ڈاکٹرمحمد نواز کنول کی کتاب: دانہ ہائے ریختہ

0
؎ محبت تم سے کی میں نے تمہارے بے وفا ہوتے
اگر تم باوفا ہوتے تو میں نے کیا کیا ہوتا

دنیا میں جتنے بھی شاعر، نثر نگار، نقاد اور مترجم گزرے ہیں، انہیں بائیں بازو کے نام نہاد نقادوں نے خوب لتاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ روایت پوری دنیا میں موجود ہو گی لیکن مجھے بالخصوص یہ روایت برصغیر میں زیادہ جانبدار یا غیر جانبدار محسوس ہوئی۔ صورت حال کچھ یوں انگڑائی لے رہی ہے کہ جس گلی میں غالب پیدا ہوتا ہے وہاں چنگیزی کی آمد بھی یقینی سمجھیں۔ اس سب کے بعد اس کا جلوس رسوائی نکلے یا نہ نکلے یہ ایک الگ بحث ہے۔ اس کھینچا تانی میں اردو ادب کے جو معرکے مشہور ہوئے ہم ان کو بھی بے معنی نہیں کہہ سکتے لیکن یہ معرکے ہمیں حیرانی، تعجب اور تجسس کی طرف لے جاتے ہیں۔ ماضی قریب کے ایک مشہور شاعر، نقاد اور مترجم عبدالعزیز خالد گزرے ہیں۔ انہیں شاعری کی صنف نعت گوئی میں شہرت حاصل تھی۔ عبدالعزیز خالد کو اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور سنسکرت زبانوں میں غیر معمولی عبور حاصل تھا۔ انہوں نے انگریزی، یونانی، چینی اور دیگر زبانوں کے شعری تراجم بھی کیے۔ وہ ایک محب وطن شاعر تھے اور سقوط ڈھاکہ کے سانحے کو انہوں نے بہت شدت سے محسوس کیا تھا جس کا اظہار ان کی قومی اور ملی نظموں میں بھی ملتا ہے۔ وہ ایک درویش صفت شاعر تھے۔

خالد شناسی کی روایت کا آغاز ان کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔ اس حوالے سے سب سے پہلی کتاب “مہمات خالد” ہے جس کے مصنف مشہور محقق بلوچستان اور نقاد اردو ادب سید کامل القادری مرحوم ہیں۔ اسی روایت کو ڈاکٹر محمد نواز کنول نے بھی زندہ رکھا۔ انہوں نے عبدالعزیز خالد پر درج ذیل کتب لکھیں!
1۔ عبدالعزیز خالد احوال و آثار
2۔ عبدالعزیز خالد کی غزل گوئی
3۔ عبدالعزیز خالد کی مذہبی شاعری
4۔ عبدالعزیز خالد بطور مترجم
5۔ جہان عبدالعزیز خالد
6۔ دانہ ہائے ریختہ

مؤخر الذکر کتاب “دانہ ہائے ریختہ” ڈاکٹر محمد نواز کنول کی مرتبہ کتاب ہے جس میں انہوں نے مختلف جگہوں سے عبدالعزیز خالد کی سادہ گوئی کے حوالے سے ان کے اشعار اکٹھے کیے اور انہیں ایک کتابی صورت میں مرتب کر دیا۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کی ضرورت کیوں کر محسوس کی گئی اس حوالے سے ڈاکٹر محمد نواز کنول لکھتے ہیں!
“مختلف زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے عبدالعزیز خالد کی غزلیات میں مشکل پسندی بھی موجود ہے۔ مگر اس مشکل پسندی کے پہلو بہ پہلو ہم ان کی سادہ گوئی بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ مختلف نقادوں نے ان کو ایک مشکل پسند شاعر ثابت کرنے کی ہی سعی کی۔”

ڈاکٹر محمد نواز کنول نے وہ کام کیا جو عبدالعزیز خالد کو مشکل پسند ثابت کرنے والے نہیں کر سکے۔ مشکل پسندی کوئی عیب نہیں ، بلکہ آپ کے ذہن اور قابلیت کی نشاندہی کرنے والی صلاحیت ہے۔ اس کے لیے آپ کے پاس وافر ذخیرہ الفاظ کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور عبدالعزیز خالد کو مختلف زبانوں پر عبور ہونے کی وجہ سے ان کے پاس یہ دولت موجود تھی۔ انہوں نے اپنی غزلیات میں نادر تشبیہات، استعارات اور طبع زاد تراکیب کا برمحل استعمال کیا ہے۔

ڈاکٹر محمد نواز کنول عبدالعزیز خالد کو سادہ گو شاعر ثابت کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا جائزہ لیتے ہیں! “زنجیررم آہو” عبدالعزیز خالد کی نظموں اور غزلوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ سادہ گوئی کے حوالے سے ڈاکٹر محمد نواز کنول نے اس مجموعے سے درج ذیل اشعار نقل کیے ہیں!

؎ کس سے کہوں حال دل، کون ہے پرسان حال
کس کو ہے ذوق سخن کس کو ہے فہم کلام
؎ تمنا تری ہم نشینی کی ہے
بس اک ساعت مختصر کے لیے
؎ حسن مغرور بھی ہے مائل بھی
عشق سردار بھی ہے سائل بھی

“کلک موج” عبدالعزیز خالد کی غزلوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ کلک موج میں عبدالعزیز خالد کی سادہ گوئی کے نمونے بہ کثرت موجود ہیں۔ اس مجموعے میں ان کی طویل غزلیں ہیں جن سے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں!

