چکنی روٹی

0

رضیہ کی زندگی میں یہ مسلسل ساتواں قحط تھا۔ وہ چالیس سالوں میں کئی چھوٹے بڑے قحط دیکھ چکی تھی مگر موجودہ” آٹے کا قحط “اپنی نوعیت کے اعتبار سے یکسر مختلف تھا۔ اس کی شادی محض آنکھوں کا دھوکہ تھا یعنی اس کا جسم ایک جھونپڑی سے دوسری جھونپڑی میں منتقل کیا گیا تھا، خوشیاں ، غم، سوچ اور تمدن ابھی بھی پہلے جیسے ہی تھے۔ اس کا خاوند (محکوم) بندرناچ سے روزی روٹی کماتا تھا اور کئی کئی دن تک وہ دور دراز علاقوں سے واپس نہیں آتا تھا۔ “سدا سکھ ” گاؤں کی بائیں طرف نہر کے پل کے پاس رضیہ کی ایک سرخ رنگ کی جھونپڑی (جسے اچھی طرح کھینچ کر باندھا گیا تھا) پوری آب و تاب کے ساتھ کھڑی تھی۔ گاؤں کا چودھری اکثر ادھر سے گزرتا تو گھوڑی کو پانی پلانے کی غرض سے وہاں رک جاتا۔ رضیہ کے تیکھے نین نقش چودھری کے دل میں کھب چکے تھے۔

رضیہ بھاری بھرکم جسم میں پھنسی ہوئی نظر آتی۔ اس کی کالی رنگت میں نمکین حرارت کسی بھی بے قرار کو قرار مہیا کرنے کا موجب بن سکتی تھی۔ اس کے ابھرے ہوئے کولہے، کالے گلاب کی طرح نترتے ہوئے گال ، تراشا ہوا پیٹ، موٹی رانیں اور سخت پنڈلیاں کسی بھی بھٹکے ہوئے گنوار کو سدھار سکتی تھیں۔ چمکیلی آنکھوں کی مقناطیسی کشش چودھری پر آخری وار ثابت ہوئی اور وہ اپنا دل ہار بیٹھا۔

رضیہ کے بچے کئی دنوں سے بھوکے تھے۔ آٹے کا بحران اس دفعہ شدید تر تھا۔ سرکاری ٹرک بھی جو آٹا لے کر آتے وہ میونسپل کمیٹی کے ممبران اور چودھری کی ملی بھگت سے مخصوص لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ۔ رضیہ نے کئی دفعہ لائن میں لگ کر آٹا حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن جب اس کی باری آنے لگتی آٹا ختم ہونے کی آواز اس کے کانوں میں دھنسائی جاتی۔ مسلسل بھوک کے سبب رضیہ کے بچوں کی آنکھیں اند کو دھنس چکی تھیں۔ کبھی کبھار انہیں بچا کھچا کھانہ مل جاتا تو اسے من و سلویٰ سمجھ کر کھا لیتے اور پھر پہروں تک وہ کھانے سے محروم رہتے ۔ ایک رات بچے بھوک سے نڈھال تھے اور ان کی ماں نے پانی سے پھری پتیلی چولہے پر رکھ دی۔ بچوں کو وہم ہوا کہ کوئی بلا پک رہی ہے اور کچھ ہی دیر بعد وہ ایک دفعہ پھر سے سیر ہو کر کھا لیں گے۔ مسلسل پانی پی پی کر ان کے پیٹ کسی حاملہ عورت کی طرح لگ رہے تھے۔

رضیہ بے بس تھی اور خود بھی بھوک سے اس کا سر چکرا رہا تھا لیکن اس کی مامتا اسے اندر ہی اندر ایک اجنبی اور قوی حوصلہ دے رہی تھی ۔ آدھی رات ہو چکی تھی۔ دور دور تک آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ بچے سو سکنے کے قابل نہیں تھے۔ ان کی آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی تھیں۔ رضیہ کا ماتھا ٹھنک چکا تھا کہ آج کی رات بہت بھاری ثابت ہوگی۔ وہ عرصہ دراز سے چکنی مٹی کی تندوریاں بنا کر بیچتی اور لوگوں سے ان کے عوض گندم، چاول اور نقدی وصول کرتی۔

