نو لکھی کوٹھی

0

اوکاڑہ کی زرخیز زمین سے ایک زرخیز شخص “علی اکبر ناطق” بطور شاعر، افسانہ نگار اور ناول نگار اپنی پہچان قائم کر چکا ہے۔ اب تک ان کی شاعری اور افسانوں کی کئی کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔ 2012ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ “قائم دین” چھپا اور اس کے بعد بطور ناول نگار انہوں نے پہلا ناول “نولکھی کوٹھی” لکھا اور تجریدیت وعلامتیت کے برعکس ایک حقیقت نگار نثار کی حیثیت سے سامنے آئے۔ 432 صفحات پر مشتمل اس ناول کی کہانی کچھ یوں ہے کہ! ایک انگریز کردار ولیم انگلستان سے اپنی تعلیم مکمل کرکے ہندوستان واپس آتا ہے اور باپ دادا کی طرح اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ فیروز پور کی تحصیل جلال آباد میں آگاہی اور تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے، اسے ایک آئیڈیل تحصیل بنا دیتا ہے۔ اس دوران اس کے سینئر افسران اسے ان کاموں سے باز رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم ہو جاتی ہے۔ پاکستان وجود میں آجاتا ہے،  لیکن ولیم اپنی “نولکھی کوٹھی” چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے اور اسی جگہ پر ہی بقیہ زندگی گزارنے کا خواب دیکھتا ہے۔ لیکن اس سے اس کا آبائی بنگلہ چھین لیا جاتا ہے۔ وہ کہیں اور منتقل ہو جاتا ہےاور وہیں کسمپر سی کی زندگی گزار کرمرتا اور دفن ہوتا ہے۔ اس کے بعد غلام حیدر کہانی کا دوسرا بڑا کردار ہے جس کے باپ “شیر حیدر” کو سودھا سنگھ قتل کر دیتا ہے۔ سکھوں اور پنجابیوں کے مابین لڑائی کے دوران غلام حیدر مسلمانوں کو دریا کا پل پار کرواتے ہوئے مارا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے وہ اپنے باپ کے قاتل سودھا سنگھ کو ابدی نیند سلا چکا ہوتا ہے۔

 مولوی کرامت بھی ایک دلچسپ کردار ہے۔ جو مسجد میں پیش امام تھا اور اس کے بعد سکول میں نوکری حاصل کر لیتا ہے اور انگریز کے کہنے پر مسلمان بچوں کو سکول میں  داخلوں پر راغب کرتا ہے۔ مولوی کرامت کا بیٹا فضل دین تو کوئی بڑی نوکری حاصل نہ کر سکا لیکن فضل دین کا بیٹا نواز الحق بالآخر اسسٹنٹ کمشنر بن جاتا ہے اور ایک دن اپنے باپ کے محسن ولیم سے کوٹھی چھین کر کسی با اثر بندے کے نام منتقل کر دیتا ہے۔ علی اکبر ناطق کو کہانی لکھنا آتی ہے۔ انہیں پنجاب اور پنجاب کی مٹی سے بے پناہ محبت ہے۔ اسی لئے ان کی تحریروں میں پنجاب کی ثقافت کی جھلک  اور مٹی کی خوشبو موجود ہے۔ جزیات نگاری پر انہیں مکمل عبور حاصل ہے۔ اسلوب اس قدر اچھوتا  ہے کہ قاری کو کہانی ایک ہی نشست میں ختم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کے کردار اپنی حیثیت کے مطابق لب و لہجہ رکھتے  اور اپنے مقام و مرتبہ  کے لحاظ سے گویا ہوتے ہیں۔ نولکھی کوٹھی کو پڑھتے ہوئے کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری کے ہاتھ میں شوکت صدیقی کا کوئی ناول ہے۔ قتل و غارت، دشمنی،  مار دھاڑ، رسہ گیری، ڈاکہ زنی، گولی بارود، رومانس، ڈیرے داری، گویا ہر ایک پہلو کی منظرکشی علی اکبر ناطق ایسے کرتے ہیں کہ قاری تھوڑے وقت کے لئے خود کو کسی کردار کی صورت میں تماشا  دیکھتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ پلاٹ اس قدر سادہ اور مربوط کہ ایک عام قاری کو بھی پوری کہانی کی باآسانی سمجھ آجائے۔

یکے  بعد دیگرے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں  جو قاری کو چونکانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور یہ چونکانا ہی ناول کے خمیر میں شامل ہوتا ہے۔ کہانی کے تمام واقعات باہم مربوط ہیں اور کڑی کے ساتھ کڑی ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آتی ہے۔  ناطق کہانی ایسے سناتے ہیں کہ گویا وہ شروع سے لے کر آخر تک ہر ایک کردار کے ساتھ خود موجود تھے اور سارے واقعات ان کی آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے ہیں۔ ناطق مشکل کی گھڑی میں آیت الکرسی کا ورد نہیں کرتے بلکہ ناد علی سے کام لیتے ہیں۔ نولکھی کے کردار مکمل طور پر آزاد ہیں، کہیں پر بھی ایسا گمان نہیں ہوتا کہ ناطق کے ہاتھ میں کوئی چھڑی ہے اور وہ اپنے کرداروں کو ہانک رہے ہیں۔

 ناول پڑھ کر  اندازہ ہوتا ہے کہ ناطق کو تاریخ سے اچھی خاصی واقفیت ہے۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے بہت ساروں نے لکھا جن میں عبداللہ حسین، قدرت اللہ شہاب، خدیجہ مستور کافی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن علی اکبر ناطق کا اسلوب اچھوتا، مختلف اور دلچسپ ہے۔ تقسیم ہند پر لکھے گئے بہت سے ناولوں کے برعکس “نولکھی کوٹھی” کی کہانی ہندومسلم دشمنی نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ یہ انگریز دور کے پنجاب میں شروع ہوتی ہےاور نقسیم کے فسادات کی  جھلک دکھاتی ہوئی ضیاءدورتک آ جاتی ہے۔ ناول کے آغاز میں یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ مرکزی کردار کون ہے؟ ویلیم، جو ایک انگریز اسسٹنٹ کمشنر ہے یا غلام حیدر، جو ایک چھوٹا جاگیردار ہے، یا پھر سردار سودھا سنگھ جو ایک شیطانی طبیعت  کا مالک فسادی اور قاتل  انسان ہے۔ لیکن جیسے جیسے  ولیم اپنی ارتقائی منازل طے کرتا  جاتا ہے  وہ ایک ہیرو کے طور پر قاری پر  “وا ”  ہونے میں کامیاب ہو  جاتا ہے۔ بچپن اور جوانی کی عیش و عشرت سے ہوتا ہوا یہ کردار بڑھاپے میں محرومیوں اور نا انصافیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور اس طرح قاری کو نہ چاھتے ہوئے بھی ولیم سے محبت ہو جاتی ہے۔ بلا شبہ و مبالغہ علی اکبر ناطق کو کہانی سنانے کا فن بخوبی آتا ہے اور وہ اپنے کرداروں کی نفسیات سے با خبر ہے۔علی اکبر ناطق ناول نہیں لکھتا بلکہ ناول اسے لکھتا ہے۔

تحریر امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]