ناول امراؤ جان ادا کا فکری و فنی جائزہ

0

مرزا رسوا نے اس ناول کو کسی محدود نقطہ نظر کے تحت نہیں لکھا۔ یہ ناول ایک لحاظ سے اپنے عہد کے لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کی تاریخ ہے۔ اس تاریخ کو واضح کرنے کے لیے اس میں جو کردار دکھائے گئے ہیں ان کے افعال و اعمال سے اس معاشرت کے اوہام و عقائد، میلانات و رجحانات اور افکار و خیال کی آئینہ داری ہوتی ہے۔ چنانچہ کرداروں کے عمل ہی سے سروکار نہیں رکھا گیا بلکہ مصنف نے ان کرداروں کے عمل کے پیچھے کار فرما افکار و رجحانات ، احساسات و کیفیات اور نظریات و محرکات کو بھی منعکس کیا ہے۔اردو ناول نگاری میں یہ امتیاز رسوا کو حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے ناول کے کرداروں کی داخلی کیفیات کی بہترین تصویر کشی کی۔

اس ناول میں بعض کرداروں کی تحلیل نفسی ، مصنف کے گہرے نفسیاتی شعور کا پتا دیتی ہے۔ ناول کے بیشتر کردار اپنے تجربات و احساسات کو جس انداز میں بیان کرتے ہیں، اس سے مرزا رسوا کا انسانی نفسیات سے ادراک عیاں ہوتا ہے۔ اس ناول میں طوائفوں کی مخصوص زندگی کا عکس بھی ہے اور اس کے متعلق تجسس رکھنے والوں کے لیے حیرت کا ایک باب اور ایک سامان بھی۔ “امراؤ جان ادا” میں مخصوص طبقے کے ذہنی میلانات بھی ہیں اور طبقہ امراء کے ہاں پائے جانے والے اخلاقی انحطاط کا ذکر بھی ہے۔ اس ناول میں لکھنؤ کی معاشرت میں طوائف کی جو سماجی اہمیت اور حیثیت متعین ہو گئی تھی اُس کا پس منظر بھی موجود ہے۔ سب سے بڑھ کر مرزا ہادی رسوا نے ایک طوائف کے اندر کی پاک صاف عورت کو ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ اس عورت کے ساتھ قاری اپنے دل میں ہمدردی کی لہر اٹھتی ہوئی محسوس کرتا ہے۔

اس ناول میں رسوا نے لکھنؤ کی منہدم ہوتی ہوئی تہذیب کو ایک طوائف کی آنکھ سے دیکھا ہے اور اس کے نتیجے میں جو منظر ہمارے سامنے رکھا ہے وہ اپنی تمام جزئیات سمیت پوری زہر ناکی اور نشتریت لیے ہوئے ہے۔ لکھنؤ کے جس عہد کو ہادی رسوا نے موضوع بنایا ہے اُس عہد کا منظر نامہ طوائف کے وجود کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور طوائف کے لفظ کے ساتھ مہذب ، تہذیب یافتہ ،شعر گو ، شعر فہم، سخن شناس اور شیریں گو شخصیت کا خاکہ ابھرتا تھا۔ یہ فن اور تہذیب اس مخصوص طبقے کے ذریعے پورے معاشرے تک پہنچتی تھی۔

