ناول باگھ کا تنقیدی جائزہ

0

 عبداللہ حسین کا ناول “باگھ” “اداس نسلیں” کے بالکل برعکس ہے، اداس نسلیں کے بارے میں بھی عبداللہ حسین نے کہا تھا کہ اس نے ایک رومانوی کہانی لکھنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ رومانوی سے زیادہ تاریخی ہوگئی۔ البتہ “اداس نسلیں” سے عبداللہ حسین کو ادبی دنیا میں ایک الگ ہی پہچان ملی۔ عبداللہ حسین کے ناول “باگھ”  کی کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے!

        ناول کا مرکزی کردار اسد ساری زندگی خود کو جبر سے آزاد کروانا چاہتا ہے۔ کہانی تھوڑی بور ضرورہے لیکن Suspense  کی وجہ سے کافی دلچسپ بن جاتی ہے۔ اسد کا والد ایک شکاری بندہ ہے اور اپنے بیٹے کو بھی شکار سکھا دیتا ہے۔ اسد شیر کا شکار کرنا چاہتا ہے۔اسدکی پیدائش کے بعد اسدکا والد فوت ہوجاتا ہے۔ اسد والد کی وفات کے بعد اپنے چچا کے گھر رہنے لگ جاتا ہے۔ چچا کے  گھر میں بھی اسدکو کوئی خاص محبت اور توجہ نہیں ملتی۔ اسی دوران اسد سانس کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور پاس کے ایک گاؤں میں حکیم سے اپنا علاج شروع کروا دیتا ہے۔ علاج کے دوران ہی اسد کو حکیم کی بیٹی یاسمین سے محبت ہو جاتی ہے، اور آہستہ آہستہ اسد حکیم کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور حکیم کے گھر میں ہی  رہنے لگ جاتا ہے۔

ایک دن حکیم صاحب کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اس قتل کا ناول کے آخر تک بھی پتا نہیں چلتا ہے۔ اسد اس قتل کےشک میں گرفتار ہوتا ہے، گرفتاری کے دوران اسد مختلف طرح کی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ ایک دن  اسد کو ذوالفقار (ایک جاسوس) جو خود کو آرمی کی کسی خفیہ ایجنسی کارکن بتاتا ہے، وہ نکال کر لے جاتا ہے۔

 اسد اپنی سانس کی بیماری کی میڈیسن لینے ذوالفقار کے ساتھ سرحد پار جاتا ہے جہاں پر کچھ دن کے قیام کے دوران وہ بہت حیران کن  مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کے سامنے کسی تنظیم کے بندے آرمی کی گاڑیوں اور ٹرکوں  وغیرہ پر گولیوں اور بموں سے حملہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسد اپنے علاقے میں واپس جانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور یاسمین کے ساتھ خوشی خوشی زندگی گزارنے لگ جاتا ہے۔ اگر فنی و فکری حوالے سے اس ناول پر بات کی جائے تو کافی ساری چیزیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔

منظر نگاری کسی بھی ناول یا افسانے کی جان ہوتی ہے۔ ناول باگھ کے اندر عبداللہ حسین نے منظر نگاری بہت عمدہ طریقے سے کی ہے۔ وہ ہر ایک چیز کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ ہر چیز قاری کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے اور قاری ایک وقت ایسا محسوس کرنے لگ جاتا ہے کہ وہ خود اپنی آنکھوں سے ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ 

        عبداللہ حسین نے ایک مرکزی کردار اسد کے ذریعے محبت کی بہت خوبصورت انداز میں عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسد کی محبت ایک پختہ محبت ہے۔ اسد بہکنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ایسا کوئی خیال آنے سے پہلے ہی وہ چونک اٹھتا ہے اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ناول باگھ سے ہی ایک  اقتباس ملاحظہ فرمائیں!

        “اس نے آنکھیں اٹھا کر سکوت کے عالم میں اسد کو دیکھا، اوراسد نے اس لمبے سے نوخیز چہرے میں (گو وہ عمر میں اس سے چند سال بڑی تھی) اور پتلے پتلے مضبوط ہونٹوں میں اور دور دور جھلملاتی ہوئی آنکھوں میں (عین بیچ سے مانگ نکلے ہوئے ماتھے اور سیدھے سیاہ کس کر باندھے ہوئے بالوں میں) بدن کی قربت کے اس اولین، بے زبان لحظے کو بجلی کی کاٹ کی مانند سر سے پاؤں تک محسوس کیا۔ وہ کپکپا اٹھا۔ اس کو اس بات کا پتا تھا کہ اگلے لحظے یا اس سے اگلے، یا اس سے اگلے، یہ احساس بدل جائے گا، یا ہاتھ سے نکل جائے گا۔

عبداللہ حسین مکالمہ نگاری کے فن سے خوب واقف ہیں پورے ناول کے اندر انہوں نے اپنے ہر ایک کردار کے منہ سے اس کی حیثیت، مقام اور مرتبے کے لحاظ سے الفاظ کی ادائیگی کروائی ہے۔ ناول سے ایک چھوٹا سا مکالمہ ملاحظہ فرمائیں۔ اسد اور یاسمین ایک دوسرے سے مخاطب ہیں!

