میری میت

0

مجھے مرنے کے لئے زیادہ تگ و دَو نہیں کرنی پڑی۔
لائبریری کے مین دروازے کے سامنے زمین پر ہی بیٹھا ہوا تھا کہ! اچانک چھاتی کے بائیں حصے میں ایک سرد لہر اٹھی جو دائیں بازو تک پہنچ گئی۔ دوبارہ آنکھ کھلی تو خود کو دل کی وارڈ میں اک آرام دہ بستر پر پایا۔ میرےآس پاس بہت سے لوگ جمع تھے اک عمر رسیدہ ڈاکٹر صاحب سفید کپڑوں میں نترتی نرس۔ میری ماں اور میرے بھائی۔ ان سب لوگوں کے درمیان کھڑی  ڈاکٹر”شیریں” کو دیکھ کر تھوڑی حیرانی تو ہوئی لیکن وہ حیرانی جز وقتی ثابت ہوئی، کیوں کہ میری نظر اپنے سامنے کھڑے  اس شخص پر پڑی جو بار بار گھڑی کو دیکھتا، کبھی مجھے دیکھتا۔ مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ میری خواہش پوری کرنے کے لئے ہی آیا ہے۔

ڈاکٹر “شیریں” آگے بڑھی میرا سر اپنے شانوں پر رکھا۔ اک برق رفتاری کے ساتھ وہ بھی آگے بڑھا اور میری چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔ اچانک میری سانسوں میں خلل پیدا ہوا۔ اس نے آخری مرتبہ گھڑی کو دیکھا۔ میں نے کلمہ پڑھا اور اس نے میری روح قبض کر لی۔ ڈاکٹر “شیریں” کا اک گرم آنسو میرے گال پر گرا۔ کوئی اکا دکا رونے کی آواز بھی میں نے سنی۔ پھر اچانک میری میت کے منہ پر سفید چادر چڑھا دی گئی۔

ہسپتال والوں کی طرف سے دیئے گئے کچھ فارم بھرتے بھرتے “عفی” کو کافی وقت لگا، پھر میت کو ایمبولینس میں ڈال کر روانہ کر دیا گیا۔ ایمبولینس گھنگ روڈ سے ہوتی ہوئی کافی تیز رفتاری کے ساتھ بائی پاس روڈ پر دوڑ رہی تھی۔ ہر موڑ اور ہر اک اسٹاپ پر میں نے لوگوں کا مشاہدہ کیا، سب روز مرہ کے کاموں میں پوری توجہ کے ساتھ مشغول تھے، سب کچھ اسی طرح چل رہا تھا۔  میری ایمبولینس جب میرے شہر میں داخل ہوئی تو میری نظر کھوکھے پر بیٹھے “مانی” پر پڑی جو ہمیشہ کی طرح اخبار کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا۔ 

مجھے اچانک خیال آیا کہ “مانی” نے میرا بہت انتظار کیا ہو گا۔ سوچتا ہو گا کہ آج میں  چائے اور سگریٹ پینے کیوں نہیں آیا لیکن اسے کیا خبر کہ میری کل والی چائے اور سگریٹ آخری تھی۔ میں نے اسے بہت آوازیں دیں لیکن کوئی آواز اس تک نہ پہنچی۔ خیر تھوڑی دیر بعد میری میت کو گھر کے صحن میں رکھ دیا گیا۔ میرے گرد کچھ لوگ بھی جمع ہو رہے تھے۔ کچھ مغموم، کچھ اداس، کچھ روئے اور چند ایک چلائے بھی۔ لیکن زیادہ تر تو میت کو گھر سے نکالنے کے انتظامات میں ہی الجھ گئے تھے۔

“عفی” رشتے داروں اور میرے دوستوں کو فون کر رہا تھا۔ کوئی ٹینٹ وغیرہ کے انتظامات میں مصروف تھا اچانک میرے کانوں میں یاسر کی آواز محسوس ہوئی جو بھرائی ہوئی آواز میں میری نمازِ جنازہ کا اعلان کر رہا تھا۔ مجھے اپنی قبر کی جگہ کے لئے بھی کوئی پریشانی نہ تھی کیوں کہ ابا کی قبر کے ساتھ کافی جگہ خالی تھی۔

بھابھی شاید تھوڑی سلیقے مند خاتون تھی۔ وہ اب بھی بچوں کو تیار کرنے میں مگن تھی کہ کہیں برادری میں ناک نہ کٹ جائے۔ بے چاری کے سر پر ذمہ داری بھی تو بہت تھی۔ پانچ بچے اور سب کے سب شرارتی۔

ماں جی ایک طرف بے سدھ پڑی ہوئی تھیں۔خیر مجھے رات 9 بجے جناز گاہ پہنچا دیا گیا۔ مولانا صاحب آئے ،صفوں کو سیدھا کرنے کا کہا۔ جنازہ  پڑھایا  گیا۔ مجھے قبر کے پاس رکھ دیا گیا۔ عابد بھائی قبر میں اترے اور ساتھ ہی آواز دی کہ کوئی نوجوان بھی نیچے اترے۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ پھر اچانک یاسر نیچے اترا اور مجھے دونوں نے قبر میں اتار دیا۔

ایک ایک کر کے پڑیاں میرے اوپر رکھی گئیں۔ یہ پڑیاں بھی کفن کی طرح بالکل ناقص تھیں۔ ان پڑیوں سے کہیں کچھ سوراخ تھے جن سے ہوا اور روشنی اندر آ رہے تھے۔ پھر گارا مار کر انہیں بھی بند کر دیا گیااور مجھے گھپ اندھیری قبر میں دفن کر دیا گیا۔

مولوی صاحب نے دعا مانگی سب نے آمین کہا۔ سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے تو اچانک ایک جانی پہچانی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ اپنی قبر پر ڈاکٹر “شیریں” کو موجود پا کر حیرانی ہوئی کہ رات کے اس سمے۔ ؟
وہ پاؤں کی طرف کھڑی ہو کر بولی۔
احمد مجھے معاف کر دو۔
پھر ایک گرم آنسو مجھے قبر کی مٹی میں جذب ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ میں یہ بھی نہ بول سکا کہ، مجھے تمہارے شانوں پر دفن ہونا تھا۔ لیکن تم نے مجھے قبر میں پھینک دیا۔ مجھے لگا میں اب مرا ہوں۔

تحریر۔ امتیاز احمد،کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]