شعر و شاعری لکھنوی تہذیب کا جزو ہے۔ اس ناول میں نہ صرف شعر و شاعری کے چرچے ملتے ہیں بلکہ کہانی کی ابتداء محفل مشاعرہ سے ہوتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آئے دن مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ بیشتر یہ ہوتا تھا کہ کسی باذوق صاحبِ خانہ کے یہاں احباب سرِ شام آ بیٹھتے ، نہ پہلے سے کوئی طرح مقرر کیا جاتا تھا اور نہ مضمون کی کوئی قید ہوتی اور نہ بہتوں سے وعدے لیے جاتے۔ ہر شاعر اپنی کوئی تازہ تصنیف پڑھتا ۔ اگر کوئی تشریف نہ لا سکتا تو معذرت کے ساتھ اپنا تازہ کلام بھجوا دیتا ۔ لکھنؤ میں ایسے شاعروں کی بھی کمی نہ تھی جو دوسروں کا مضمون چرا کر شعر موزوں کر لیا کرتے تھے۔ بعض حضرات تو دوسروں کے کلام کو ہی اپنے نام سے پڑھا کرتے تھے۔ اس معاشرے میں طوائفوں کی تان اور پائل کی جھنکار صاف سنائی دیتی ہے۔ اس وقت طوائفوں کے کوٹھوں کے علاوہ کوئی ایسا تفریحی ادارہ نہ تھا، جہاں عوام و خاص اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں اور باقی ماندہ افراد فرصت کے لمحات کو پُر مسرت طور پر گزار سکیں۔ تہذیب و معاشرے نے بھی ایسے اصحاب کو جو فنونِ لطیفہ کا ذوق رکھتے تھے طوائفوں سے رجوع کرنے کی اجازت دے رکھی تھی ۔ یہاں تک کہ نوابین کے بجٹ میں طوائفوں کے لیے ایک مخصوص مد ہوا کرتی اور شادی بیاہ کی رسمیں ، نذر و نیاز اور سوز خوانی کے موقع پر طوائفوں کی موجودگی امارت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔

پروفیسر خورشید الاسلام نے صحیح فرمایا ہے کہ “ان کی مخصوص افادیت کی بنا پر ان کی صحبت سے مولوی ، رند ، امیر اور غریب کسی کو عار نہ تھی ، گویا طوائفیں بھی ان کے روزمرہ میں داخل تھیں۔ وہ ایک فصیح محاورہ تھیں جسے ہر شخص استعمال کر سکتا تھا۔۔۔شیر و شکار میں ، میدانِ جنگ میں، نجی محفلوں میں، مذہبی رسموں میں ان کا ہونا ضروری تھا۔ یہ اس زمانے کا مکتب ، اس زمانے کا میکدہ اور اس کی محفل تھیں۔”

شرفا کے یہاں عورتوں کی تعلیم معیوب تھی۔ اس کے برعکس طوائفیں اعلی تعلیم یافتہ ، فنونِ لطیفہ سے کماحقہ واقف اور مزاج آشنا ہوا کرتیں ۔ شستہ زبان بولتیں، ہر آنے والے کے رتبہ و منزلت اور مزاق کو پہچانتیں اور آدابِ محفل کی واقف کار ہوتیں اور صفات کی بنا پر نوابین اپنے بچوں کو آدابِ مجلس سیکھنے کے لیے ان کے کوٹھوں پر بھیجا کرتے تھے۔

ڈیرہ دار طوائفوں کے علاوہ پتریا بھی ہوا کرتیں۔ یہ سال میں ایک مرتبہ گاؤں گاؤں پھرا کرتیں اور امیر و رئیس کے مکانوں پر اُترتیں۔ جو کچھ اس کے مقدر میں ہوتا ملتا، کہیں مجرا ہوتا کہیں نہیں ہوتا۔ شادی بیاہ کے موقع پر بارات کے ساتھ کوسوں ناچتی گاتی چلی جاتیں۔ طوائفیں اپنی تمام تر صفات کے باوجود معاشرے میں محترم نہ تھیں۔ اور نہ ہی ان کی ہر جگہ آزادانہ آمد و رفت ممکن تھی۔ منشی احمد حسین کے یہاں منعقد مشاعرہ میں جب مرزا ہادی رسوا امراؤ جان کو شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں تو وہ برجستہ کہتی ہے کہ “مجھے چلنے میں کوئی عذر نہیں۔لیکن صاحبِ خانہ کو میرا جانا ناگوار نہ ہو”

