سرخ بھیڑیا

0

آزادی پور گاؤں ایسی جگہ پر تھا کہ اس کے آس پاس مزید کوئی شہر یا دیہات موجود نہیں تھا۔ وہاں کے باسیوں کی روزی روٹی کھیتی باڑی سے پوری ہوتی تھی۔ خوش قسمتی سے گاؤں کی پچھلی طرف دو میل کے فاصلے پر ایک ریلوے اسٹیشن موجود تھا۔ گاؤں کے اکثر جوان دو میل کا فاصلہ پیدل طے کر کے وہاں مسافروں کو پانی مہیا کرتے اور اس کی مزدوری وصول کرتے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور ذریعہ معاش نہیں تھا۔ پورے گاؤں کے لوگوں میں اتفاق تھا اور وہ سارے کام باہم مل جل کر کر لیتے۔ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شامل ہوتے اور مصیبت میں ایک دوسرے کے کام آتے۔ گاؤں کی دائیں جانب ایک نہر تھی اور اسی نہر کے کنارے گاؤں کا سب سے پہلا گھر شاہ زور خان کا تھا۔ شاہ زور کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔

سکول جیسی سہولت کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے تینوں بہن بھائی سارا دن کھیل کود میں گزار دیتے۔ روکھا سوکھا کھا کے سو جاتے اور کبھی کبھار اپنے والد کے ساتھ کھیتوں میں چلے جاتے۔ ان کے کھیتوں سے کچھ ہی دور ایک جنگل تھا۔ جنگل میں بہت خطر ناک جانور تھے اس لیے کوئی بھی انسانی وجود اس طرف نہیں جاتا تھا۔ شاہ زور خان کے بیٹے معصوم خان کو سرخ بھیڑیا بے حد پسند تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے باپ سے فرمائش کرتا کہ اسے سرخ بھڑیے کا بچہ لا کر دے۔ وہ اپنے بیٹے کی اس خطرناک خواہش کو کبھی بھی پورا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ اکثر اپنے باپ سے ناراض ہو جاتا اور کھانا پینا چھوڑ دیتا۔ ایک رات وہ اسی ضد میں پوری رات نہیں سویا اس کے باپ نے ٹھان لی کہ وہ ایک دو دن میں اسے بھیڑیے کا بچہ لا کر دے گا۔

ایک دوپہر معصوم خان سویا ہوا تھا اور اس کے باپ نے اس کی چار پائی کے ساتھ سرخ بھیڑیے کا بچہ لا کر باندھ دیا۔ وہ اٹھا اور اس کی پہلی نظر جب بھیڑیے کے بچے پر پڑی تو اس کا دل باغ باغ ہو گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اسے چومے یا گلے لگائے۔ اس کا رنگ اس قدر سرخ اور شفاف تھا کہ وہ اسے چومے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے اس کی رسی کھولی اور اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھا لیا۔ آج اس نے اپنی ماں سے دو روٹیوں کی فرمائش کی تھی۔

اس نے ایک روٹی اور آدھا شکر ملا گھی بھیڑیے کے بچے کو کھلایا اور ہمیشہ کی طرح ایک روٹی خود کھائی۔ اس کی دونوں بہنیں بھی اس کے ساتھ مانوس ہو گئیں۔ وہ اسے اپنے حصے کا دودھ بھی پلاتا رہا اور ہر طرح سے اس کی خوراک کا خیال رکھا۔ ہفتے میں ایک دو بار اسے گوشت بھی کھلاتا۔ اس کے پاس سرخ بھیڑیے کا بچہ ہونے کی وجہ سے اس کے دوستوں کی تعداد میں بھی حیران کن اضافہ ہو چکا تھا۔ سبھی دوست نہر پر اکٹھے ہوتے اور اس کے ساتھ کھیلتے۔ اب بھیڑیے کا بچہ آہستہ آہستہ جوانی میں قدم رکھ رہا تھااور اس کے سرخ رنگ میں نکھار آ رہا رتھا۔

