علامہ اقبال بنام نذیر نیازی

0

؎ شیر مردوں سے ہوا بیشہء تحقیق تہی 
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی

اقبالیات پر علامہ اقبال مرحوم جب باحیات تھے، تبھی سے لکھا جا رہا ہےاور بے پناہ لکھا جا رہا ہے، ایک عرصے تک اس نوع کی تحریروں میں کسی نہ کسی طرح کی نئی جہت کا انکشاف ہوتا رہا ہے، مگر اب زیادہ تر پرانی شراب کو نئی بوتل میں پیش کرنے کا عمل جاری ہے۔

ماضی میں اقبالیات کے ماہر کئی ہوئے، جنہوں نے اپنے اپنے ذہن و فکر اور صلاحیت فہم کی بدولت اقبالیات کے مختلف گوشوں کو روشنی میں لانے کی کوشش کی اور اپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہے، ہمارے یہاں مولانا عبدالسلام ندوی، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، رشید احمد صدیقی اور آل احمد سرور کے نام اس حوالے سے اہم ہیں۔ ڈاکٹر قاسم محمود ماہرین اقبالیات میں ایک نیا اضافہ ہیں ،یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ انہوں نے خطوط اقبال کے حوالے سے ایک نادر کتاب مرتب کی ہے۔

اردو ادب میں ہمارے سامنے مختلف نوعیت کے خطوط آتے رہتے ہیں بعض کی نوعیت سیاسی ہوتی ہے، بعض کی اصلاحی اور بعض شخصی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ غالب کے خطوط ہوں یا اقبال کے خطوط ہوں دونوں ہی اپنی نوعیت کے لحاظ سےباہم مختلف ہونے کے باوجود علمی اور ادبی اہمیت کے حامل ہیں۔ لہذا ان کی علمی و ادبی اہمیت سے ہم روگردانی نہیں کر سکتے اور نہ ہی تجاہل عارفانہ سے کام لے سکتے ہیں۔ اقبال نے بھی بیک وقت کئی طرح کے خطوط لکھے ہیں وہ قائد اعظم کے نام ہوں یا سید نذیر نیازی کے نام ہوں، دونوں کی انفرادی طور پر ایک الگ ہی نوعیت اور اہمیت ہے۔

سید نذیر نیازی کے نام سے کون واقف نہیں ہے؟ بلاشبہ اور بلامبالغہ سید نذیر نیازی اردو ادب میں بہت بڑا نام اور قدآور شخصیت ہیں۔ سید نذیر نیازی اقبال دوست شخصیت کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ سو یہاں ان خطوط کا ذکر کیا جانا مقصود ہے جو علامہ اقبال نے سید نذیر نیازی کے نام لکھے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے ڈاکٹر قاسم محمود سے ایک کتاب تحفہ کے طور پر موصول ہوئی۔ ڈاکٹر قاسم محمود ایک علمی و ادبی شخصیت کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں، ان سے موصول شدہ کتاب “علامہ اقبال بنام نذیر نیازی” کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر قاسم محمود نے ان خطوط کے اندر سرزد ہونے والی یا باقی رہ جانے والی چند انتہائی اہم نوعیت کی اغلاط کی درستی کرنے کی جسارت کی ہے جو علامہ اقبال نے سید نذیر نیازی کے نام لکھے ہیں، ان خطوط کی تعداد 180 تک ہے۔

فنون اقبال کی صحت اور کلامِ نظم و نثر کی تحقیقی تدوین اقبالیات کا ایک نہایت اہم شعبہ ہے اور ایک اہم مسئلہ بھی ہے جس کی طرف وفات اقبالؒ کے 76 سال بعد بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور کا شائع کردہ “کلیات اقبال اردو” واقعی غلطیوں سے پاک ہے۔ تاہم کلام اقبال فارسی اور دیگر انگریزی اور اردو تصانیف اور خطوط کی تحقیق و تدوین اور صحت متن کا کام ہنوز باقی ہے۔ 

