مرد کی بنیادی سوچ

0

عورت اور مرد اپنی ذمے داریوں کے لحاظ سے دو مختلف بشری سائے ہیں۔ مرد کی کچھ ذمے داریاں اسے مسلسل ایک حسار میں لیے رکھتی ہیں۔ وہ پیدا ہوتا ہے تو اہل و عیال کو نظریاتی پختگی اور دلی سکون ملتا ہے کہ ایک سہارا مل گیا ہے۔پہلے دن سے سوچ لیا جاتا ہے کہ پیدا ہونے والا بڑا ہو کے ہمارے ذوزخ بھرے گا اور کام دھندے میں لگ جائے گا۔

سکول جانے لگتا ہے تو اس کے اندر یہ احساس روشن ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ ایسے مضامین کا انتخاب کرنا ہے جن سے کل کلاں کو کوئی سرکاری یا پرائیویٹ نوکری مل جائے۔البتہ بچپن میں ہی وہ ماں باپ کا ہاتھ بٹانے لگ جاتا ہے جس سے اس کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔کالج داخلے کے دوران وہ کچھ زیادہ ہی مادی سوچ کو مقناطیسی قوت کے ساتھ اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔

مختلف صورتوں میں وہ کئی ایک انداز اور طور طریقوں سے آنے والی زندگی کی پلاننگ کرتا چلا جاتا ہے۔بھائیوں میں اگر وہ بڑا ہے تو ان کی ذمہ داری بھی اسی کے کندھوں پر آتی ہے اور اگر چھوٹا ہے تو لاڈ دکھانے کی بجائے بعض دفعہ وہ ایک اضافی بوجھ تلے چپ چاپ دب جاتا ہے ۔ کوئی نوکری مل جانے کے بعد ( خواہ وہ سرکاری ہو یا پرائیویٹ) اس کا فطری جذبہ اسے بہنوں کی شادی بیاہ کا جہیز بنانے کی طرف مائل کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں مرد زیادہ تر یہی سوچ رکھتے ہیں کہ بہنوں کی شادی کے بعد وہ اپنی شادی کا سوچیں گے۔اپنی شادی کا سوچتے سوچتے ان کے سینے سفید ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

شادی سے پہلے اس کی ذمہ داریوں میں ماں بہن اور دیگر بھائی تھے لیکن شادی کے بعد دلہن اور پیدا ہونے والی اولاد بھی اس کے کھاتے میں نام لکھوا لیتے ہیں ۔پہلے اسے بہنوں کا جہیز تیار کرنا تھا جس کے لیے اسے ساری زندگی داؤ پر لگانی پڑی اور اب بیٹیوں کا جہیز ۔گویا ایک شادی ہی اضافی سہولت بن کر اس کی زندگی میں آئی لیکن ذمے داریاں ابھی بھی وہی ہیں۔پہلے وہ بھائی بن کر سوچتا تھا اور اب ایک باپ بن کر سوچنے پر مجبور ہے ۔یہ کیسی سوچ ہے جو اسے ایک سائے کی مانند ہلکا پھلکا کیے جاتی ہے۔آخر اس سوچ سے آزادی پا کر وہ آزاد کیوں نہیں ہو جاتا۔ شادی سے پہلے بھی کمانا اس کا فرض تھا اور شادی کے بعد بھی کمانا اس پر واجب ہے۔

اولاد جوان ہوتی ہے تو اس وقت تک اس کی کمر ٹوٹ چکی ہوتی ہے۔دوران ملازمت یا ریٹائرمنٹ کے بعد کئی ایک بیماریاں اس میں زندہ ہو جاتی ہیں۔آخر وہ ذمے داریاں نبھاتے نبھاتے اچانک کسی دن قبر میں چلا جاتا ہے۔یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اب مرد مکتی پا گیا ہے یا اب بھی اس پر کچھ ذمے داریاں باقی ہیں۔اللہ نے مرد کو ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے پیدا کیا ہے ۔اس کی فطرت ہی باقی لوگوں سے مختلف ہے۔وہ جب کندھوں پر ذمے داریوں کا بوجھ پڑتے دیکھتا ہے تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہیں کرتا بلکہ خندہ پیشانی سے انہیں قبول فرماتا ہے۔

آخری سانس تک انہیں نبھانے میں خالص نیت کے ساتھ جتا رہتا ہے۔ہمارے پاکستانی معاشرے میں ایک مرد کو نوکری مل جائے تو باقی لونڈے لپاڑے سینہ چوڑا کر کے بڑے مان کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں کہ اب خیر صلاح ہو گئی ہے۔گھر کا ایک فرد باہر کے ملک چلا جائے تو باقی تمام پونگ رنگ برنگی جینز پہن کر سیر سپاٹوں میں وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ او جی ہمارا بھائی کینیڈا ، امریکہ یا کسی اور ملک میں ہوتا ہے ہمیں کیا ضرورت ہے کمائی کرنے کی۔ ایک فرد کمانے لگ جائے تو باقی سارے ویلے بیٹھ کے روٹیاں توڑتے ہیں۔واہ بھئی تہاڈی شان توں صدقے۔ خیر مرد بڑی پیاری چیز ہے۔بہت سخت جسم اور سخت خیالات لے کر پیدا ہوتا ہے۔لیکن یہ سختی کبھی کبھار زائل بھی ہو جاتی ہے۔جب وہ اندر سے ٹوٹتا ہے تو کہیں الگ کسی کونے میں بیٹھ کے جی ہلکا کر لیتا ہے لیکن کسی سے گلہ شکوہ نہیں کرتا کیوں کہ اسے پتا ہے وہ کمائی کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔

مقصد عورت کی تذلیل کرنا نہیں ہے۔عورت بھی بہت پیاری چیز ہے ۔اس کے کندھے بھی ذمے داریوں سے خالی نہیں ہیں ۔وہ گھر میں بھی موجود ہو تو اسے پورا یقین ہوتا ہے کہ اس کا مرد گھر سے باہر کمانے کی خاطر ہی ہے۔وہ خالی ہاتھ نہیں آئے گا اپنے مقدر کی روزی کما کر ہی آئے گا۔ان دونوں جسموں کی ذمے داریاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔عورت کمائی نہ کرئے تو مشرقی معاشرے میں اس کی عزت قائم رہتی ہے۔معاشرہ جانتا ہے کہ عورت کمائی کرنے لیے پیدا نہیں ہوئی اس کی کچھ اور ذمہ داریاں ہیں ۔اگر ایک مرد بیمار ہونے کی وجہ سے کچھ دن گھر بیٹھ جائے تو اسے بے شمار باتیں سننی پڑتی ہیں۔

تحریر امتیاز احمد
مرد کی بنیادی سوچ 1