کے اندر بھی دل پیدا کرکے اسے سوز و سرور وسرود بخش دیتا ہے -بند کے آخر میں اقبالؔ نے عظمت آدم اورمقام آدمی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس حدیثِ قدسی کو شعر کا حسین جامہ پہنایا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ مومن کا قلب عرشِ الٰہی کی مانند ہے جہاں اللہ جلوہ گر ہوتا ہے-

عرشِ مُعلّٰی سے کم سینۂ آدم نہیں
گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہر کبود

اقبالؔ کہتے ہیں کہ گرچہ انسان کی تخلیق کھنکھناتی ہوئی مٹی اور انتہائی حقیر شئے’’ نطفہ‘‘سے ہوئی ہے اور بظارہر اُس کی حد نیلگوں فلک تک ہے تاہم جب یہ خاکی پیکر عشق کے جذبہ سے سرشار ہوکر اس کی رہبری میں اپنے نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کرتا ہے تو اسے جہاں روحانیت حاصل ہوتی ہے وہیں اس کاقلب اللہ کی جلوہ گاہ بن جاتا ہے اور وہ بذاتِ خود محرمِ رازِ درونِ میخانہ ہوجاتا ہے – فرشتوں کو گرچہ توفیق سجدہ میسر ہے لیکن سجدے کے سوز وگدازجوعبادت کی اصل اور اس کی روح ہے سے محروم ہیں اور اسی بناپر انسان کا مقام فرشتوں سے اونچا اور بلندو بالا ہوجاتاہے-

پیکر نوری کو سجدہ میسّر تو کیا
اس کو میسّر نہیں سوزو گدازِ سجود

نظم کے چوتھے بند میں اقبال ؔ نے مردِمسلمان کی صفات پر اپنے شاعرانہ اور فنکارانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے- مسجد قرطبہ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اے مسجد قرطبہ تیرے جلال و جمال سے مرد مومن کا جلال و جمال نمایاں ہے- تیری بنیاد نہایت پائدار اور تیرے ستون ان گنت ہیں- شام کے صحرا میں تیرے ستونوں کی مثال ایسی ہے جیسے نخلستان میں کھجوروں کے درخت کی قطاریں جو حسین اور دلکش منظر پیش کرتی ہیں- تیرے درو بام پر ایمن کا نور برس رہا ہے اور تیرے منا ر کی بلندی کا یہ حال ہے کہ جیسے جبریل کی جلوہ گاہ جہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتاہے – اگرچہ قوم مسلم سرزمین ہسپانیہ سے مٹ گئی ہے تا ہم صفحۂ ہستی سے اسے کوئی نہیں مٹا سکتا کیونکہ یہ قوم دین ِ ابراہیمی کا محافظ اور سرِ کلیمی کے راز کو فاش کرنے والی ہے- قومِ مسلم کی زمین و آسمان کی کوئی حد نہیں ہے- اس کے سمندر کے موج کی طغیانی یعنی اس کے عروج اورکا رہائے نمایاں سے پوری دنیا واقف ہے-مردِ مسلمان ایک ایسا سپاہی ہے جس کا زرہ لا الہ ہے جس کی بدولت وہ تیغ اصیل کا مالک ہے- وہ فقیری میں بھی بادشاہی کرتا ہوا نظر آتا ہے- وہ میدانِ کارزار میں تیغ و شمشیر کے سایہ سے خوف زدہ نہیں ہوتا اور راہِ فرار اختیار نہیں کرتا کیونکہ اس کایقین اللہ کی ذات پر ہوتا ہے جو انتہائی قوی اور اپنے کاموں پر غالب ہے، بند کے اشعار ملاحظہ کیجیے-

تیرا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تیرے در و بام پر وادیٔ ایمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گہہ جبرئیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرّ کلیم و خلیل
اس کی زمیں بے حدود ، اس کا فلک بے ثغور
اس کے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل
مردِ سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لاالہ
سایۂ شمشیر میں اس کی پنہ لاالہ

نظم کے پانچویں بند میں اقبالؔ نے مردِ مومن کے اوصاف اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کو شاعری کے حسین پیرائے میں اجاگر کرنے کی سعی بلیغ کی ہے- بند اس طرح ہے-

تجھ سے ہوا آشکار بندئہ مومن کا راز
اس کے دلوں کی تپش اس کی شبوں کا گداز
ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار و کشا کارساز
خاکی و نوری نہاد بندئہ مولیٰ صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز
نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز
نقطۂ پرکارِ حق مرد خدا کا یقین
اور یہ عالم تمام و ہم و طِلسم و مجاز
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ

اقبالؔ کا کہنا ہے کہ مسجدِ قرطبہ کی شان و شوکت اور اس کی عظمت و رفعت سے بندئہ مومن کے جذبۂ عشق، اس کے اخلاص و محبت ، اس کے شب وروز کی حقیقت، اس کے نازو نیاز، اس کے نیک مقاصد اور اس کی بلند حوصلگی روشن اور نمایاں ہیں- مردِ مومن صفات الٰہیہ اور اوصاف حمیدہ سے متصف ہوکر روحانی قوتوں سے مالا مال ہوتا ہے- اس کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ، اس کی آنکھیں اللہ کی آنکھیں، اس کا کان اللہ کا کان، اس کی زبان اللہ کی زبان اور اس کے پیر اللہ کے پیر بن جاتے ہیں یعنی مرد مومن کے جملہ اعضاو جوارح میں اللہ اپنا فعل جاری کرتا ہے کیونکہ وہ مرد مومن کو اپنا محبوب رکھتا ہے- اللہ تعالیٰ اسے کرامتوں کے تاج سے نوازتا اور اسے بلند مقام پر فائز کرتا ہے جس کے سبب مردِ مومن کار آفرینی، کارسازی و کارکشائی کرتا اور فطرت کو مسخر کرتا ہوا نظر آتا ہے، اور یہ حدیث قدسی سے بالکل ثابت ہے- اہل علم اس سے بخوبی واقف ہیں-

آگے اقبال فرماتے ہیںمردِ مومن کی آرزوئیں اور امیدیں دنیاوی اعتبار سے اور عام انسانوں کے مقابلے میں بہت قلیل ہوتی ہیں اور اس کے نیک مقاصد اور اس کے عزم و حوصلے و ارادے عظیم اور تاریخ ساز ہوتے ہیں-وہ اللہ کی خاطر جیتا او راللہ ہی کی خاطر دنیا سے کوچ کرتا ہے- اس کی موت اس کے وجود کو نقصان پہنچانے سے قاصر ہوتی ہے بلکہ موت اس کی زندگی کے مذاق (Test) کی تجدید کرتی ہے- اس کی اداؤں میں دل فریبی اور اس کی نگاہوں میں د ل نوازی ہوتی ہے- وہ اپنے اغراض و مقاصد پر قوم وملت کے اغراض و مقاصد کو مقدم رکھتا ہے جس کی بناپر اس کی سیرت وکردار سے اسلام کی حقانیت کا ظہور ہوتا ہے اور کفر دم توڑتاہوا نظر آتا ہے، اس کے اندر جمال بھی ہوتا ہے اور جلال بھی-

وہ جہاں حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم ہوتا ہے وہیں رزم حق و باطل میں فولاد ہوتا ہے- وہ زندگی کے جس بھی شعبے میں ہوتا ہے اس کی نیت خالص او راس کا دل بغض و عناد سے پاک ہوتا ہے- اس کے اندر عام انسانوں کی طرح وہم و طلسم و مجاز کی مذمومہ صفت نہیں پائی جاتی بلکہ اس کا ایمان و یقین اتنا مستحکم او راس کی خودی اتنی پائدار ہوتی ہے کہ اس پر حوادثات روز گار کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا- اس کا عشق مرشد او راس کی عقل سلیم ہوتی ہے جو ہمہ وقت زندگی کے ہر گام پر اس کی رہبری کرتی ہے- وہ زمین کی طرح متواضع او سورج کی طرح فیاض ہوتا ہے جس سے ہر نیک و بد اور ہر خاص و عام اپنے ظرف کے مطابق فیضیاب ہوتا ہے- حقیقت میں اقبالؔ نے اس بند میں مرد مومن کی اصطلاح میں اولیائے کا ملین کے اوصاف اور ان کی عظمت و رفعت کو بے نقاب کیا ہے جو حقیقی معنوں میں نیابت الٰہی کے منصب پر فائز ہوکر تسخیر کائنات اور تسخیر فطرت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہی عشق و عقل کا حاصل او راس کے اغراض ہیں۔