بھیڑیا کبھی کبھار گھر سے نکل جاتا اور محلے کے کتوں کے ساتھ آوارہ گردی کر کے واپس گھر آجاتا۔ اس دوران اس کے عادات واطوار میں نمایاں تبدیلی رونما ہو چکی تھی بلکہ اس نے بھونکنا بھی سیکھ لیا ۔ وہ اکثر بچوں اور بڑوں کو کاٹنے کی نیت سے ان کے پیچھے بھاگتا لیکن مالک کے بلانے پر واپس آجاتا۔ پورے گاؤں میں اس کی وحشت پھیل چکی تھی۔ لوگ بڑے محتاط ہوچکے تھے۔ وہ اپنے بچوں کو گھر سے نکلنے دیتے نہ ہی اس طرف کھیلنے جانے دیتے۔ شام ہوتے ہی لوگ اپنے دروازوں کو تالے لگا لیتے اوردیواروں پر کانٹے دار لکڑیاں رکھ دیتے۔ بھیڑیااچانک رات کو نکلتا اور گاؤں کی بھیڑ بکریوں اور بھینسوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کردیتا۔ خوف و ہراس میں مزید اضافہ ہوتا گیا اب لوگوں کے جانور بھی محفوظ نہیں تھے۔

شاہ زور خان کی دس ایکڑ گندم بھی اسی بھیڑیے نے اجاڑ دی۔ وہ لوگوں کی فصلوں کو بھی نقصان پہنچانے لگ گیا تھا۔ حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے تھے لوگوں کی جان کے ساتھ ساتھ اب ان کا مال بھی محفوظ نہیں تھا۔ بہرحال شاہ زور خان نے بھیڑیے کو باندھ دیا۔ اب وہ چوبیس گھنٹے بندھا رہتا اور معصوم خان اس سے کھیلتا بھی اور اسے دودھ بھی پلاتا۔ سرخ بھیڑیا بندھ کر رہنا پسند نہیں کرتا۔ ایک رات اس نے رسی تڑوائی اور دیوار پھلانگ کر فرار ہو گیا۔ اب گاؤں والے امن محسوس کررہے تھے لیکن ایک خوف بھی ان پر مسلط تھا کہ بھیڑیا کسی بھی وقت گاؤں کا رخ کر سکتا ہے اور ہمارے بچوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

‌حفظ ماتقدم کے طور پر سبھی لوگ چوکنے ہو گئے اور وہ اپنا انتظام کر کے سوتے۔ ایک صبح ایک بچے کی خون میں نہائی ہو ئی نعش ملی اور ایک بچہ غائب تھا۔ نعش سے زیادہ خوف و ہراس گم شدہ بچے کی وجہ سے پھیل گیا اور لوگ اپنے بچوں کو لے کر بے حد افسردہ اور مضطرب تھے۔ پہلے لوگوں کی فصلیں اجڑتی تھیں اب ان کے بچے غائب ہونا شروع ہو گئے۔ سبھی گاؤں والے پریشان تھے۔ وہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھےاس مصیبت سے کیسے جان چھڑوائی جاسکے۔

ایک دن گاؤں کے سبھی لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور سب نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔ ہر ایک کی رائے دوسرے سے مختلف تھی۔ کوئی کہتا گھروں کی دیواروں کو اونچا کر دیا جائے۔ کوئی کہتا بھیڑیے کو دبوچنے کے لیے شکاری کتوں کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اس دن ہر خواص و عام سے رائے لی گئی اور اسے احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ لوگوں کے بچے غائب ہو رہے تھے اور انہیں اپنے بچوں کی فکر تھی کہ پتا نہیں وہ کس حال میں ہوں گے اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہو گا۔ وہ زندہ بھی ہوں گے یا مر گئے ہوں گے؟

آخر کار اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ گاؤں میں پہرہ شروع کیا جائے۔ ہر گھر سے ایک فرد پہرہ دے گا۔ ہر شخص اپنی بندوق ساتھ رکھے گا۔گاؤں کے داخلی اور خارجی راستوں پر چار چار بندے لگائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہر گھر کے باہر ایک آدمی پہرہ دے گا۔ پہرہ شروع ہوا تو کچھ دن بڑے سکون سے گزر گئے، کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا اور اس دوران کوئی بچہ بھی غائب نہیں ہوا۔ لوگوں کو محسوس ہوا کہ اب گاؤں میں امن بحال ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پہرہ جاری رکھا جائے گا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ گاؤں کے چودھری کا چھوٹا بیٹا غائب ہو گیا۔ اتنے سخت پہرے کے باوجود بچے کا غائب ہونا سب کے لیے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔

