جیو اور جینے دو

0
زندگی کا ہے یہ نظام غلط 
صبح بہتر ملی تو شام غلط 

آسماں سے اتر کے دیکھ ذرا 
کیوں زمیں کے ہیں انتظام غلط 

میرے اندر اسی کا ورد ہے کیوں 
لب پہ لانا ہے جس کا نام غلط  

کرنی ہو آزمائش بازار 
تو لگائیں خود اپنے دام غلط 

نہ سماعت غلط تھی لوگوں کی 
نہ ہی ہمارا تھا کلام غلط 

پاکستانی معاشرے کے اندر کچھ لوگ بڑے دلچسپ ہیں۔ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا وہ اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔ کسی معاملے سے براہ راست تعلق نہ بھی ہو تو اپنی دانش وری جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے انہیں بعد میں ہزیمت ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ ہمارا یہ ایک اجتماعی نفسیاتی مسئلہ بن چکا ہے، ایک اجتماعی رویہ بن چکا ہے کہ ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا دشوار لگنے لگ گیا ہے۔ 

نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ گلی میں سوئے ہوئے کتے کو بھی ہم پتھر مار کر چیک ضرور کرتے ہیں کہ وہ سویا ہوا ہے یا مرا ہوا؟ یہی سلوک ہم انسانوں کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ کون کیا کر رہا ہے؟ کہاں سے آ رہا ہے؟ کہاں جا رہا ہے؟ اس کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ کتنا کماتا ہے؟ اس کا گھر کتنا بڑا اور کیسا ہے؟ کوئی بے روزگار ہو تو ہم پھر بھی اس کے بارے میں باتیں کریں گے کہ یہ بے کار کیوں پھر رہا ہے کوئی کام دھندہ کیوں نہیں کرتا؟ کسی کے پاس روزگار ہے تو ہم اس کے بارے میں بھی کافی شکوک و شبہات رکھتے ہیں کہ اس نے یہ روزگار کیسے حاصل کیا ہو گا؟ ہمیں اگر کسی کے موٹے ہونے پہ اعتراض ہے تو سمارٹ ہونے پر بھی کوئی نہ کوئی شکوہ، شکایت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔

کسی کے گورا یا کالا ہونے میں بھی ہمیں فتویٰ لگانے کا موقع مل جاتا ہے۔ پوری دنیا میں دیکھ لیں، مسائل تبھی پیدا ہوتے ہیں جب ہم دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر کام کی کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں اگر ہم   ان   حدود و قیود  کی پاسداری کرتے ہیں تو تمام تر معاملات خواہ وہ دینی ہوں یا دنیٰوی، ان کے اندر ایک توازن نظر آتا ہے، اور یقین مانیں کہ توازن میں ہی زندگی کی خوبصورتی ہے۔ ہم کسی کو بدلنے کی کوشش نہ کریں، نہ ہی اپنا آپ کسی کے لئے بدلیں۔ جس چیز کو باری تعالیٰ نے جس جگہ پہ رکھا ہے اس میں حکمت ہے۔ اس لئے کوئی موٹا ہے یا سمارٹ، امیر ہے یا غریب، گورا ہے یا کالا۔۔۔۔۔ کوئی جیسا بھی ہے اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا جائے، اسے بھی سکون، آپ کو بھی سکون، ادھر بھی توازن، ادھر بھی توازن، دوسرے ممالک  میں بالکل بھی ایسا نہیں ہے۔ کوئی کسی کے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑاتا۔ کوئی کسی سے پنگا نہیں لیتا۔ سب اپنی دھن میں رہنے کے عادی ہیں۔ ایک متوازن زندگی اور سوچ کے مالک ہیں۔ کوئی فرد خواہ وہ کسی بھی طبقے سے کیوں نہ ہو، ان کے لئے وہ افضل ہی ہوتا ہے ابتر نہیں۔ کوئی بھی اڑتا ہوا تیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پکڑنے کی کوشش نہیں کرتابلکہ اپنے کام سے کام رکھنے میں ہی خیر و عافیت سمجھتا ہے۔ سب ایک دوسرے کے لئے ایک جیسے ہیں۔ چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔ کسی کو بھی کم تر نہیں سمجھا جاتا۔ 

ہمیں بھی چاہیئےکہ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کریں۔ کسی کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ کسی کے لئے رکاوٹیں پیدا نہ کریں۔ کسی کی بھی حیثیت کو چیلنج نہ کریں۔ کوئی کہاں سے کماتا ہے اور کیسے کھاتا ہےیہ سب اسی پہ چھوڑ دیں۔ آپ صرف اپنی اصلاح کریں۔ کوئی نماز پڑھتا ہے تو ہمیں پھر بھی اعتراض۔ کوئی زکوٰۃ دیتا ہے تو ہمیں پھر بھی اعتراض۔ کوئی داڑھی رکھے ہوئے ہے ہم اس پہ بھی وار کر دیں گے، کوئی بغیر داڑھی کے  ہے تو بچ وہ بھی نہیں سکتا۔ خدایا اپنے کام سے کام رکھیں، جیو اور جینے دو کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کو برباد ہونے سے بچائیں۔ زیادہ تیس مار خان بننے کی ضرورت نہیں۔

تحریر امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]