مسجد قرطبہ کے چھٹے اورساتویں بند میں اقبالؔ کا ذہن عہدِ ماضی کی طرف رواں دواں ہوتا ہے اور وہ ان مردان حق اور عربی النسل مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا ذکرکرتے ہیں جنہوں نے عہد ماضی میں ہسپانیہ کو فتح کیا اور عظیم الشان کارہائے نمایاں انجام دبے اور بے مثل مسجد کی تعمیر کرائی- یادِ ماضی اقبال کے لیے ایک المیہ کی حیثیت رکھتی ہے- مسلمانانِ اندلس کی تاریخ اقبالؔ کے قلب و جگر میں دردوکرب اور رنج و الم کا احساس جگا دیتی ہے اور یہ احساس اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس کی آنچ اقبالؔ کے اسلوب اور اس کے صوتی ڈھانچے میں بھی ہم محسوس کرتے ہیں- یہ اقبالؔ کے فنِ شاعری کی وہ خوبی ہے جو انہیں دیگر اردو کے شعراء میں ممتاز و منفرد بناتی اور ایک بڑے فنکار کا رتبہ عطا کرتی ہے- بند کے اشعار دیکھیے-

آہ وہ مردان حق وہ عربی شہسوار
حاملِ خلقِ عظیم صاحبِ صدق و یقیں
جن کی حکومت سے فاش یہ رمز غریب
سلطنتِ اہل دل فقر ہے شاہی نہیں
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلس
خوش دل و گرم اختلاط سادہ و روشن جبیں
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے

اندلس کے مردانِ حق، جو خلق عظیم اور صدق و یقین کے پیکر تھے اور جنہوں نے فقیری میں بادشاہی کرکے اہل یورپ کو عقل و شعور عطا کیا اور انہیں حیرت و استعجاب میں ڈال دیا، کے چھ سو سالہ تاریخ کے ذکر میں جو فکر کی گہرائی اور فن کی بالیدگی ہے اس کی مثال اردو شاعری پیش کرنے سے قاصر و عاجز نظر آتی ہے، اقبالؔ نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے جہاں الفاظ کاموزوں استعمال کیاہے وہیں اس کی ترتیب و تزئین میں بھی اپنے فنکارانہ کمالات کے جوہر دکھلائے ہیں-

نظم کے ساتویں بند میں اقبالؔ ایک ایسے عظیم اور صالح انقلاب کے متمنی نظر آتے ہیں جو ملتِ اسلامیہ کی زندگی کے جمود کو توڑ کر اس میں زندگی کی نئی وسعتیں اور جدید قوتیں پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو نیز ذہنی غلامی سے نجات دلا کر اس کی عظمتِ رفتہ اور وقارِ کم شدہ کو پھر سے بحال کرسکے- بند کے اشعار ملاحظہ کیے-


دیدۂ انجم میںہے تیری زمیں آسماں
آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عشق بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں
دیکھ چکا المنیؔ شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کہن کے نشاں
حرفِ غلط بن گئی عظمت پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتیٔ نازک رواں
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دیگر گوں ہوا مغربیوں کا جہاں
ملتِ رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذتِ تجدیدہ سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
روحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
رازِ خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں
دیکھئے اس بحر کے تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا

اس بند میں اقبال نے دور حاضر یا عہدِ ماضی میں جہاں جہاں انقلابی تحریکیں عمل میں آئی ہیں ان کا ذکرپسندیدگی سے کیا ہے کیونکہ ان انقلابی تحریکوں کی بدولت جہاں علم و حکمت کے راستے ہموار ہوئے ہیں وہیں حریّت و مساوات و اخوت کے عظیم نعرے بھی بلند ہوئے – علاوہ ازیں مغرب کے دینی افکار میں آزادی بھی آئی-اس طرح اقبالؔ ایک ایسے ہمہ گیر انقلاب کے آرزو مند ہوتے ہیں جو ملتِ اسلامیہ کے رویے او ران کے ذہن و دل کے و ہم و طلسم ومجاز کو دورکرکے یقیں محکم اور عمل پیہم سے ہم آہنگ کرے اور متحرک اورفعال قوتوں سے ہمکنار کرے- اس انقلاب کے لیے وہ جذبۂ عشق کو ناگزیر قرار دیتے ہیں کیونکہ عشق ہی سے سوز یقین اور ذوقِ عمل پیدا ہوسکتا ہے اور نت نئی دنیائیں تخلیق ہوسکتی ہیں-

