باشعور طبقہ اور قوم

0

قومیں اتنی آسانی سے نہیں بنا کرتیں۔ایک قوم بننے کے لیے اجتماعی شعور، جرات مندانہ فیصلوں، بلند خیالی، مدبرانہ سوچ ، اخوت، جذبے، بے خوفی، استقامت اور ذہنی پختگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بحیثیت قوم ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم پکی نالیوں اور سڑکوں سے آگے کبھی دیکھ ہی نہیں سکے۔ ہمیں پکی نالیوں، سڑکوں اور بازاروں کے علاوہ روزگار کی مصیبتوں میں جکڑ کے رکھا گیا۔

ہم دور تک دیکھنے کی صلاحیت سے ہمیشہ محروم رہے ہیں۔ ہمیں باپ دادا کی بادشاہی اور غلامی میں رہنے کی پختہ عادت ہو چکی ہے۔ ہمارے سینوں میں ڈر اور خوف سمویا ہوا ہے۔ یہ ڈر اور خوف ہمیں ایک مجموعی سوچ کے تحت فیصلے کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ یہی ڈر اور خوف ہمیں ایک نڈر لیڈر کے انتخاب میں دبائے ہوئے ہے۔ ہمیں ڈر لگتا ہے کسی نئے شخص پر بھروسہ کرنے میں، ہمیں خوف آتا ہے پرانی زنجیروں کو توڑتے وقت، ہم دب جاتے ہیں کسی نئے چہرے کو دیکھ کر ، نسل در نسل ہمیں دبایا گیا ہے۔

ہم فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے ہیں کہ ہمیں کس طرح کے لیڈر کی ضرورت ہے۔ کیوں کے ہمیں نئے چہروں کی عادت ہی نہیں ہے۔ ہمارے اندر شعور تو ہے لیکن دبا ہوا ہے۔ ہم دیکھ تو سکتے ہیں لیکن زیادہ دور تک نہیں۔ ہم سوچ تو سکتے ہیں لیکن ہماری سوچوں پر ناجائز قبضہ ہے۔ ہم فرضی آزادی کے علمدار تو ہیں لیکن انگریز کی نو آبادیات سے آزاد نہیں ہونا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا ہو جو ہمیں اور ہمارے بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا رہے۔ ہمیں ایک مضبوط رسی سے باندھ کر رکھے اور اپنی مرضی سے ہمارے سامنے چارہ رکھے اور ہم اس رسی کو توڑ توڑ کر اور کھینچ کھینچ کر چارہ کھانے کی تگ و دو کریں۔

ہماری ترجیحات جیسی تھیں ویسی ہی ہیں۔ یہی ترجیحات کا فرق ہمیں ایک قوم بننے سے روکے ہوئے ہے۔ باشعور طبقے کی ترجیحات پرائمری سے ثانوی تک کا سفر بڑی آسانی سے طے کرتی ہیں۔ انہیں پتا چل جاتا ہے کہ اب انہیں پکی نالیوں اور بازاروں کی بجائے خودداری، عظمت اور ذہنی آزادی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ وہ نو آبادیاتی نظام کو ہمیشہ اپنے اوپر مسلط ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اپنے اندر اقبال کا شاہین بننے کی تڑپ پیدا کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ ایک سچا لیڈر کیسا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک نڈر لیڈر کے بہادر سپاہی ہیں۔

ان کا لیڈر انہیں کسی کے سامنے جھکنے نہیں دیتا۔ ان کا لیڈر ان کے مفاد پر مبنی خارجہ پالیسیاں مرتب کرتا ہے۔ ان کا لیڈر کرپشن جیسی لعنت سے کوسوں دور رہتا ہے۔ ان کا لیڈر انہیں ذہنی غلامی سے باہر نکالتا ہے۔ ان کا لیڈر وہ کام نہیں کرتا جو نظر آئے بلکہ وہ دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ان کے بہترین مستقبل کا ضامن بنتا ہے۔ ان کا لیڈر روایت پسند نہیں ہے بلکہ وہ کچھ نیا کرنے کی امنگ لیے ہوئے ہے۔ ان کا لیڈر صادق اور امین ٹھہرایا گیا ہوتا ہے۔ ان کا لیڈر انہیں ملکی اور سیاسی حالات سے آگہی دیتا ہے۔ ان کا لیڈر ان میں ایک جذبہ اور جنون پیدا کرتا ہے۔ ان کا لیڈر انہیں شعور دیتا ہے۔ ان کا لیڈر ان کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹیوں کو کھولتا ہے۔ ان کا لیڈر ملکی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کرتا ہے۔ ان کا لیڈر ان کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ برابری کے تعلقات چاہتا ہے۔

ان کا لیڈر انہیں چوری نہیں سکھاتا۔ ان کا لیڈر انہیں کرپشن اور حرام خوری کا درس نہیں دیتا۔ ان کا لیڈر انہیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا سکھاتا ہے۔ ان کا لیڈر انہیں جھپٹنا پلٹنا سکھاتا ہے۔ ان کا لیڈر انہیں اداروں سے لڑاتا نہیں بلکہ ان کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔ ان کا لیڈر ان کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت کرتا ہے۔ ان کا لیڈر ان کے لیے اقتدار کو لات مارتا ہے۔

جب باشعور طبقے جاگ جایا کرتے ہیں تو پھر انقلاب ان کے قدم چومتا ہے۔ وہ ایک قوم بن جاتے ہیں۔ وہ وطنیت پرستی سے نکل کر قومیت پرستی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ حق کا ساتھ دیتے ہیں اور باطل کا سر کچل کے رکھ دیتے ہیں۔ وہ اپنے گلے میں غلامی کا طوق نہیں پہنتے بلکہ سر پر آزادی کی پگڑیاں سجاتے ہیں۔ وہ پرانے چہروں کو لات مار کر نئے جذبوں کی قدر کرتے ہیں۔ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے فکر مند ہو جاتے ہیں۔

وہ اس لیڈر کا انتخاب نہیں کرتے جو انہیں پکی سڑکیں اور نالیاں بنا کر دے۔ وہ اس لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کا وقار بلند کرے۔ وہ اس لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں جو ان کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرے۔ وہ اس لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں جو انہیں دوسری قوموں کے برابر لا کھڑا کرے ۔ وہ اس لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں جو احتساب پسند ہو۔ وہ اس لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں جو اللہ سے مدد مانگے اور اسی کی عبادت کرے۔ وہ اس لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں جو نہ کبھی خود کسی کے سامنے جھکے اور نہ اپنی قوم کو جھکنے دے۔

وہ اس لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں جو انصاف کا بول بالا کرے۔ وہ اس لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں جو یکساں انصاف لے کر آئے۔ ایسے لیڈر بھی بہت دیر بعد پیدا ہوتے ہیں اور ایسے عوام بھی صدیوں بعد آتے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس طرف جانا پسند کریں گے۔ سیدھے رستے پر چلنا ہے یا بھول بھلیوں میں گم ہونا ہے۔ سر اٹھا کر چلنا ہے یا پاؤں کو تکتے ہوئے قدم اٹھانا پسند کریں گے۔ جب ایک قوم یا ملک اپنی سمت درست کرتا ہے تو اسے کئی طرح کی مشکلات میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ عارضی مہنگائی، بے روزگاری اور افراتفری آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے سامنے کچھ بھی نہیں۔

باشعور طبقہ اور قوم 1
تحریر امتیاز احمد