اس نے آس پڑوس سے کھانا مانگا لیکن اس کی شنوائی نہ ہوئی ۔ بعض دروازوں پر صدا لگائی لیکن کوئی بھی در وا نہ ہوا۔ اس نے چکنی مٹی میں ڈھیر سارا نمک ڈال کر اسے گوندھنا شروع کردیا۔ اندھیرے میں بچوں نے ماں کو آٹا گوندھتے ہوئے پایا تو ان کا خون بڑھنے لگا۔ اس نے کوئلوں پر چکنی مٹی کی روٹیاں ڈالنا شروع کردیں۔ بچے روٹی کی طرف لڑھکے اور لال کالی روٹی چبانے میں مصروف ہوگئے۔ پانی کی ان کے گھر میں کمی نہیں تھی اس لیے انھوں نے ایک دفعہ پھر وافر مقدار میں پانی پیا۔ کچھ ہی دیر ہوئی کہ بچے نوابی نیند کی آغوش میں یوں مسکرا رہے تھے جیسے پریاں انہیں لوریاں سنا رہی ہوں۔ ماں ایک لمبے عرصے بعد بچوں کو یوں سوتے دیکھ کر، بغیر کھانا کھائے ، یوں نظر آرہی تھی کہ جیسے اس کی آنکھیں رج گئی ہوں۔

اس نے رات بچوں پر جاگ کر کاٹی۔ اندھیرا کچھ ناراض ہوا تو وہ اٹھ کر سیدھا گاؤں میں داخل ہوگئی۔ چودھری کے گودام گندم سے بھرے ہوئے تھے وہ اپنے اور اس سے ملحقہ جتنے بھی گاؤں تھے، وہاں کے کسانوں نے اپنی طے شدہ قیمت پر گندم خرید لیتا اور اسے ذخیرہ کر لیتا۔ اولاد جیسی نعمت سے محروم تھا اور اس کی بھاگ بھری بھی اللہ کو پیاری ہو چکی تھی۔رضیہ نے سب سے پہلی دستک چودھری کے دروازے پر دی اور اسے اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ چودھری شراب کے نشے میں دھت تھا۔ وہ اس کے بدن کی خوشبو سے واقف تھا۔ ایک دوپہر جب وہ رضیہ کی جھونپڑی والے راستے سے گزر رہا تھا تو اس نے دھوپ میں لٹکایا ہوا بلاؤز اٹھا لیا تھا ، جسے ناک کے لیے اکسیر سمجھ کر اس نے کئی دفعہ ناک کے ساتھ لگایا تھا۔ رضیہ اس کی ادھوری حسرت تھی۔

وہ اس سمے خود کو سات جہانوں کا خوش قسمت خدا سمجھ رہا تھا۔ رضیہ نے چند سیر گندم کا سوال کیا اور اپنے سوال کا جواب لینے اس کے ساتھ اندر چلی گئی۔ واپسی پر وہ خوش تھی اور اس کی باچھیں کھل رہی تھیں کہ اسے دو کلو آٹا نصیب ہوا ہے۔ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ چودھری نے اس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں بند کرلیا ہے۔وہ سینہ چوڑا کرکے چل رہی تھی کہ آج اس کے بچے گندم کی روٹی پیٹ میں اتاریں گے۔ ماں بچوں نے ناشتہ کیا اور رضیہ ہاتھ آسمان کی طرف لہرا کر خدا کا شکر بجا لانے لگ گئی۔

دو چار دن ہی گزرے ہوں گے آٹے کا قحط مزید خطرناک ہوگیا۔ بچے بھوک سے مرنے لگ گئے۔ گاؤں کا قبرستان پکی سڑک کے کنارے پر تھا۔ لوگ بارش میں بچوں کی لاشیں اٹھائے قبرستان میں داخل ہو رہے تھے۔ ان کے منہ پر بھوک کے آثار واضح تھے، لیکن وہ خوش تھے کہ انہیں قبرستان میں داخل ہونے کے لیے پکی سڑک دستیاب ہے۔ اس سے پہلے سڑکیں کچی تھیں اور ہلکی پھلکی بارش کے دوران میں ہر طرف پھسلن ہی پھسلن ہوتی۔ کئی لوگوں کے بازو اور ٹانگوں کی ہڈیاں پھسلن کے کارن ٹوٹ چکی تھیں۔ لواحقین اپنے مستقبل کے سہاروں کو دفنانے میں جتے ہوئے تھے اور دوسری طرف گاؤں کے لوگ صاحب ثروت لوگوں کے گھروں سے آٹا چوری کرنے میں مشغول تھے۔ اس لوٹ مار کے عالم میں جس کے ہاتھ جو لگا اس نے اس پر اپنی ملکیت کی مہر ثبت کرلی ، معمولی مزاحمت پر سرتن سے جدا کردیا جاتا۔