نظم کا آٹھواں اور آخری بند کا آغاز ایک ایسے حسین اور دل نشیں منظر سے ہوتا ہے جہاں پہاڑوں کے پیچھے آفتاب غروب ہوتا اور شفق کی سُرخی چھوڑجاتا ہے-شام کے اس دھندلکے اور خوب صورت منظر میں دخترِ دہقاں کا سادہ اور پرسوز گیت فضاؤں کو نغمہ ریز کردیتا ہے – اس رومان انگیز ماحول میں اقبالؔ دریائے کبیرؔ جہاں مسجد قرطبہ آباد ہے، کے کنارے مستقبل کو اپنے چشم دل سے دیکھ لیتے ہیں اور یہ مژدہ سناتے ہیں کہ پردئہ تقدیر کے عقب سے ایک جہانِ نو طلوع ہونے والا ہے-

وادیٔ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب
لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
سادہ و پر سوز ہے دخترِ دہقاں کے گیت
کشتیٔ دل کے لئے سیل ہے عہدِ شباب
آبِ روان کبیرؔ!تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردئہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب


اس پسِ منظر کے بعد اب ذرا پیشِ منظر ملاحظہ کیجیے-


جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب
صورت شمشیر ہے دستِ فضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر

بند کے آخر میں اقبال اپنے نظریۂ حیات کو پیش کرتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ جو قوم اپنے رویے اور اپنے ذہن وفکر میں تبدیلی کے عمل سے غافل ہے اور عشق کے جذبہ سے عاری ہے وہ قوم مردہ کی مانند ہے- زندگی حرکت و عمل سے عبارت ہے- زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے اور زندگی پیمانۂ امروز و فردا سے بالا تر جاوداں اور پیہم رواں ہے- اللہ تعالیٰ کی نصرت اسی کو میسر ہوتی ہے جو اپنے رویے کو بدلنے کا خواست گار اور جہد مسلسل کے لیے آمادہ ہو- زندگی کی روح اور اس کی اصل انقلاب کے کشمکش میں مضمر ہے- جو قوم ہر لمحہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتی رہتی ہے اس کی حیثیت دستِ قضا میں شمشیر کی مانند ہوتی ہے- اللہ رب العزت اسے زندگی کے ہر موڑ اور ہر منزل پر کامیاب و کامراں بناتا ہے- بند کے سب سے آخری شعر جس پر نظم اختتام پذیر ہوتی ہے، میں اقبالؔ نے ایک عظیم حقیقت کی عقدہ کشائی کی ہے کہ خونِ جگر یعنی خلوص و صداقت و محبت کے بغیر جملہ علوم و فنون اور حیات انسانی کے تمام تر اعمال و افعال نامکمل ہیں جن سے خاطر خواہ نتائج اور فوائد کی امید نہیں کی جاسکتی-

فنی لحاظ سے بھی یہ نظم حد درجہ کامیاب ہے- اس میں اقبالؔ نے جہاں اپنے موضوع کی مناسبت سے الفاظ کا حسین انتخاب کیا ہے وہیں اس کی ترتیب و تزئین میں بھی اپنے کمالات کے جوہر دکھلائے ہیں جس کے سبب الفاظ معنی کے حُسن سے جگمگا اٹھے ہیں-علاوہ ازیں تشبیہات و استعارات میں ندرت و جدت اور تلمیحات و اصطلاحات میں ایک جہان تازہ کا ہمیں احساس ہوتا ہے- منظر نگاری بھی درجۂ کمال پر دکھائی دیتی ہے- کہیں بھی خطیبانہ رنگ غالب نہیں ہے بلکہ ہر جگہ موسیقیت ، شعریت اور غنائیت پائی جاتی ہے اور یہی کامیاب و عظیم شاعری کی پہچان ہے- مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ مسجد قرطبہ‘‘فکر و فن ہر دو اعتبار سے اقبالؔ کی ایک کامیاب اور شاہ کار نظم ہے- اس نظم میں انہوں نے اپنے فلسفۂ عشق اور فلسفۂ حیات کو شاعری کا جو حسین او ردلکش جامہ عطا کیا ہے اورجس طرح فلسفہ کو شاعری اور شاعری کو فلسفہ بنا کر پیش کیا ہے وہ عدیم المثال ہے-بلا شبہ اقبالؔ جہاں ایک عظیم مفکر و حکیم ہیں وہیں ایک منفرد انقلابی شاعر بھی ہیں- ان کے انقلاب کی نوعیت عام اردو شعراء سے قطعاً جداگانہ ہے-