مرزا رسوا نے خانم کے طوائف خانہ کو اس خوب صورتی کے ساتھ سجایا ہے کہ لکھنؤی تہذیب کا یہ گوشہ پوری طرح روشن ہو گیا۔ امراؤ جان خانم کے کوٹھے کے متعلق مرزا رسوا کو بتاتی ہے کہ ” خانم کا مکان تو آپ کو یاد ہو گا، کس قدر وسیع تھا، کتنے کمرے تھے۔ ان سب میں رنڈیاں رہتی تھیں۔۔۔ ہر ایک کا عملہ جدا تھا۔ہر ایک کا دربار علیحدہ ہوتا تھا۔خانم کا مکان تھا کہ پرستان تھا جس کمرے میں جا نکلو سوائے ہنسی مذاق گانے بجانے کے کوئی اور چربہ نہ تھا۔۔۔۔نوار کے پلنگ ڈوریوں سے کسے ہوئے تھے۔فرش پر ستھری چاندنیاں کھینچی ہوئیں۔ بڑے بڑے نقشی پاندان ، حسن دان ، خاصدان اور اُگالدان اپنے اپنے قرینوں سے رکھے ہوئے۔”

نوابین کا یہ عالم تھا کہ اپنی وضعداری برقرار رکھنے کے لیے کوٹھی، علاقہ ، زمین اور زیورات کو گروی رکھ دیتے تھے لیکن اُسے چھڑانے کی اُنہیں توفیق نہ ہوتی۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے اس وقت کی تہذیب نے مردوں کو یہ آزادی دے رکھی تھی کہ گھر سے باہر جو کچھ ان کے جی میں آئے کریں لیکن گھر کے اندر مکمل طور پر عورتوں کی حکمرانی ہوتی۔

نوابین کے دسترخوان پر پلاؤ ، بریانی ، متنجن، سفیدہ ، باقر خانیاں ، کئی طرح کے سالن ، کباب ، مربّے ، مٹھائیاں ، دہی ، بالائی سب کچھ موجود ہوتا تھا۔ یوں کہہ لیں کے دنیا کی ہر نعمت دسترخوان پر موجود ہوتی تھی۔

الغرض مرزا ہادی رسوا کا ناول ” امراؤ جان ادا “، جامِ جمشید سے کم نہیں جس میں قاری لکھنؤی تہذیب و معاشرت کے روشن و تاریک گوشوں کو ایک نظر میں دیکھ لیتا ہے۔ بالفاظِ دیگر “امراؤ جان ادا” لکھنؤی تہذیب و معاشرہ کی دستاویز ہے۔

عدالت کا یہ عالم تھا کہ جھوٹا دعویٰ کیا جاتا لیکن مقدمہ اس سلیقے سے بنایا جاتا کہ نجات کی کوئی صورت نہ ہوتی ۔ بطور گواہ ایسے مولوی صاحبان پیش کیے جاتے جن کی صورت سے کسی کو کذب و دروغ کا شبہ تک نہ ہوتا اور حاکم کو مجبوراً اُنہیں کے حق میں فیصلہ دینا پڑتا۔

رسوا معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں لیکن وہ اپنے خیال کو قاری پر ناصحانہ انداز میں ٹھونستے نہیں، بلکہ اسے فنی قدروں کا تابع بنا دیتے ہیں۔ مقصد اور فن کی یہ گھلاوٹ اس ناول کو عظمت عطا کرتی ہے۔ قصے کے دوران کبھی اپنی زبانی اور کبھی کرداروں کے عمل سے انھوں نے اپنے نظریۂ حیات کی وضاحت کر دی ہے اور جو باتیں رہ گئی ہیں انھیں ” اختتامیہ ” کے تحت قصے کے آخر میں بیان کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان کے نظریۂ حیات نے کسی مقام پر بھی نہ پلاٹ کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کی ہے اور نہ کرداروں کو اپنے رنگ میں رنگا ہے۔ ہر کردار کے فطری نقوش اپنی انفرادی خصوصیات سے روشن ہیں۔