رضیہ چوری یا ڈاکے کے قابل نہیں تھی۔ صنف نازک تھی اور ویسے بھی کئی روز کی بھوک نے اسے مزید نازک کردیا تھا۔ رضیہ اور اس کے بچوں کے کپڑے پھٹے پرانے تھے اور پاؤں بھی جوتوں سے محروم تھے۔ گاؤں میں قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ اس نے بچوں کا جہنم بھی بھرنا ہے اور محکوم “بندرناچ” دکھاتے دکھاتے کسی نامعلوم دھرتی پر جا چکا ہے۔ اس کے آنے کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ کسی کو بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہے یا لقمہ اجل بن گیا ہے۔ رضیہ کا ایک بچہ گونگا ہے اور وہ باقی بچوں کی نسبت کچھ تگڑا بھی ہے۔ وہ قبرستان والی پکی سڑک پر ننگے پاؤں چل رہی تھی۔ اس نے گونگے کے پاؤں پر ٹاکیاں باندھ رکھی تھیں۔ اسے نہیں معلوم کہ اسے فی الحال کہاں جانا ہے، اسے روٹی چاہئیے۔ اس کی قمیض کندھوں اور سینے سے پھٹی ہوئی ہے۔ سر ننگا ہے اور کندھے پھٹی قمیض سے باہر گر رہے ہیں۔

اس کے پاؤں کی لمبی انگلیوں سے خون رس رہا ہے۔ سر کے بال ایک دھاگے سے بندھے ہوئے ہیں اور انہوں نے کولہوں کو مکمل طور پر ڈھانپ رکھا ہے۔ ہاتھ چکنی مٹی میں لپٹے ہوئے ہیں۔ سڑک گاؤں سے بہت دور نکل چکی ہے۔ سنسان سڑک پر کوئی اکا دکا تانگہ نظر آجاتا اور سواریوں میں سے کچھ لوگ اس کے کندھے دیکھ کر ہکا بکا رہ جاتے ۔ اب تھوڑی دور سے سڑک اچانک اوپر کو ابھرتی ہوئی نظر آنے لگ گئی تھی۔ چڑھائی دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے خدا تک پہنچنے کا ذریعہ ہو، اس چڑھائی سے اترتے ساتھ ہی سڑک کے بالکل اوپر دائیں طرف سفید رنگ کی بلند و بالا قبریں نظر آنے لگ گئیں۔ ان قبروں کے اوپر سبز رنگ کی خطاطی ایک الگ ہی منظر پیش کر رہی تھی۔

چند کھلی ہوئی کھڑکیوں پر سفید رنگ کے کفن لہرا رہے تھے۔ ہر قبر کے دروازے پر ناگ پھنکار رہے تھے۔ ہر ناگ کے دانت منہ سے باہر نکلے ہوئے تھے ۔ ان بلند و بالا اور عالی شان قبروں کو ایک وسیع اور دبیز دیوار نے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ ہر قبر کے ساتھ ایک برگد کا درخت لگا ہوا تھا ان درختوں پر سے روتے ہوئے پرندوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ رضیہ کا بچہ تھک چکا تھا جسے اس نے اٹھا کر سینے سے لگا رکھا تھا۔ ان دونوں کا بھوک سے برا حال تھا لیکن بلند و بالا قبریں دیکھ لینے کے بعد کچھ تسلی بھی ہوگئی تھی کہ شاید یہاں سے کچھ کھانے کو مل جائے۔

وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کسی قبر پر دستک دے لیکن ایک عجیب منظر اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا ۔ وہ کچھ دیر کے لیے وہاں رکی اور آنکھیں بند کر کے دوسری دنیا میں داخل ہوگئی۔ اب اسے آنے والا وقت نظر آ رہا ہے۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ ان بڑی بڑی قبروں سے کچھ فرشتہ نما آدمی اس پر لپک رہے ہیں۔ ان کی زبانیں منہ سے باہر ہیں اور منہ سے ایسی رالیں ٹپک رہی ہیں جیسی باؤلے کتوں کے منہ سے گرتی ہیں۔

