حلال و حرام کا تصور

0

باری تعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں باہمی تعاون اور معاملاتی لین دین کے محتاج ہیں اور ہر انسان کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے۔ محنت مزدوری کرنے والا بھی غلہ بیچنے والے کا ضرورت مند ہے اور کاشت کار مزدور کا۔ الغرض اشیاء کی خرید وفروخت، محنت ومزدوری اور صنعت وزراعت اور قرض وعاریت وغیرہ معاشی معاملات اس دنیا میں انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔

الله تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے جس طرح توحید، آخرت، عبادت واعمال اور اخلاق ومعاشرت کے بارے میں ہدایات دیں اسی طرح اس نے خرید وفروخت، صنعت وتجارت او رمحنت و مزدوری وغیرہ ان معاشی معاملات کے بارے میں بھی راہ نمائی کی جن میں انسانوں کی دنیوی واخروی فلاح ہے۔ او رجب انسان اسلام کے بتائے ہوئے ان معاشی سنہری اصولوں کو چھوڑ دیتا ہے تو آخرت کا وبال اپنی جگہ دنیا میں بھی بے سکونی وبے اطمینانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ چاہے معاشی نقصان ہو یا مصائب وپریشانی۔ آج کے غیر مسلم اگر معاشی طور پر ترقی کر رہے ہیں تو ان میں اسلام کے ان بنیادی معاشی اصولوں کا بھی دخل ہے جن میں سچائی اور دیانت داری، الله کی مخلوق کی نفع رسانی، عدل اور ہر ایک فریق کی دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کی ترغیب ہے۔

حلال روزی کی کوشش فرائض میں سے ہے

آج کل صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰة کو دین سمجھ لیا گیا اور معاملات ومعاشرت کو دین سے علیحدہ چیز سمجھ لیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے طریقہٴ کاروبار کی نوعیت جاننے کے لیے علماء سے رجوع نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ کہ بعض کاروبار ناجائز ہو رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا، جب کہ اسلام میں حلال روزی حاصل کرنے کی فکر او رکوشش کو بھی ایک فریضہ بتایا گیا ہے۔ چناں چہ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال حاصل کرنے کی فکر وکوشش فرض کے بعد فریضہ ہے۔ اس حدیث میں صرف کمائی کو نہیں، بلکہ حلال کمائی کی تلاش وفکر کو فریضہ بتلایا گیا ہے۔

تجارت بڑی آزمائش

تجارت اور سود اگری بڑی آزمائش کی چیز ہے۔ تاجر کے سامنے بسا اوقات ایسی صورتیں آتی ہیں کہ وہ اگر الله کے احکام کے مطابق معاملات کے بجائے تجارتی مصلحت کے مطابق بازاری طریقے سے معاملہ کرے تو بڑا ہی نفع ہو۔ بس جو تاجر اپنی تجارتی مصلحت سے صرف نظر کرکے الله کے حکم کے مطابق ہر حال میں سچائی اور ایمان داری کی پابندی کرتا ہے تو وہ اس امتحان وآزمائش میں بڑا کام یاب ہے۔ اور ایک حدیث میں ایسے تاجروں کے لیے بھی زبردست بشارت وخوش خبری سنائی گئی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پوری سچائی او رایمان داری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہو گا۔

تجارت جو کہ ظاہراً دنیوی ضرورت ہے اس کو دیانت دارانہ طریقے سے سر انجام دینے والے کے لیے اتنی زبردست بشارت کی وجہ بظاہر یہی معلوم ہوتی ہے کہ شریعت کی نظر میں مالی معاملات بہت زیادہ نزاکت اور اہمیت کے حامل ہیں اور اس میں نہ صرف مال کے کمانے کے ذرائع اور طریقے شریعت کے مطابق ہونے چاہییں بلکہ خرچ کرنے کی جگہیں بھی دین کے خلاف نہیں ہونی چاہییں۔ ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے پاؤں اپنی جگہ سے سرک نہیں سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق پوچھ گچھ نہ کر لی جائے۔ ایک اس کی پوری زندگی کے بارے میں کہ کن کاموں اور مشغلوں میں اس کو ختم کیا؟ اور دوسرے خصوصیت سے اس کی جوانی کے بارے میں کہ کن مشغلوں میں اس کو بوسیدہ اور پرانا کیا؟ اور تیسرے اور چوتھے مال ودولت کے بارے میں کہ کہاں سے او رکن طریقوں اور راستوں سے اس کو حاصل کیا تھا او رکن کاموں او رکن راہوں میں اس کو صرف کیا؟ اور پانچواں سوال یہ ہو گا کہ جو کچھ معلوم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟

حرام مال کا وبال

حرام مال کا اثر عبادات پر بھی پڑتا ہے او رحرام میں مبتلا شخص کی بموجب احادیث نہ دعا قبول ہوتی ہے اور نہ ہی عبادت قبول ہوتی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ الله تعالیٰ نے بیت المقدس پر ایک فرشتہ مقرر کیا ہے اور یہ فرشتہ ہر دن اور ہر رات یہ آواز لگاتا ہے کہ جو شخص حرام کھائے گا الله تعالیٰ اس کے نہ فرض قبول فرمائیں گے اور نہ نفل۔ ایک حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ اس کا سفر بڑا طویل تھا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے، کپڑے غبار آلود اور وہ اسی حالت میں آسمان کی طرف منھ کرکے یا رب ! یارب! کہہ کر دعا مانگ رہا تھا، لیکن اس کی حالت یہ تھی کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اور حرام غذا سے اس کی پرورش ہوئی۔ ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟! (مسلم شریف)