ناول کا بیشتر حصہ ایک طرح کی یاد آوری کے عمل پر محیط ہے۔ یہ ایک دستاویز کی شکل بھی رکھتا ہے اور مکالمے کے عنصر سے بھی یکسر خالی نہیں ہے۔ ناول میں بیشتر واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ جب امراؤ اپنے حالات گذشتہ اور واقعات پارینہ کے منتشر اجزاء کو سمیٹ کر ان پر ایک فیصلہ کن نظر ڈالتی ہے ، بعض اخلاقی ضابطوں اور تعلیمات سے اپنے سروکار کو ظاہر کرتی ہے اور اپنا حتمی محاکمہ بھی سناتی ہے۔ اس طرح ناول کے عمل کے دوران ، جسے ایک داستان کی شکل میں پیش کیا گیا ہے ، جگہ جگہ منفرد اشعار اور پوری پوری غزلوں کو اس میں کھپایا گیا ہے ، جس کی وجہ سے ناول میں ایک طرح کے شعوری التزام و انصرام اور ایک نوع کی ترصیع کا پتا چلتا ہے اور یہ راز بھی کھلتا ہے کہ اس خاص دور میں ، جس کی اس ناول میں نقش گری کی ہوئی ہے اور ہمارے ثقافتی مزاج اور خمیر میں شاعری کا کس درجہ عمل دخل رہا ہے ، المختصر یہ کہا جا سکتا ہے اور یہ کہنا شاید کچھ ایسا غلط بھی نہ ہو کہ یہ ایک بہت ہی ادبی قسم کا ناول ہے اور اس پر خاصی کاوش کی گئی ہے۔

داستان کی ہیروئن اور اس کی دنیا اور اصل ایک کائنات اصغر ہے ، جس پر ہم پورے معاشرے اور تہذیب کو قیاس کر سکتے ہیں۔ اس ناول میں سنسنی خیز حالات کا بھی خاصا عمل دخل نظر آتا ہے جیسے شروع ہی میں امراؤ جان کا دلاور خاں کے ہاتھوں اغوا کیا جانا، سلطان صاحب کا خانم کے بالا خانے پر ایک خاں کو طمانچہ مار کر گھائل کرنا ، پرانے دشمنوں کا بات بات پر جنگ و جدل پر آمادہ ہو جانا ، تلواروں کا طیش میں آ کر میانوں سے باہر نکالنا، زنانِ بازاری میں کسی کا میلے ٹھیلے میں سے اٹھوا لینا وغیرہ وغیرہ ، یہ سب ایک طرح سے ان پڑھ عمل کی مثالیں ہیں اور ماقبل تہذیب برتاؤ کی عکاسی کرتی ہے اور ان سے ایک طرح کے میلوڈرامے کا تاثر پیدا ہوتا ہے ۔ ان مقامات پر قاری سانس روکے اس امر کا منتظر رہتا یے کہ یہ سب کب ختم ہو گا کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ناول میں بہت سے آئینے جڑے ہوئے ہیں، جن کے توسط سے طرح طرح کے مواقع اور کرداروں کے باہمی تعامل کا انعکاس سامنے لایا گیا ہے.

اس ناول میں مرزا رسوا کا مقصد محض امراؤ جان کے المیے کو بے نقاب کرنا ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی معاشرت کا عکس اتارنا بھی ہے جو انتشار کے دہانے پر کھڑی ہے۔ امراؤ جان ادا نے خود اس امر کی صراحت کی ہے کہ:

“اگر دلاور خاں اپنے جذبۂ انتقام کی تسکین کے در پے نہ ہوتا، اور وہ اپنے گھر سے باہر نہ نکلتی اور ان تمام آفاتِ ارضی و سماوی کا شکار نہ بنتی ، جن سے اسے سابقہ پڑا تو شاید اس کا یہ انجام نہ ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس باب میں بخت و اتفاق کو بہت دخل ہے۔ میری خرابی کا سبب دلاور خاں کی شرارت تھی نہ وہ مجھے اٹھا لاتا اور نہ اتفاق سے خانم کے ہاتھ فروخت ہوتی۔ نہ میرا یہ لکھا پورا ہوتا ، جن امور کی بُرائی میں اب مجھے کوئی شبہ نہیں رہا۔ “