سب کی سفید داڑھیاں ہیں اور سفید ہی کفن ہیں۔ اچانک ان کے چہرے زخمائے ہوئے نظر آنے لگ گئے۔ رضیہ کچھ سال پہلے کے خوفناک منظر میں قدم رکھتی ہے جہاں وہ ایک کارخانے میں ملازم تھی۔ اسی طرح وہاں بھی سفید داڑھیوں والے لوگوں نے اس کی عصمت کی دیوار کو گرایا تھا۔ تب آٹے اور روٹی کا بحران تو نہیں تھا لیکن اس کا حصول قدرے مشکل تھا۔ رضیہ ایک الہڑ مٹیار تھی اور اپنے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کی غرض سے فیکٹری میں آئی تھی۔

ابھی چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ اس کی عزت پر حملہ ہوگیا۔ اس نے مزاحمت کے دوران دو آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس کیس میں اس نے عدالت عالیہ سے سزا بھی پائی اورپوری ایمان داری سے اس سزا کو مکمل کیا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اسے کس طرح مردانہ تھانے میں کئی راتوں تک رکھا گیا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ وہ حاملہ تھی ، اسے آٹھواں مہینہ تھا اور بڑی توند والے تھانیدار نے پوری رات اس پر بجلیاں گرائیں۔

اس بار وہ مزاحمت کرنے کے قابل نہیں تھی، اس نے اچانک آنکھیں کھول دیں۔ اس کے سامنے کوئی وجود نہیں تھا بس وہی بلند و بالا قبریں سینہ تان کر کھڑی تھیں ۔ اس نے وہاں لگے گھنٹے کو زور سے ہلایا۔ ہر قبر میں سے ایک بڑی سفید داڑھی والا صوفی اس کی طرف لپکا۔ وہ ڈری نہیں بلکہ “بھوکی ہے” کی صدا لگائی۔ ان کے منہ رالیں پھینک رہے تھے بالکل وہ منظر تھا جو اس نے کچھ دیر پہلے دیکھا تھا۔ ان کی رالیں ان کی سفید داڑھیوں پر گر رہی تھیں۔ رضیہ نے ان کے پیٹ کی بھوک مٹائی اور کچھ بدبودار کھانا پالینے کے بعد اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھر آئی۔ اس نے واپسی پر ایک قبر سے کفن نکالا اور اپنے جسم کو ڈھانپ لیا۔ کفن کے اس ٹکڑے سے بھی بدبو آرہی تھی لیکن کندھے ڈھانپنے بے حد ضروری تھے۔

وہ اسی سڑک پر چل رہی تھی ۔ کڑی دھوپ نے اس کے سانسوں کی حرکت کو تیز کیا ہوا تھا۔ اس کی زبان باہر آ رہی تھی۔ ہر طرف ہو کا عالم تھاکوئی ذی روح اسے نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ اپنی جھونپڑی کی طرف واپس جانا چاہ رہی تھی اسے اپنے بچوں کا رہ رہ کر خیال آ رہا تھا۔ ان کی بھوک کی فکر اسے مسلسل مضطرب کیے جا رہی تھی۔ اس کے پاس سے ایک دو تانگے گزرے لیکن کرایہ نہ ہونے کے سبب وہ سفری راحت حاصل نہ کرسکی۔ ایک کھیتی میں ٹیوب ویل چل رہا تھا اس نے وہاں سے پانی پیا اور واپس سڑک کی طرف جانے لگی۔

اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے کی دنیا گھومنے لگی۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے اسے پر لگ گئے ہوں۔ اس کے پاؤں زمین پر ہی تھے لیکن وہ مسلسل اڑ رہی تھی ۔ وہ دھڑام سے نیچے گری اور بے سدھ زمین پر پڑی تھی۔ پاس ہی گند م کیی کٹائی پر لگی کچھ سکھ اور ہندو عورتیں بھاگ کر اس کی طرف آئیں۔ انہوں نے اسے اچھی طرح دیکھا اور دو عورتیں ایک چادر تان کر سڑک کی طرف کھڑی ہوگئیں۔ اب کی بار رضیہ کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی لیکن رضیہ بے ہوش پڑی تھی۔ وہ انہیں اٹھا کر آم کے پیڑ کے نیچے لے گئیں۔