یہ کیسے ممکن تھا کہ گاؤں کی ہر گلی اور ہر گھر کے باہر لوگ پہرے پر موجود ہوں اور کوئی بچہ غائب ہو جائے؟ سرخ بھیڑیے کا بچہ جتنی دیر گاؤں میں رہا وہ گاؤں کے ہر گھر سے اور تمام گلیوں سے مانوس تھا۔ اس نے پورا گاؤں دیکھ رکھا تھا۔ بچوں کو اٹھانے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو چکا تھا۔ ایک دو دفعہ بھیڑیے کو دیکھا گیا، اس پر نشانہ لگایا گیا مگر نشانہ چوک جاتا رہا۔ ایک ہفتے میں ایک بچے کا غائب ہونا معمول کی بات بن چکا تھا۔ لوگ اپنے پیاروں کی یاد اور غم میں نڈھال تھے۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس مصیبت سے نکلا جائے۔

وہ حکومتی عہدیداران کے حضور بھی پیش ہوئے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ انہوں نے ہر دروازے پر مدد کے لیے دستک دی لیکن انہیں نظر انداز کیا گیا۔ اب کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس سے بچہ نہ اٹھایا گیا ہو۔ پورے گاؤں والے ہر روز بچوں کی تلاش میں نکلتے اور بے نیل مرام لوٹتے۔ ان کے سینوں میں غم پلتے رہے اور حکومتی عہدیداران کی لاپرواہی کا افسوس پرورش پاتا رہا۔ آدھے سے زیادہ لوگ گاؤں چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کی خوشیاں چھینی گئی تھیں۔ انہیں سرمایہ حیات سے محروم کیا گیا تھا۔ ان کے مستقبل کو داؤ پر لگایا گیا تھا۔ ان کی حب الوطنی کو ٹھیس پہنچائی گئی تھی۔ جس کا جدھر منہ لگا وہ ادھر چلا گیا۔ آہستہ آہستہ پورا گاؤں خالی ہو گیا۔ لوگوں کے گھر گر گئے۔ مال مویشی مر گئے، فصلیں اجڑ گئیں۔

اب گاؤں، گاؤں نہیں رہا، گویا کوئی میدان ہو۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ چند سال پہلے یہاں پر کچھ گھر تھے، لوگ بستے تھے، ہریالی تھی، چہل پہل تھی۔ لوگ تنظیموں میں شامل ہو گئے، کچھ لوگوں نے اپنی تنظیمیں بنا لیں۔ لوگ بدلے کی آگ میں جھلس رہے تھے۔ ان کو بے سہارا کیا گیاتھا ۔ ان کا خیال تھا کہ حکومتی عہدیداران اس ٹھکانے سے واقف ہیں جہاں ان کے گم شدہ بچوں کو رکھا گیا ہے۔ وہ انتقامی جذبے کے ساتھ شہر کا رخ کرتے اور شہر کی سڑکوں پر خون ہی خون پھیل جاتا۔ لوگوں کے سر، بازواور ٹانگیں سڑکوں پر پھیلی ہوئی نظر آتیں۔

اب آزادی پور گاؤں کا خوف ملک کے ہر شہر میں پھیل چکا تھا۔ عوام کے امن و امان میں استحکام باقی نہیں رہا۔ لوگ مارے مارے پھرتے ہیں اور اس خوف میں مبتلا ہیں کہ پتا نہیں کب ان کی زندگی ٹکڑوں میں بٹ کر ختم ہو جائے ۔ آزادی پور گاؤں کے لوگ جو پہلے اپنے گاؤں میں ہنسی خوشی سے زندگی گزار رہے تھےاب ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہ طول و عرض میں پھیل چکے ہیں۔ جن ہاتھوں میں کبھی قلم ہونا چاہیئے تھا ان ہاتھوں میں بندوق اور بارود ہے۔ ان کی معصومیت ختم ہو چکی ہے۔ بہنیں اپنے بھائیوں کو یاد کر کر کے روتی ہیں۔ ان کی تصویروں کو چومتی اور سینوں سے لگاتی ہیں۔

لواحقین اس شش و پنج میں مبتلا تھے کہ ان کے اٹھائے گئے بچوں کو کہاں رکھا گیا ہو گا۔ وہ کسی بھی طور اپنے بچوں کو واپس لینا چاہتے تھے۔ اس کے بدلے میں وہ شہروں کا امن واپس لانے پر بھی تیار تھے۔ اعلیٰ سطح پر مذاکرات کا آغاز کیا جاتا ہے۔ حکومتی عہدیداران اور گاؤں آزادی پور کے چودھری لاڈے خان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک ماہ کے اندر گم شدہ بچوں کی تلاش کو یقینی بنانے پر اتفاق رائے قائم ہوا۔ ڈیڈ لائن تک حملے جاری رکھنے کا بھی کہا گیا۔

