ہمارا معاشرتی خوف، الفریڈ نوبل اور منٹو

0

الفریڈ نوبل ایک بہت اعلی پائے کا صحافی تھا، وہ جنگ کے دنوں میں رپورٹنگ کرتا تھا۔ اس کی لفاظی اور تجزیات کے لوگ دیوانے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس کی تحریروں کا انتظار کرتے تھے۔ الفریڈ نوبل نے اچانک صحافت سے کنارہ کشی کرلی تو اس کے مداحوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اس سے صحافت چھوڑنے کی علت پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ صحافی کے لیے بے خوف ہونا بہت ضروری ہے، اور معاشرے کے لئے تو بے خوف ہونا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے، کئی صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، ان سے اپنی مرضی کی رپورٹنگ کروائی جاتی ہے، اور پریشر کی اس صورتحال میں کوئی بھی صحافی اپنا کام دیانتداری سے نہیں کر سکتا۔

جہاں تک معاشرے کے بے خوف ہونے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حقائق جیسے بھی ہوں صورتحال جیسی ہی کیوں نہ ہو معاشرے کو چاہیے کہ وہ ان حقائق اور نتائج کو تسلیم کرے۔ یہ افراد کے اندر کا خوف ہی ہے جو انہیں نتائج تسلیم کرنے سے باز رکھتا ہے۔

منٹو بھی ایک بے خوف شخص تھا اور معاشرے کو بے خوف دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ شاید آج بھی ہمارے دلوں میں وہی خوف ہے جو ہم ابھی تک منٹو کی شخصیت اور اس کی تحریروں کو تسلیم نہیں کر سکے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ منٹو نے اپنے موجودہ معاشرے کے لئے لکھا، جو کچھ اس نے محسوس کیا اسے بلا خوف کاغذ پر اتار دیا۔ منٹو ہی نے کہا تھا کہ میں افسانہ نہیں لکھتا بلکہ افسانہ مجھے لکھتا ہے۔ حیران کن بات ہے کہ جب منٹو نے اتنے برس پہلے اس وقت کے معاشرے کے لیے لکھا تھا تو وہ آج کے موجودہ معاشرے میں اپلائی”Apply” کیوں ہو رہا ہے؟ کسی زینب کی عزت سے کھیلا جاتا ہے تو ہمیں منٹو کی کوئی تحریر یاد آ جاتی ہے۔ موٹر وے سانحہ ہوتا ہے تو ہمیں منٹو کا کوئی افسانہ یاد آ جاتا ہے۔ کوئی امام مسجد کسی معصوم بچے یا بچی کو روند ڈالتا ہے تو ہمیں فوری منٹو کا کوئی افسانہ یاد آ جاتا ہے۔ ہمارے گلی بازاروں میں کسی طوائف کا ذکر ہوتا ہے تو ہمیں منٹو کا کوئی افسانہ یاد آجاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ منٹو ایک دور اندیش انسان تھا اس نے کچھ بھی بغیر سوچے سمجھے نہیں لکھا ہوگا۔

امریکی شاعرہ “مرئیل رکائسر” نے کہا تھا کہ یہ کائنات ایٹم سے نہیں بلکہ کہانیوں سے بنی ہوئی ہے۔ کہانیاں افسانے ہمیں نہ صرف معاشرے میں رائج رجحانات کے بارے میں بتاتے ہیں، بلکہ یہ تاریخی واقعات اور حالات کو بیان کرنے کے لیے ایک ایسی بہترین صنف ہے جس کے ذریعے ایک افسانہ نگار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسی ایسی شاہکار تحریروں کو جنم دیتا ہے، جن کا اثر صدیوں تک جاری رہتا ہے۔ کبھی یہی افسانے تمثیل میں لکھے جاتے ہیں تو کبھی تلخ حقائق کو نرم الفاظ کا لبادہ پہنا کر بیان کر دیا جاتا ہے، اور ایک شاہکار افسانہ قاری پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ منٹو نے کہا تھا کہ معاشرے کے تاریک پہلوؤں سے پردہ اٹھاتی میری تلخ کہانیوں میں اگر آپ کو جنسی لذت نظر آتی ہے تو یقیناََ آپ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ وہ خود تو شراب پیتے تھے، پان چباتے اور سگریٹ سلگاتے تھے۔ مگر ان کے افسانے نہ تو پان چباتے ہیں نہ ہی شراب پیتے ہیں۔ بلکہ وہ ایسا سچ بیان کرتے ہیں جو ہم سے ہضم نہیں ہوتا۔