نومود بچی اور گونگا بھوک سے بلک رہے تھے۔ ان غیر مذہب عورتوں نے انہیں کپڑے اور کھانے پینے کی چیزیں مہیا کیں۔ تھوڑی دیر بعد رضیہ نے ہوش میں آنا شروع کردیا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کا پورا بدن سن تھا اور وہ چاہ کر بھی حرکت نہیں کر پا رہی تھی۔ ان عورتوں نے اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ ٹیوب ویل کی دوسری طرف سفید داڑھیوں والے کچھ بزرگ کھیتی باڑی میں مصروف تھے ، انہوں نے یہ ساری صورت حال دیکھی اور لا حول ولا قوۃ پڑھتے ہوئے خاموش ہوگئے۔

رضیہ خوش تھی کہ اس کی ایک وقت کی بھوک مٹ چکی تھی۔ اس نے سامان اٹھایا اور اپنی جھونپڑی کی طرف چل دی۔ سفید داڑھیوں والے بزرگ اس پر آوازیں کس رہے تھے۔ طعنہ زنی کر رہے تھے کہ بے شرم عورت تجھے شرم نہ آئی غیر مذہب عورتوں سے کھانا اور کپڑے لیتے وقت؟ تو کافر ہے، تجھے مرجانا چاہئیے۔ تم جیسی عورتیں ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔ رضیہ کو بچوں کی بھوک کی فکر تھی۔ وہ اوجھل قدموں سے جھونپڑی کی طرف جارہی تھی۔ اس کی جھونپڑی کچھ ہی فاصلے پر تھی۔

وہ اپنے درد کی شدت کو بھلا چکی تھی۔ جھونپڑی میں پہنچی تو بچے مرنے کے قریب تھے۔ اس نے انہیں پانی پلایا اور تھوڑا تھوڑا کھانا بانٹ کر دے دیا۔ ادھر گاؤں میں لوگ بھوک سے مر رہے تھے۔ چودھری اس دفعہ بھی گندم خرید کر گودام بھر رہا تھا۔ مسلسل بھوک نے اسے اندر سے بالکل خشک کردیا تھا ۔ نومولود بچی کے لیے اس کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اتر رہا تھا۔ اب اسے پیٹ بھرنے یا بھوک ختم کرنے کے لیے کھانا نہیں چاہئیے تھا بلکہ چھوٹی بچی کا جہنم بھرنے کے لیے خوراک کی ضرورت تھی۔ وہ گاؤں میں داخل ہوئی اور سیدھی ڈھابے پر گئی۔ اس نے بچی کے لیے دودھ کی بھیک مانگی۔ اسے بھیک کے بدلے بھیک ملی تھی اور وہ اس عنایت پر بھی معترض نہیں تھی۔

رضیہ جھونپڑی میں پہنچی تو آسمان پر ہر طرف سرخی چھا گئی۔ کچھ دھندلے عکس اس کی اندر دھنسی ہوئی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ کسی اجنبی جگہ پر اس کا خاوند روٹی چوری کرنے کے الزام میں وحشیانہ تشدد کر کے ماردیا گیا ہے۔ اس کے جسم کی سبھی ہڈیاں بے رحمی سے توڑی گئی ہیں۔ اس کے جھونپڑی میں سوئے بچے بھی ابدی نیند سو چکے ہیں۔ تیز ہوا کا طوفان حملہ آور ہو چکا ہے۔ اس کی جھونپڑی میلوں دور آنکھوں سے پرے جا پہنچی ہے۔ کالی رات میں تیز بارش اور ژالہ باری ہو رہی ہے۔ وہ اپنی جگہ پر پاؤں کے بل ساکت بیٹھی ہے۔ بچی کو چھاتی کے ساتھ لگا رکھا ہے۔ سردی کی شدت سے بچانے کے لیے اس نے اپنی قمیض اتار کر بچی کو ڈھانپ لیا ہے۔ صبح اس کے ارد گرد اوباش نوجوان کھڑے ہیں۔ بچی نے چھاتیاں منہ میں لے رکھی ہیں اور نوجوان رضیہ کی اکڑی ہوئی کمر کی نرمی سے محظوظ ہو رہے ہیں۔

تحریر امتیاز احمد