اس جنگل کی پچھلی طرف ایک پہاڑی سلسلہ تھا۔ وہاں پہنچنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جو بھی انسان وہاں جاتا اسے مار دیا جاتا۔ ڈاکوؤں کے بڑے بڑے لشکر وہاں چوبیس گھنٹے موجود ہوتے۔ سرخ بھیڑیے نے انہی پہاڑوں میں ایک وسیع و عریض سرنگ بنا رکھی تھی۔ وہ سرنگ انسانی بچوں سے بھری پڑی تھی۔ بچوں کے علاوہ کچھ نوجوان بھی دور دراز کے علاقوں سے لاکر وہاں رکھے گئے تھے۔ البتہ کچھ جوانوں اور بچوں کی ہڈیاں بھی وہاں موجود تھیں۔ جو زندہ بچ گئے تھے ان کے خدوخال کافی حد تک تبدیل ہو چکے تھے۔ ایک چوتھائی بچے اب بھی تن درست لگ رہے تھے۔ بچوں کی زیادہ تعداد ذہنی معذوری اختیار کر چکی تھی۔ وہ سب کسی جنگلی جانور کی طرح لگتے تھے۔ جو کسی بھی وقت انسانی جان پر حملہ کر سکتا ہو۔ اس سرنگ میں ہر طرف بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ وہاں کچھ ہی وقت گزارا جاسکتا تھا، زیادہ دیر وہاں ٹھہرنا ممکن نہ تھا۔ انسانی بچوں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ وہاں کافی تعداد میں سانپ بھی موجود تھے۔

حکومتی عہدیداران نے اپنی بے بسی کو بھانپ لیا۔ وہ کسی بھی طور اس سرنگ سے بچوں کو واپس نہیں لاسکتے تھے۔ انہیں کئی طرح کے مسائل کا سامنا تھا۔ ہر شہر میں امن و امان قائم کرنا بھی ان کا فرض اور مجبوری تھی۔ وقت کم تھا اور ساری صورت حال خراب ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ دباؤ بھی ان پر تھا۔ لواحقین بچوں کی باقیات وصول کرنے پر بھی رضامند تھے تاکہ انہیں اپنے ہاتھوں سے دفنا سکیں۔ انہیں اتنا تو معلوم ہو کہ فلاں ڈھیری میں ان کے جگر کا ٹکڑا سو رہا ہے۔ یہ کسی کے لیے بھی باعث سکون نہیں ہوتا کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اس کا بچہ زندہ بھی ہے یا مر گیا۔ اسے قبر بھی نصیب ہوئی یا نہیں؟ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے یہ جاننا بے حد ضروری ہے۔

حکومتی عہدیداران تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے تھے اور لواحقین کو مسلسل جھٹلا رہے تھے۔ انہوں نے ایک خفیہ ملاقات کی۔ ایک دن کا تعین کیا گیا کہ فلاں دن فلاں جنگل کے پاس لواحقین کو بلایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ ان کے بچے اسی جنگل میں ہیں۔ لہذا اس دن سب لواحقین اس جنگل کے پاس پہنچ گئے۔ جنگل میں بہت زیادہ خطرناک جانور تھے۔ وہ کسی بھی انسانی جان کو لقمہ بنا سکتے تھے۔ سب لواحقین بہت خوش تھے کہ وہ آج اپنے جگر کے ٹکڑوں سے ملیں گے۔ ان کے لیے نئے کپڑے بنوا کر ساتھ لائے تھے۔ ان کی پسند کے کھانے بھی لے کر گئے تھے۔ کچھ ہی دیر میں حکومتی عہدیداران بھی وہاں پہنچ گئے ۔

انہوں نے لواحقین کے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھ دیے اور ان کی جیبوں کی تلاشی لی۔ ان سے کپڑے اور کھانا چھین لیا۔ جب ہر طرف اندھیرا چھا گیا تو انہوں نے انہیں جنگل کے درمیان میں پھینک دیا۔ انہوں نے لواحقین کا کھانا بڑے مزے سے کھایا اور کپڑے اپنے بچوں کے لیے لے کر گھروں کو روانہ ہو گئے۔ صبح آنکھ کھلی تو ہر شہر میں امن تھا۔ کسی سڑک پر خون تھا نہ جسم کے ٹکڑے۔

تحریر امتیاز احمد