        “رات کو میں نے تمہیں دیکھا تھا۔”  یاسمین نے کہا۔

        کب؟

        آدھی رات کے بعد کا وقت تھا، تم میز پہ بیٹھے لکھ رہے تھے۔

        کہاں سے دیکھا تھا؟

        باورچی خانے سے۔

        میں نے تمہیں نہیں دیکھا۔

        تم نے ادھر دیکھا ہی نہیں۔

        دیکھا تھا۔ باورچی خانے میں اندھیرا تھا۔ تم اندھیرے میں کیا کر رہی تھی؟

        پانی پینے گئی تھی۔

        کل رات تو سردی تھی۔

        ہاں۔

        تمہیں سردی میں پیاس لگی تھی؟

        ہاں۔

        اور وہاں تم نے کیا کیا؟ ”                     

اسلوب کسی بھی لکھاری کی پہچان ہوتا ہے۔ ناول کے اندر عبداللہ حسین کا اسلوب کھل کر سامنے آتا ہے وہ ایک صاحب اسلوب لکھاری ہیں۔ ان کی تحریروں میں ملی جلی زبان بھی موجود ہے۔ چاشنی بھی موجود ہے۔ ان کا یہ ناول بور ضرور ہے لیکن دلچسپی کے لحاظ سے اپنا ایک بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کو عمدگی کے ساتھ جوڑا اور بیان کیا گیا ہے۔ ہر واقعہ دلچسپ سے دلچسپ بنتا جاتا ہے۔ یوں پوری کہانی کے اندر Suspense کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے۔ قاری کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ قاری کی امید کچھ اور ہوتی ہے جبکہ ہر واقعہ کے نتائج کچھ اور انداز میں سامنے آتے ہیں۔ قاری چونک اٹھتا ہے اور ناول ایک ایسی ہی تحریر کو کہتے ہیں جو قاری کو چونکا دے۔ حکیم صاحب کا قتل ہونا اور ناول کے اینڈ تک قاتل کا سراغ نہ ملنا کافی بور کرنے والا قصہ ہےلیکن Suspense سے خالی نہیں۔ 

        شروع سے لے کر آخر  تک حکیم کے قتل کا معمہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ حکیم کے قاتل کا سراغ نہیں ملتا۔ لہذا اس معاملے میں شکوک شبہات کی زد میں تو کافی سارے لوگ آتے ہیں۔ لیکن وہ سب بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ قاری قاتل تک پہنچنے کے لئے پورے ناول کے تمام کاغذات کو پھولتا ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ بس ابھی اگلے ہی لمحے حکیم صاحب کے قاتل کا پتا چل جائے گا لیکن پوری کہانی ختم ہو جاتی ہے اور قاتل کا سراغ تک نہیں ملتا۔

 کردار کسی بھی ناول کی جان ہوتے ہیں اور پلاٹ میں کہانی کے علاوہ کرداروں کی موجودگی بھی بے حد اور لازمی طور پر ضروری ہوتی ہے۔ ناول میں کافی سارے ضمنی کردار بھی ہیں لیکن اس  کے مین کردارتین ہی  ہیں۔ (۱) اسد، (۲) یاسمین ، (۳) حکیم صاحب۔ انہی کرداروں کے گرد ہی پوری کہانی گھومتی ہوئی نظر آتی ہے اور شروع سے لے کر آخر تک یہ کردار ناول کی کہانی اور پلاٹ پر چھائے رہتے ہیں۔ شروع سے آخر تک کئی مقامات پر اسد گرتا اور سنبھلتا ہوا کہانی میں ایک انوکھے زاویہ کے ساتھ موجود ہے۔ عبداللہ حسین نے جس مقصد کے لئے اسد کو ایک کردار کے  طور پر پیش کیا ہے وہ بالکل کہانی میں فٹ بیٹھتا ہے۔ اسد پوری کہانی میں ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ اسد جب بھی سانس کے دورے میں مبتلا ہوتا ہے تو فرضی کہانیوں اور قصوں کی بازیافت میں پناہ لیتا ہوا نظر آتا ہے۔

عبداللہ حسین کی تحریروں اور اسلوب میں گولی باروداور جنگ  کا ذکر لازمی طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اداس نسلیں میں بھی انہوں نے ایک جنگی ماحول کو پیدا کیا تھا، اور اس ناول باگھ کے اندر بھی ایسی ہی  لڑائی کو انہوں نے اپنی تحریر میں جگہ دی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں!

