سفید سایہ

0

شہوار رات دو بجے صادق آباد اڈے پہ اترا۔ سرکاری گاڑی سے رابطہ کیا کہ وہ اسے صادق آباد اڈے سے پک کر لے۔ اس کا تبادلہ تین ماہ کے لیے آؤٹ آف ریجن ہوا تھا اور پا در رکاب ہونے کی وجہ سے وہ کافی تھکاوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔اپنے ضلع سے پہلے بہاولپور ہیڈ آفس جانا اور وہاں سے پھر آگے صادق آباد کا سفر کافی تھکا دینے والا تھا۔بھوک کی شدت نے اسے نڈھال کر رکھا تھا۔

بالآخر کچھ ہی دیر بعد سرکاری گاڑی اسے Receive کرنے پہنچ چکی تھی۔وہ اس سے پانچ سال پہلے بھی صادق آباد ( موضع بھارا ) میں تین ماہ گزار چکا تھا اس لیے وہ اس شہر سے کافی مانوس تھا۔ اب کی بار اس کا تبادلہ 173- P پوسٹ پہ ہوا تھا اور یہ پوسٹ صادق آباد مین سٹی سے محض پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر تھی۔اس پوسٹ کے ایک طرف صادق آباد مین سٹی اور دوسری طرف چولستان صحرا کی پٹی تھی۔ رات اڑھائی بجے سرکاری گاڑی شہوار کو لے کر پوسٹ پر پہنچی۔ پوسٹ پر پہنچتے ہی شہوار سونے کی غرض سے پوسٹ کے سیکنڈ فلور پہ چلا گیا۔ سیکنڈ فلور نیچے کی نسبت بے حد صاف شفاف تھا۔ دروازے، کھڑکیاں، شیشے، الماریاں یہاں تک کہ واش رومز بھی ایسے لگ رہے تھے کہ انہیں کبھی کسی نے استعمال نہیں کیا۔

دل کی تکلیف کے سبب شہوار نے گولی منہ میں رکھی اور لیٹنے کی کوشش کی مگر لیٹنے سے اس کی چھاتی میں اتنا زوردار کھچاؤ پڑا کہ وہ اٹھ بیٹھنے پر مجبور ہو گیا۔ تین چار تکیے دیوار کے ساتھ لگا کر ان سے ٹیک لگا کے وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا۔اچانک کیا دیکھتا ہے کہ ایک سفید لباس میں ملبوس خوبصورت جوان عورت اس کے سامنے کھڑی ہے۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے اس سوچ میں غرق تھا کہ یہ عورت کون ہے اور اوپر کیسے آئی ۔ ابھی اتنا ہی سوچ رہا تھا کہ خود کو اس عورت کی بانہوں میں پایا۔سب کچھ اتنا اچانک ہو رہا تھا کہ یہ سب اسے کوئی وہم لگ رہا تھا۔

وہ اس عورت کے لمس میں عجیب سی سرشاری محسوس کر رہا تھا۔اس عورت نے شہوار کو اتنا کس کے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا کہ اس کے بدن کی ساری ٹھنڈک شہوار کی رگ رگ میں اتر رہی تھی۔اس کا لمس کسی من چاہی عورت کے لمس جیسا تھا۔اس کی مہک نرالی،آنکھیں روشن ، تیکھی ناک ، باریک ہونٹ ،دبیز چھاتیاں ، نرم پیٹ ، سیاہ اور گھنے بال ،بلکہ پورا بدن مسحور کن اور گدگدی جیسا تھا۔ شہوار نے شدید سردی میں اس کے پسینے سے نترتے ہوئے ہونٹوں کو دبوچ لیا۔

ابھی پہلی ہی سیڑھی پہ پیر دھرا تھا کہ اچانک شہوار کو پسلیوں میں درد اور کڑچ کڑچ کی آواز محسوس ہوئی۔ اس عورت نے اس قدر زور سے اسے دبایا کہ شہوار کی چیخ نکل گئی اور اسے محسوس ہوا کہ جیسے وہ کسی ماورائی طاقت کے نرغے میں آ چکا ہے۔

اچانک سے اس عورت کے قد کاٹھ میں حیران کن اضافہ ہونے لگا۔ پورا بدن ویسا ہی رہا البتہ اس کے پاؤں کچھ تبدیل ہو چکے تھے۔شہوار نے آیت الکرسی پڑھنے کی کوشش کی لیکن اس کی زبان پہ ایک بھی لفظ نہیں چڑھ رہا تھا۔ موت کی یقینی صورتحال کو جانچتے ہوئے اس نے کلمہ شہادت پڑھنے کی کوشش کی۔ ابھی وہ اشھد ان لا الٰہ الا اللہ تک ہی پہنچا تھا کہ وہ عورت اسے چھوڑ کر اچانک غائب ہو گئی۔ شہوار پسینے سے شرابور اور خوف سے نڈھال ہو کر چارپائی پہ گرا لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔

ذکر اذکار کرتے اسے نیند آ گئی۔ صبح اٹھ کے اس نے اپنے کولیگز کے ساتھ سارا معاملہ شیئر کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں مسلمان عورت ( جن ) ہے وہ کسی کا نقصان نہیں کرتی محض تھوڑا بہت ڈراتی ہے اور اچانک کبھی کبھار سامنے آ جاتی ہے۔ اس کے بعد تین ماہ تک شہوار کو مسلسل اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اوپر جاتا تو اسے دیکھتا۔ نیچے آتا تو اسے پاتا۔ ہر وقت ایک سفید سایہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا محسوس ہوتا۔ چولستان صحرا میں بھی وہ سفید سایہ اس کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ شہوار چھٹی پر گھر آتا تو بھی وہ سفید سایہ اسے محسوس ہوتا۔

اللہ والوں نے بتایا کہ وہ روح تم پہ عاشق ہے۔گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی۔ خوف کی اس کشمکش کے باوجود شہوار اس کا لمس ایک دفعہ پھر سے محسوس کرنا چاھتا تھا لیکن اس کے بعد وہ کبھی بھی عورت کے روپ میں اس کے سامنے نہیں آئی،بلکہ آہستہ آہستہ اس نے آنا ہی چھوڑ دیا۔وہ پسینے کی مہک ، سانسوں کی تازگی ، ہاتھوں کی نرمی ، بالوں اور گردن کی خوشبو ، وہ من چاہا لمس آج بھی شہوار کے سر پر سوار ہے۔ شاید وہی اس کے خوابوں کی شہزادی تھی۔

تحریر امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]