گلی نمبر 7

0

آداب و تسلیمات کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔ابھی مجھے دفنائے دوسرا دن ہی تھا کہ فرشتے پہلے دن کی طرح پھر حساب و کتاب کے لیے حاضر ہو گئے اور میں نے کسی طرح پھر سے انہیں پہلے دن کی طرح ٹال دیا کہ ابھی مجھے حساب نہیں دینا۔ جب تک میں ڈاکٹر شانیا سے حساب نہ لے لوں تب تک میں ہرگز آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔

فرشتوں سے اچھی خاصی صاحبِ سلامت ہو گئی ہے۔ہوتی بھی  کیسے نہ۔تمہاری کہانی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سنائے تو فرشتے عش عش کر اٹھے بلکہ مجھے قبر میں زعفران بھی میسر کر دیا کیوں کہ اس کی خوشبو تمہارے پسینے جیسی ہی تو ہے۔اب مجھے یہی گمان ہوتا ہے کہ تم آس پاس کہیں موجود ہو۔میں نے ان کو بتایا کہ آخری دفعہ تمہیں گلی نمبر 7 میں دیکھا تھا اور کیا ہی حسین منظر تھا جب میری دستک پہ تم دروازے تک آئی اور تب  تم سے بالکل زعفران  جیسی  خوشبو آ رہی تھی۔وہی ہمیشہ کی طرح لرزتا دھڑکتا ہوا جسم ،وہی سیاہ حلقوں میں چھپی روشن آنکھیں۔،وہی شیشے کی طرح صاف شفاف گردن کہ پانی کا ایک گھونٹ بھی حلق سے اترتا ہوا صاف نظر آئے۔

سوچوں میں ڈوبی اور قبل از وقت پختگی کا احساس لیے تم چند گھڑیاں ہی دروازے پر ٹھہری تھی۔وہ جو تم نے کہا تھا نا کہ  احمد خیال رہے جب زندگی تمہیں دوبارہ میرے دروازے تک لائے تو دروازے سے زیادہ دور مت کھڑے ہونا کہ سامنے والی آنٹی ہر آتے جاتے کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔بالکل دروازے کے پاس کھڑے ہونا کہ تم غیر نہیں ہو مگر تم تو جانتی ہو زندگی نے دوبارہ تمہارے دروازے پر آنے کی مہلت نہیں دی کیوں کہ مجھے دفعتاََ مرنا پڑا۔

ایک دفعہ جو میں دوست کے گھر گلی نمبر 7 میں ہی سویا تھا ، تمہیں یاد ہے اگلے دن تمہیں بتایا کہ کل رات میں 9 سالوں میں پہلی دفعہ تمہارے اتنا قریب تھا اور تم نے کہا کہ اب میں یہاں نہیں ہوتی۔میرے بارہا پوچھنے پر بھی تم نے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا۔آج بھی یہ سب جاننے کے لیے بے تاب ہوں۔اسی لیے تمہیں لکھ رہا ہوں۔ممکن ہو تو جلدی جواب دینا۔

قبر نمبر 7 کے اڈریس پر خط پوسٹ کرنا۔تمہاری مناسبت سے میں نے قبر پر 7 کا ہندسہ درج کروا رکھا ہے۔تمہارے قدموں کی مٹی بھی قبر میں ساتھ لایا تھا۔وہ بھی انگارے بن چکی ہے اور جو تم نے 2 ہاتھ مٹی میری قبر پہ ڈالی تھی اس کے وزن تلے بہت دب گیا ہوں۔اس مٹی نے حبس بڑھا رکھا ہے۔ اب جو میری قبر تک آنا ہوا تو وہ 2 ہاتھ مٹی کے اٹھا لینا۔

قبر پہ جلدی میں پھینکا ہوا وہ کالا گلاب کا  پھول بھی اٹھا لینا کہ اب اس کی ضرورت نہیں۔اور براہ کرم اب پاؤں کی طرف مت کھڑی ہونا۔ اس طرف سے قبر بیٹھی بیٹھی سی محسوس ہوتی ہے اور ٹانگوں پہ اک عجیب سا وزن آن پڑا ہے۔ باقی میں بہت خوش ہوں فرشتوں سے خوب گپ شپ ہوتی ہے اور صرف تمہارا ہی ذکر رہتا ہے۔ میں نے ان کو سب بتا دیا ہے جو تم نے میرے گلے میں رسوائی کا طوق ڈال کر مجھے یہاں تک بھیجا۔ قبر کی زندگی بہت بہتر ہے ، دنیا داری جیسا یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ بس تمہاری یادیں ،تمہاری رسوائیاں، تمہارے دیے ہوئے زخم ہی یہاں میرا کل اثاثہ ہیں۔

دیکھو میں نے اپنا حساب روک رکھا ہے۔ تم جلدی آجانا۔اور میں نے  قبر کے دائیں طرف خالی جگہ بھی سنبھال رکھی ہے۔ بس انتظار ہے کہ تم دائیں طرف آجاؤ میں پہلے تم سے حساب کتاب کروں اور پھر اپنا حساب دوں۔ مجھے معصومہ نے بہت روکا کہ تمہیں کچھ نہ لکھوں ، کہ ایسا کرنے سے  تم امر ہو جاؤ گی ہمیشہ زندہ رہو گی۔مگر مجھے تمہیں امر ہی تو کرنا ہے۔
منتظر روح
قبر نمبر 7

تحریر امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]