اقبال کے خطوط کی تعداد مختلف مجموعہ کی صورت میں تقریبا 1400 ہے جن کو مدونین نے اپنے اپنے طریقوں کے مطابق مرتب کیا ہے۔ صحت متن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ نقل نویسی غیر محتاط طریقے سے کی گئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خطوط کی معیاری تدوین ایک ہی طریق اور معیار پر کی جائے اور یہ کام کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ اقبالیاتی اداروں کے کرنے کا ہے۔ لیکن اقبالیاتی محققین اور اقبالیاتی اداروں نے اس ضمن میں بے نیازی برتی ہے اور تحقیق متن سے خاطر خواہ اعتنا نہیں کیا۔ خطوط اقبال کے سلسلے میں انفرادی طور پر اصول تحقیق و تدوین کی روشنی میں جو کام ہو چکا ہے، اس کی تفصیل یوں ہے:

(1) انوار اقبال،  مرتبہ: زینب النساء
(2)  مکاتیب خان نیاز الدین خاں،    مرتبہ:  عبداللہ شاہ ہاشمی
(3) اقبال، جہانِ دیگر،  مرتبہ:  محمد صدیق ظفرحجازی
(4) اقبال اور عبدالحق، مرتبہ: ممتاز حسین 
(5) مکاتیب ِاقبال بنام گرامی،  مرتبہ:  محمد عبداللہ قریشی
(6) اقبال نامہ،  مرتبہ:  شیخ عطاء اللہ

اس کے علاوہ ڈاکٹر قاسم محمود نے “علامہ اقبال بنام سید نذیر نیازی” کو اغلاط درست کرنے کے بعد شائع کیا ہے۔ سید نذیر نیازی نے علامہ اقبال کے جملہ اصل خطوط اقبال اکادمی پاکستان کو دے دیئے تھے۔ ڈاکٹر قاسم محمود نے ان خطوط کی عکسی نقول وہاں سے حاصل کر کے مکتوبات اقبال کا متن درست کیا ہے۔ اس مجموعہ میں نذیر نیازی کے نام اقبال کے 178 خطوط شامل ہیں۔ جن میں 2 خطوط انگریزی زبان میں ہیں۔ ایک خط سید عبدالغنی اور ایک سلامت اللہ شاہ صاحب کے نام ہے۔

سید نذیر نیازی کی شہرت کا سب سے نمایاں حوالہ اقبالیات ہے۔ انہوں نے علامہ اقبال کے ایما اور تائید سے ان کے شہرہ آفاق خطبات “The Reconstruction of Religious Thought in Islam”  کا پہلا اردو ترجمہ 1958ء میں “تشکیل جدید الہیات اسلامیہ” کے نام سے شائع کیا۔ اس سے پہلے وہ اقبال کے فکر و فلسفے اور شاعری پر متعدد تنقیدی مضامین شائع کرچکے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے نام علامہ اقبال کے خطوط “مکتوبات اقبالؒ” 1957ء بھی معلومات افزا حواشی و تعلیمات کے ساتھ مرتب کیئے۔

ڈاکٹر قاسم محمود ماہر اقبالیات ہیں وہ ان دنوں گورنمنٹ ٹاون شپ کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ منہاج یونیورسٹی لاہور میں تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں
ان کی کتاب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اس حوالے سے کیا کام کیا اور کیا اصلاحات اور درستی فرمائی ہے۔