اور ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن کچھ لوگ الله تعالیٰ کے سامنے اس حالت میں لائے جائیں گے کہ ان کی نیکیاں تہامہ کے پہاڑ کے برابر ہوں گی ( یعنی ان کے پاس اعمالِ صالحہ اور نیکیوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہو گا)۔ جب وہ لوگ الله تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو الله تعالیٰ ان کی تمام نیکیاں کالعدم کر دیں گے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ حضور! یہ کیوں کر ہو گا؟ جواب میں فرمایا کہ یہ لوگ دنیا میں نماز بھی پڑھا کرتے تھے اور روزے بھی رکھتے تھے، حج بھی کرتے تھے، زکوٰة بھی دیتے تھے، لیکن جونہی ان کے پاس حرام مال آتا تو یہ لوگ اس کو لے کر بے دھڑک استعمال کر لیتے تھے۔ اس حرام سے نہیں بچتے تھے۔ گویا حرام کے استعمال میں بالکل آزاد اور جری تھے۔ اس حرام کے استعمال اوراس کی نحوست کی وجہ سے ان کی یہ ساری عبادتیں کالعدم ہو جائیں گی۔

حرام سے بچنا اور حلال کو اختیار کرنا فرض ہے

علماء فرماتے ہیں کہ دین کا25% حصہ عبادات ہیں اور بقیہ75% معاملات ومعاشرت ہیں ،لیکن آج کل دین کو صرف عبادات کے اندر ہی سمجھ لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کتنے ہی لوگ معاملات ومعاشرت میں اپنے کو بالکل آزاد سمجھتے ہیں کہ ہم جس طرح چاہیں کاروبار کریں، حالاں کہ جس طرح نماز کے اندر حلال وحرام ہے، اسی طرح کاروبار کے اندر بھی حلال وحرام ہے۔ حلال کو اختیار کرنا فرض اور حرام سے بچنا فرض ہے۔

حرام کی وجہ سے عذابِ قبر

حضرت علی بن مدینی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا اور میں الله تعالیٰ کے فضل سے حافظ قرآن تھا۔ میرا یہ معمول تھا کہ میں روزانہ والد کی قبر پر جاتا اور تلاوت قرآن کریم کرکے ایصالِ ثواب کرتا۔ ایک مرتبہ رمضان شریف کا زمانہ تھا۔ ستائیسویں شب تھی، سحری کھا کر فجر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حسبِ معمول والد صاحب کی قبر پر جا کر تلاوت کرنے لگا تو اچانک برابر والی قبر سے مجھے ہائے ہائے کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ جب پہلی مرتبہ یہ آواز آئی تو میں خوف زدہ ہو گیا۔ میں ادِھراُدھر دیکھنے لگا تو اندھیرے کی وجہ سے مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ جب میں نے آواز کی طرف کان لگائے او رغو رکیا تو پتہ چلا کہ یہ آواز کسی قریب والی قبر سے آرہی ہے اور ایسا لگا کہ میت کو قبر میں بہت خوف ناک عذاب ہو رہا ہے اوراس عذاب کی تکلیف سے میت ہائے ہائے کر رہی ہے۔ فرماتے ہیں میں پڑھنا پڑھانا تو بھول گیا اور خوف کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں اس قبر کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر جوں جوں دن کی روشنی پھیلنے لگی تو آواز بھی مدہم ہونے لگی۔پھر اچھی طرح دن نکلنے کے بعد آواز بالکل مدہم ہو گئی۔

جب لوگوں نے آنا جانا شروع کیا تو ایک آدمی سے میں نے پوچھا کہ یہ قبر کس کی ہے؟ اس نے ایک ایسے شخص کا نام لیا جس کو میں بھی جانتا تھا، کیوں کہ وہ شخص ہمارے محلے کا آدمی تھا اور بہت پکا نمازی تھا اور انتہائی کم گو اور شریف آدمی تھا ،کسی کے معاملے میں دخل نہیں دیتا تھا۔ جب بھی کسی سے ملتا تو اچھے اخلاق سے ملتا تھا۔ زیادہ تر ذکروتسبیح میں مشغول رہتا تھا۔ جب میں اس کو پہچان گیا تو یہ بات مجھ پر بڑی بھاری گزری کہ اتنا نیک آدمی اور اس کو ایسا عذاب۔ میں نے سوچا کہ اس کی تحقیق کرنی چاہیے کہ اس نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے جس کی وجہ سے اس کو یہ عذاب ہو رہا ہے۔ چناں میں محلے میں گیا اوراس کی عمر کے لوگوں کو اس کا حال بتایا او راس عذاب کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ویسے تو بڑا عابد، زاہد تھا، مگر اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اور اس کا کاروبار بہت وسیع تھا۔

جب وہ بوڑھا ہو گیا او راس کے اندر کاروبار کرنے کی طاقت نہ رہی اور کوئی دوسرا اس کے کاروبار کو چلانے والا نہیں تھا تو اس کے خبیث نفس نے ذریعہ معاش کے لیے اس کو یہ تدبیر سمجھائی کہ اپنا سارا کاروبار ختم کر دے اور جو پیسے آئیں اس کو سود پر دے دے۔ چناں چہ اس نے سارا حلال کاروبار ختم کیا اور جو رقم آئی اس کو سود پر لگا دیا۔ اور پھر سارا وقت مسجد میں رہتا، تہجد، اشراق، چاشت وغیرہ کا خوب اہتمام کرتا اور تمام نمازیں باجماعت صفِ اول میں امام کے پیچھے پڑھتا اور ہر مہینے سود کی ایک معقول رقم مل جاتی، اس سے گزارا کرتا۔ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ اس کو جو شدید عذاب ہو رہا ہے وہ اسی سود خوری کے گناہ کا وبال تھا۔ الله تعالیٰ ہم سب کو حرام کھانے اور پہننے سے بچائے۔ آمین !

تحریر امتیاز احمد