؎ غم دل کو بے نقاب نہ کر
نہیں درد مند اہل جہاں
؎ ہم نے مقدور بھر تو کوشش کی
نا تمامی نصیب آدم ہے
؎ حسن کھلتا ہے سوگواری میں
کتنا دلکش لباس ماتم ہے
؎ غم نہ کر شکست آرزو کا
یہ جان امید بھی ہے دھوکا

“کف دریا” عبدالعزیز خالد کی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ کف دریا کی غزلیات عبدالعزیز خالد کی قادر الکلامی اور وسعت مطالعہ کی غماز ہیں۔ اس مجموعے میں سادگی، سلاست اور سہل ممتنع کے عمدہ نمونے موجود ہیں۔ نمونہ کلام پیش خدمت ہے!

؎ عشق گنجینہ ہے دل ویرانہ
جتنا آباد ہے اتنا ہی خراب
؎ حال کس سے بیان کریں دل کا
کوئی دم ساز ہی نہیں ملتا
؎ نہیں دنیا کی نعمتوں کو دوام
جمع کرتا ہوں دل میں غم تیرا

“دشت شام” عبدالعزیز خالد کی نظموں اور غزلوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ دشت شام کی غزلیں اور نظمیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ خالد کا حسن بیان پورے طور پر جلوہ گر ہے۔ لفظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں گویا اس کے ہاتھ میں تیشہ لفظ ہے جو معنی و مفہوم تراشنا چاہے تراش لیتا ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ کیجیئے!

؎ شہرت کے خریدار ہیں دولت کے پرستار
ناپید ہیں مردان ہنرمند و ہنر جو
؎ کیوں کر نہ معطر ہو مشام دل خالد
چنبے کی کلی ہے سخن حضرت باہو
؎ جس کے دل میں شک کا گہرا زخم ہے
اس کو دینا اے صبا میرا سلام
؎ بدن سے روح نکلتی ہے اس طرح جیسے
پرندہ شاخ شجر سے اچانک اڑ جائے

عبدالعزیز خالد کی شاعری مختلف رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتی رہی۔ ان رسائل و جرائد میں “ابلاغ”، “افکار”، “الحمراء”، “بادیان”، “ادب دوست”، “شاعر”، “ادب لطیف”، “بیاض”، “الاقرباء”، اور “سفید چھڑی” قابل ذکر ہیں۔ بلا شبہ ان رسائل و جرائد سے عبدالعزیز خالد کی سادہ گوئی پر مبنی شاعری کے نمونے ڈھونڈنا ایک مشکل کام تھا۔ ڈاکٹر محمد نواز کنول نے انتہائی محنت اور لگن سے ان اشعار کو کتاب ہذا کی زینت بنایا۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں!

؎ ہم بھی حالی کی طرح کہتے ہیں خالد برملا
شعر گوئی کی نہیں ہم میں لیاقت کیا کریں
؎ اٹھاؤ شوق سے اصلاح خلق کا بیڑا
پر اپنی ذات مبارک سے ابتداء کیجیو
؎ ذکر خدائے پاک غذا جسم و جاں کی ہے
کرتا ہوں سوتے جاگتے ورد اس کے نام کا
؎ لکھیں نہ شعر ہم آرائش بیاں کے لیے
ہمارے حرف نہیں زیب داستاں کے لیے
؎ امت احمدؐ مرسل کا خدا حافظ ہے
نہ غم حال ہے جس کو نہ جسے فکر مآل

ڈاکٹر محمد نواز کنول نے عبدالعزیز خالد کی ذات پر لگنے والے مشکل پسندی کے دھبے کو دھویا نہیں بلکہ اسے تسلیم کیا ہے کہ بےشک وہ مشکل پسند شاعر تھے۔ علاوہ ازیں انہوں نے عبدالعزیز خالد کی سادہ گوئی کے حوالے سے اشعار کو تحقیقی انداز میں پیش کر کے خود کو محقق ، مدون اور خالد شناس کے طور پر منوایا ہے۔ وہ کسی کے خلاف تلوار پکڑ کر نہیں نکلے، محض قاری کو عبدالعزیز خالد کی سادہ گوئی سے واقف کروایا ہے۔ ان کے اسلوب اور طریقہ کار میں جس چیز نے مجھے ذاتی طور پر متاثر کیا وہ بڑی دلچسپ ہے کہ وہ ہر شعر کا حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں شعر انہوں نے کہاں سے اٹھایا۔ ان کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کلام خالد میں سہل ممتنع، نادر تشبیہات و استعارات اور تصوف کے اعلیٰ نمونے موجود ہیں۔ یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ڈاکٹر محمد نواز کنول کی اس تدوین کی موجودہ قاری کو ضرورت تھی۔ وہ عبدالعزیز خالد کے حوالے سے ایک بہت بڑے خلاء کو پر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

عبدالعزیز خالد کی مشکل پسندی کے حوالے سے بے شمار کام ہو چکا تھا۔ ان کی سادہ گوئی کا گوشہ خالی پڑا تھا اور ڈاکٹرمحمد نواز کنول کا یہ تحقیقی کام اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے جس میں انہوں نے عبدالعزیز خالد کو بطور سادہ گو شاعر متعارف کروایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کام کے لیے ڈاکٹر انور سدید نے ان کے اندر تحریک پیدا کی۔ ڈاکٹر محمد نواز کنول نے عبدالعزیز خالد کی سادہ گوئی کے حوالے سے پہلی اینٹ رکھ دی ہے اب اس عمارت کی تکمیل کا بوجھ کون اٹھائے گا؟

تحریر امتیاز احمد
ڈاکٹرمحمد نواز کنول کی کتاب: دانہ ہائے ریختہ 1
ڈاکٹرمحمد نواز کنول