1) علامہ اقبال نے ان خطوط میں پورا سنہ نہیں لکھا بلکہ صرف 34ء یا 35ء لکھا ہےاور چند سوں کے نیچے سنہ کا نشان بنایا ہے۔ یعنی 34ء تدوین میں اقبال کے طریقہ کار کو برقرار رکھا گیا ہے۔
2) علامہ اقبال نے تاریخ ومقام کبھی شروع میں دیا اور کبھی آخر میں، کبھی تاریخ لکھی ہے اور کبھی نہیں، ڈاکٹر قاسم محمود نے اس سلسلے میں بھی اقبال کے طریقہ کار کو برقرار رکھا ہے تاہم جہاں تاریخ نہیں دی گئی وہاں تاریخ، اگر کسی ذریعے سے معلوم ہوگئی تو اسے قلابین کے اندر سر لکھ دیا ہے۔
3) متنِ خطوط علامہ اقبال کے اِملاءکے مطابق بلکہ مروجہ اِملاءدیا گیا تھا ڈاکٹر صاحب نے اسے اقبال کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔
4) علامہ اقبال اپنے نام کے حصے “محمد” پربالالترام “ؐ” کی علامت بناتے تھے یہ علامت چونکہ حضرت محمدؐ کے نام کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اس لئے اس علامت کو استعمال نہیں کیا گیا۔
5) علامہ اقبال کے ہاں القاب و آداب میں کہیں ختمہ ہے، کہیں سکتہ اور کہیں کچھ بھی نہیں، ڈاکٹر قاسم محمود نے اس سلسلے میں علامہ اقبال اور سید نذیر نیازی کے رموز و اوقاف کونظرانداز کرکے متن میں مناسب زموز و اوقاف اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
6) علامہ اقبال کے ہاں اگر کوئی لفظ سہواََ رہ گیا تو اسے متن کے اندر ہی “قلابین” میں دے دیا گیا ہے۔
7) القاب و آداب کے بعد خط کو نئے پیراگراف سے شروع کیا گیا ہے۔
8) سید نذیر نیازی نے ان خطوط میں تین مقامات پر دانستہ چند جملوں کو حذف کیا تھا جبکہ انہوں دیباچے میں بھی لکھا ہے کہ ان کی نوعیت نہایت نجی ہے۔ ڈاکٹر قاسم محمود نے ان جملوں کو بھی مقالے میں لکھ دیا ہے کیونکہ اب عرصہ گزرنے کے بعد انہیں منکشف کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس کے علاوہ اقبال کے مکتوب الیہ سید نذیر نیازی کے سوانح، شخصیت اور تصانیف و تالیفات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔  دراصل یہ کتاب ڈاکٹر قاسم محمود کے ایم فل اردو کے مکالے کی ترمیم اور حذف و اضافہ شدہ صورت ہے۔ ڈاکٹر قاسم محمود اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ رب ذوالجلال کی ذات بابرکت کا شکر ہے کہ جس کی توفیق سے یہ مقالہ لکھا گیا تھا۔ معروف ماہر اقبالیات استادِ مکرم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کہ جن کی شفقت، پیار اور ڈانٹ ہمیشہ میرے لئے مشعل راہ رہی، ان کے تعاون ، مدد اور راہنمائی کے بغیر مرے لیئے مقالہ لکھنا ناممکن ہو جاتا۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر قاسم محمود، ڈاکٹر عبدالکریم خالد، صدر شعبہ اردو ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور کی خدمت میں اظہار تشکر کرتے ہیں جنہوں نے ان کی مدد اور رہنمائی کی۔

بلاشبہ ڈاکٹر قاسم محمود نے بہت محنت سے کام لیا ہے اور اس کتاب کو قارئین کے لیے ایک عمدہ اور آسان متن کی صورت میں شائع کیا ہے۔ باری تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو مزید ہمت عطاء کریں تاکہ ڈاکٹر صاحب اپنے قارئین کی علمی پیاس بجھاتے رہیں۔ علامہ اقبال کو زیرِبحث لانا ایک عام شخصیت کا کام نہیں ہے، اس کے لئے ایک وسیع مطالعہ، وسیع سوچ، انہماک، غور و فکر اور فلسفیانہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر قاسم محمود کا مطالعہ بلاشبہ وسیع ہے، وہ صاحب تدبر اور فلسفیانہ سوچ اور نظر کے مالک ہیں۔ اقبال کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیئےایک خاص قلبی نظر کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کتاب کے مطالعے کے بعد بلاشبہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر قاسم محمود مطلوبہ قلبی نظر کی حامل شخصیت ہیں۔ انہوں نے ایک مشکل کام کا انتخاب کیا اور انتہائی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے فنی اور فکری اغلاط کی درستی کر کے اقبال کو پڑھنے والوں کے لئے مزید آسانیاں پیدا کردی ہیں۔

؎  ذرا سی بات تھی، اندیشہء عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لئے

تحریر امتیاز احمد