ناصر کاظمی کی کتاب ‘پہلی بارش ‘ کا فنی و فکری جائزہ

0
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر 
اداسی بال کھولے سو رہی ہے 

ناصر کاظمی جن کو میر ثانی بھی کہا جاتا ہے، 8 دسمبر1925 کو انبالہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ ان کی شاعری کے آغاز میں سب سے بڑا ہاتھ ان کے گھر کی فضا اور اس ادبی ماحول کا ہے جس میں ناصر نے اپنا بچپن، لڑکپن اور جوانی گزاری۔ کہتے ہیں کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے ناصرکی والدہ کو شاعری سے گہرا شغف تھا اور وہ فن شاعری سے بخوبی واقف تھیں۔ ناصر نے اپنی ماں کی گود سے ہی شاعری کا درس لیا۔ ناصر اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں: 

“شاعری میں میراصحیح استاد میری والدہ  تھیں اور ویسے آغاز میں  کچھ احباب سے مشورے بھی لیتا رہا رہا ہوں اور حفیظ ہوشیار پوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔”

ناصر کاظمی کی والدہ جو کہ میر تقی میر اور میر حسن کو پڑھایا کرتی تھیں لہذا اسی بنیاد پر ناصر کاظمی نے بھی میر تقی میر اور اختر شیرانی کی پیروی اور تقلید کی۔ ناصر کاظمی نے چونکہ میر تقی میر اور اختر شیرانی کا گہرا مطالعہ کیا تھا اسی لئے ان کی شاعری کے اندر میر تقی میر اور اختر شیرانی کی خوشبو رچی بسی ہوتی ہے لیکن یہاں یہ بالکل بھی نہیں کہا جا سکتا ہے میرکی 100 فیصد پیروی کی، ہاں البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ناصر کی شاعری میں میر تقی میر اور اختر شیرانی کی شاعری کی جھلک اور رنگ ہے۔ ان کے مختلف مجموعے منظر عام پر آئے جن میں (۱) برگ نے  (۲) دیوان (۳)  پہلی بارش (۴) نشاط خواب، انتہائی اہم ہیں۔

 “برگ نے” اور “دیوان” میں ان کی غزلیات شامل ہیں “نشاط خواب” میں ان کی ملی اور قومی نظمیں شامل ہیں۔ ناصر نے جس زمانے میں شعور کی آنکھیں کھولیں وہ غزل کےلئے ایک سازگار زمانہ نہ تھا۔ ترقی پسند تحریک کا آغاز ہو چکا تھا اور چہار جانب سے غزل پر حملے کیے جا رہے تھے۔ ناصر کاظمی نے لوگوں کی نبض دیکھی اور کوشش کی اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ لوگ غزل سے نفرت کیوں کرنے لگ گئے ہیں اور آخرکار ناصر کاظمی اس نتیجے پر پہنچے کہ لوگوں کو غزل سے کوئی نفرت نہ ہے بلکہ غزل کے پرانے موضوعات سے نفرت ہے۔

اس وقت غزل کی ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش میں پہلے سے ہی دو بہت بڑے نام شامل تھے۔ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی ان کے بعد ناصر کاظمی نے غزل کے اندر نئی فکری تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ غزل کو نئے موضوعات سے ہم آہنگ کرنا شروع کر دیا غزل کی ہئیت کو بھی متاثر کیا جس میں چھوٹی بحر کی غزل بغیر قافیہ کی غزل اور بغیر ردیف کے غزل کے علاوہ بغیر مقطع کی غزل بھی شامل ہے۔

اسی طرح ناصر کاظمی نے غزل کے اندر نئی فکری اور فنی تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے غزل کو کھویا ہوا وقار واپس دلوایا اور اس کے ساتھ ساتھ کلاسیکیت اور جدیدیت کے امتزاج کی مدد سے نئی اور جدید غزل کی بنیاد رکھی۔