ہم لوگ انہیں صرف ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ عدالتیں فحش نگار کی حیثیت سے اور حکومت انہیں ایک کمیونسٹ کی حیثیت سے جانتی تھی۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر ہم منٹو کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ان کے افسانے: “کھول دو” “بو”، “ٹھنڈا گوشت” وغیرہ ہی کا خیال آتا ہے۔ “سہائے” اور “ممد بھائی” بھی تو منٹو ہی کے افسانے ہیں۔ یہ ہماری آنکھوں سے اوجھل کیوں ہو جاتے ہیں۔ 

سہائے میں انہوں نے ایک دلال کی ایمانداری دکھائی اور ممد بھائی میں انہوں نے ایک غنڈے کے ہاتھوں اپنی رعایا “اس کے ایریا کے لوگوں” کی دیکھ بھال، ان کے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے مناظر دکھائے ہیں۔ منٹو نے ایک طوائف کے باطن سے نیک، پارسا اور رحم دل عورت کو باہر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ایک دلال کی ایمانداری دکھانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن  ہم  بقول  منٹو! ذہنی  بیمار  ہیں۔ ہمیں  ایک  طوائف ناچتی  ہوئی  تو  نظر  آ  سکتی  ہے، لیکن  اس  کے  اندر  کی  نیک،  پارسا اور رحم  دل  عورت  کبھی  نظر  نہیں  آئے  گی۔

دراصل منٹو  نے  جنسی  مسائل  کی  وجوہات ہمارے  سامنے  رکھنے  کی  کوشش  کی  ہے  اور  ہم  نے  اسے  فحش نگار  کا  خطاب  دے  ڈالا، منٹو نے انسان  کا  نفسیاتی  تجزیہ کرنے  کی  کوشش  کی  اور  ہم  نے  اسے  ننگا  کر دیا۔ میں حیران  ہوں  کہ  ایک طرف  تو  ہم  جنسیت پر تبلیغ  کرتے  ہوئے  نظر  آتے  ہیں اور  دوسری  طرف  ہم  منٹو  کے  وہی  افسانے  چھپ  چھپ کر  پڑھتے  ہیں جن  کی  بنیاد پر  ہم  منٹو  کو  فحش  نگار  کہتے  ہیں، یا جن  پر  مقدمات  چلائے  گئے۔ ایک  طرف  تو  ہم عصمت چغتائی کے افسانے “لحاف” اور “کنواری” پر تنقید کرتے  ہیں  جبکہ  انہی  افسانوں  کو  ہم  سب  سے  پہلے  پڑھنے کی  کوشش بھی  کرتے ہیں۔

مطلب منٹو  نے  سچ  کہا  تھا  کہ ہم  ذہنی  بیمار  ہیں، ہم جنسی  لذت  کو  پسند  کرتے  ہیں۔ انہیں کیا  پڑی تھی ایسے  ایسے  کڑوے  سچ  لکھنے  کی کہ جسے  پڑھنے  کے  بعد  لوگ اپنے  دانت  پیسنے  لگیں  اور  منہ  بسور  کر منٹو  پر گالیوں  کی  بوچھاڑ  کر دیں۔ اس  کی  وجہ  یہ  ہے  کہ  اگر  کسی  لکھاری  یا  ادیب  کا  دل اس  کے  معاشرے  میں  ہونے والے ظلم و ستم، نا انصافی  اور  دوغلے  رویوں  پر بھی  حرکت  میں  نہیں  آتا  تو  اس  سے  بہتر  ہے  کہ  وہ  کوئی  کاروبار  کر لے۔ ان  کے  افسانوں کو صرف  فحاشی  کی  نظر  سے  دیکھا  جاتا  ہے۔ مگر  وہ  درحقیقت  انسان  کے  سماجی، نفسیاتی  اور جنسیاتی مسائل کے بارے میں ہمیں  بتانا  چاہتے  ہیں  جو انسان  کی  پیدائش  سے  لے  کر مرنے  تک  اس کے ساتھ  لپٹے رہتے  ہیں۔  اگر منٹو ان  مسائل  پر  لکھتا  ہے  تو  معاشرہ  اسے  سازشی قرار  دیتا  ہے، مگر  کیا  ادب  زندگی  کی  کوکھ  سے جنم نہیں لیتا؟ کیا  انسانی  زندگی ان  تمام  مسائل  میں  گھری  ہوئی  نہیں  جن  کا  سامنا  کرتے  ہوئے  عمر  بیت  جاتی  ہے۔ ہم  کب  بے  خوف  ہوں  گے؟

تحریر امتیاز احمد 
[email protected]
ہمارا معاشرتی خوف، الفریڈ نوبل اور منٹو 1