” بارود والا آدمی چند سیکنڈ تک مزید وہاں کھٹ پٹ کرنے کے بعد واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گیا۔ افسر نے جھک کر بیٹری والے سے کچھ پوچھا اور پھر بائیں بازو کے آدمیوں کی جانب چلا گیا۔”

عبداللہ حسین کا یہ ناول “باگھ” قدرے ایک بور ناول ہے۔ صرف اور صرف کہانی کے اندر Romance اور Suspense دو چیزیں ہیں جن کے بہانے سے قاری اس ناول سے آخر تک جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ کردار آزاد ہیں۔ اسلوب آسان ہے۔ پلاٹ سادہ ہے اور مربوط بھی۔ کہانی کے اندر آسان الفاظ، تشبیہات، استعارات استعمال کیے گئے ہیں۔

عبداللہ حسین کے ناولوں میں دہشت اور جنگ کے حالات لازمی طور پر نظر آتے ہیں۔ اداس نسلیں ہو یا پھر ان کا ناول باگھ ہو۔ دونوں کے اندر جنگ اور دہشت جیسے حالات و واقعات کا ذکر ضرور نظر آتا ہے۔ ناول باگھ  سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں!

        “کل دو جہاز ہمارے گھر کے اوپر سے گزرے تھے۔ اتنے نیچے کہ آواز سے کان پھٹ گئے۔ سارا گاؤں نکل آیا تھا۔ فوج کی ناکہ بندی ہو رہی ہے۔ مشکل سے سرکار نے ایک دن کی اور مہلت دی ہے۔”                 

       اس ناول میں مصنف نے بہت ہی سادہ اور چھوٹے چھوٹے فقروں کااستعمال کیا ہے۔ تاکہ پڑھنے میں مشکلات درپیش نہ ہوں اور ایک فقرے کو دوسرے فقرے کے ساتھ باہم  مربوط کر دیا ہے۔ یہ ناول وسیع یعنی طویل ہونے کی صورت میں بھی سادہ اور آسان زبان میں ہے تاکہ پڑھنے والے آسانی سے پڑھ سکیں اور سمجھ سکیں۔ اس لحاظ سے اس ناول کا پلاٹ بہت ہی اچھا اور جاندار ہے۔

بات ہورہی ہے اسلوب کی تو محاورات بھی اس کے اسلوب کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ مصنف نے کہیں کہیں محاورات کے ذریعے مزاح کا عنصر بھی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ قاری اس کی رنگا رنگی کو بھی محسوس کر سکے۔ جیسا کہ یہاں مصنف نے پنجابی محاورے کا استعمال کر کے ایک چاشنی سی پیدا کر دی ہے:

’’اسد کا باپ کبھی کبھی خود بھی بچوں کے ساتھ کھیل میں شریک ہوتا اور اس محاورے کے استعمال ’’چیچوچیک مچولیاں دو تیریاں دو میریاں‘‘ کے ساتھ ہی نعرہ لگنے پر تلاشی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔‘‘

عبداللہ حسین کا یہ ناول جدید تقاضوں کو پورا کرتا نظر آتا ہے۔ طویل ہونے کے باوجود کہیں کہیں بوریت کا احساس ضرورہوتا ہے لیکن ایک Suspense کی کیفیت جو کہ شروع سے لے کر آخر تک رہتی ہے وہ اس میں موجود خامیوں کو بھی رد کر دیتی ہے۔ مصنف نے اس ناول میں تمام تکنیک کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ مصنف نے کرداروں سے مکمل انصاف برتا ہے کوئی بھی کردار بلاوجہ زیراستعمال نہیں لایا گیا۔ اس ناول میں جہاں انہوں نے معاشرے کی بہت سی برائیوں یعنی سماجی برائیوں کو قلمبند کیا ہے وہاں انھوں نے جیل میں مظلوم لوگوں کا بے جا استحصال بھی دکھایا ہے جو کہ معاشرے کی ایک گھناؤنی شکل ہے۔ اس طرح مصنف نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے لوگوں کو زندگی کی حقیقتوں سے بھی روشناس کروایا ہے اور کہیں کہیں رنگارنگی پیدا کرنے کے لیے رومانس کا بھی سہارا لیا ہے جو کہ آج کے دور کی ڈیمانڈ بھی ہے۔ باگھ کا لفظی مطلب ہوتا ہے ،شیر یا شیر ببر۔۔۔عبداللہ حسین نے باگھ کو ایک خوبصورت علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔۔ہمارے معاشرے میں صاحب اقتدار لوگوں اور جابر یت و آمریت کی عکاسی عبداللہ حسین نے لفظ “باگھ” سے کی ہے۔

تحریر امتیازاحمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]
ناول باگھ کا تنقیدی جائزہ 1