اردو ناول نگاری کی تاریخ میں”امراؤ جان ادا” کو بلاشبہ ایک انفرادی امتیاز حاصل ہے۔ اس کی تکنیک کا ایک پہلو یہ ہے کہ جن یادوں کی باز آفرینی اور جن واقعات کی تہوں اور پرتوں کو کھولنے پر یہ مشتمل ہے ، وہ مستقیم سلسلہ واریت کے تابع نہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک طرح کے عدم تسلسل یعنی Discontinuity کا اصول کار فرما ہے۔ یہاں بہت سی تصویریں ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو رکھ دی گئی ہیں ، جن میں مشابہت اور تضاد دو تحائف، دونوں عناصر بیک وقت ابھارے گئے ہیں۔

“امراؤ جان ادا” اردو فکشن کی تاریخ کا روشن مینار ہے۔ یہی سبب ہے کہ ڈاکٹر محمد احسن فاروقی جیسے سخت گیر ناقد کو بھی اعلانِ عام کرنا پڑا کہ” اردو میں جو کوئی بھی ناول نگاری کرے اس کے لیے سب سے پہلے فرض ہے کہ “امراؤ جان ادا ” کو پڑھے اور اس کے فن کا اثر سیکھے”

الغرض “امراؤ جان ادا ” تکمیل فن کی خوبصورت مثال ہے۔

اس ناول میں مرزا ہادی رسوا نے انتہائی خوبصورت پیرائے میں فنی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک خواندہ و جہاں دیدہ طوائف کی زبانی لکھنؤی تہذیب اور معاشرہ کے انحطاط و زوال کی کہانی پیش کی ہے۔ ناول کا مرکزی قصہ فطری انداز میں رونما ہوتا ہے اور ارتقاء کی مختلف منازل طے کرتا ہوا منطقی نتیجہ پر ختم ہو جاتا ہے۔ ضمنی واقعات پلاٹ کی راہ میں رخنہ انداز نہیں ہوتے بلکہ کسی نہ کسی کردار کی سیرت کے کسی خاص پہلو یا معاشرہ کے کسی خاص نکتہ کو منور و اجاگر کرتے ہیں۔ گوہر مرزا کی گل چینی ، اجڈ خاں صاحب کی بدزبانی ، خانم کے ہاتھوں نواب چھبن کی ذلالت اور ستر سالہ مولوی صاحب کا نیم کے درخت پر چڑھنا ، جیسے واقعات کی شمولیت غیر ضروری یا فنی تقاضوں کے منافی نہیں۔ دراصل مرزا رسوا نے ان واقعات سے گوہر مرزا ، امراؤ جان ، خان صاحب ، خانم ، نواب چھبّن ، بسم اللہ جان اور مولوی صاحب کی سیرت سازی کا بہترین مظاہرہ کیا ہے۔ ناول کے اسٹیج پر ہماری ملاقات متعدد چھوٹے بڑے کرداروں سے ہوتی ہے لیکن ہم ان ضمنی کرداروں کو نہیں بھولتے جو برق کی مانند محض ایک جھلک دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اسے مرزا رسوا کی سیرت سازی کا اعجاز تصور کیا جائے گا کہ ناول کا مرکزی کردار (امراؤ جان) ادب کا لافانی کردار بن گیا۔ اس کے مکالمے سیرت ساز ہیں۔ مرزا رسوا کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ نوابین اودھ ہوں یا طوائفیں، گنوار ، لٹیرے ، ڈاکو ہوں یا ماما ، نوکرانی یا شاگرد پیشہ ، مرزا بڑی آسانی کے ساتھ انھیں منفرد و مخصوص الفاظ الاٹ کرتے ہیں۔ جس کے سبب کرداروں کی انفرادیت کو صدمہ نہیں پہنچتا ہے۔ معقول منظر نگاری اور واقعات کی خوبصورت جزئیات نگاری ناول کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ امراؤ جان کے خوبصورت ، دلکش اسلوبِ بیان کے سبب ہی ہم طویل ذہنی مسافت طے کر لیتے ہیں۔ اس ناول کا شمار اردو فکشن کے شاہکاروں میں ہوتا رہے گا۔

تحریر امتیاز احمد
ناول امراؤ جان ادا کا فکری و فنی جائزہ 1