یہاں پر مقصود ہے کہ ان کی “پہلی بارش” جو کہ 24 غزلوں کا مجموعہ ہے اس کا فنی و فکری جائزہ لیاجائے “پہلی بارش” ایک طویل نظم کے آہنگ میں لکھی گئی تھی اور غزل در غزل مجموعہ ہے۔ اس میں ایک ہی قافیہ، سہل ممتنع اور چھوٹی بحر کا استعمال کیا گیا ہے۔غزل در غزل کے اس مجموعہ کلام کے اندر ناصر کاظمی نے ایک نیا تجربہ کیا ہے اس میں تمام غزلیں چھوٹی بحر میں لکھی گئی ہیں ان کی زبان انتہائی سادہ، سادہ تشبیہات آسان استعارات کے علاوہ انتہائی عمدہ تلمیحات کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔

آئیے غزل در غزل کے اس مجموعہ کا کلی طور پر فنی اور فکری جائزہ لیتے ہیں!

پہلی بارش کے مجموعہ کی اگر پہلی غزل کا جائزہ لیا جائے تو ناصر کاظمی کی شاعری میں تصوف ایک فکری خوبی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ناصر کاظمی کہتے ہیں کہ: 

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
 پہلے تیرا نام لکھا تھا
جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا ہے وہ بھی تیرا تھا 

ناصر کاظمی یہاں کہنا چاہ رہے ہیں کہ اے میرے مولا میں نے تیرے ہی نام سے لکھنا شروع کیا تھا تیرا ہی نام سب سے پہلے لکھا تھا تیری ہی مداح کی تھی اور اگلے شعر میں وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں تیری رضا میں خوش ہوں اپنی رضا کو تیری رضا میں شامل کرتا ہوں ہر چیز تیری ہے جسے ہم پالیں یا پھر کھو دیں اور کسی بھی چیز کو کھونے سے ہمیں تیری ذات سے کوئی گلہ نہیں ہے۔

ناصر کاظمی کی شاعری میں روحانی محبت جسمانی محبت سے اعلی درجے پر فائز نظر آتی ہے ان کے نزدیک محبت دو روحوں کے ملاپ کا نام ہے وہ اپنے محبوب کی روحانی انداز میں سراپا نگاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں محبوب کو ایک اعلی درجے کی چیز سمجھنا ناصر کی اعلیٰ فکر کی عکاسی کرتا ہے۔

۲؎ دو روحوں کا پیاسا بادل
گرج گرج کر برس رہا تھا
(پہلی بارش، ص: ۲۹)  [۲]

ناصر کے نزدیک محبت ایک روحانی جذبے کا نام ہے۔ وہ اپنی خواہشات کو روحانی پیرائے میں اس طرح سامنے لاتے ہیں کہ جیسے ان کی خواہش میں شامل ہے کہ دو روحوں کا ملاپ ہو جائے۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں ایک اور فنی پہلو بھی ہے کہ وہ اپنی شاعری کے اندر نیچر کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اکثر دریا، پہاڑ، درخت، پرندوں، ندی نالوں، ریل گاڑی، کبوتر، ہریالی، چاند، سورج، ستارے، رات، دن، اجالا اور موسم، اسی طرح کے کئی الفاظ سامنے آتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ناصر کاظمی کو فطرت سے خصوصی انس اور لگاؤ تھا۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں کبوتر اور ریل گاڑی کا ذکر زیادہ ملتا ہے کیونکہ ان کو بچپن میں ریل گاڑی دیکھنے کا بہت شوق تھا اور اس کے علاوہ انہوں نے کبوتر بھی رکھے ہوئے تھے۔ قدرتی طور پر ان کو کبوتر بہت پسند تھے جس کا اظہار ان کی پہلی بارش کے اندر غزل نمبر تین میں واضح طور پر کیا گیا ہے ہے!

۳؎  لال کھجوروں کی چھتری پر
سبز کبوتر بول رہا تھا۔
(پہلی بارش، ص: ۳۱) [۳]

ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری میں ایک بے وجہ سی اداسی بھی پائی جاتی ہے۔ وہ اس اداسی میں داخل ضرور ہوتا ہے لیکن اداسی کو اپنے سر پر سوار نہیں ہونے دیتا۔ ناصر کاظمی نے اداسی اور ویرانی کو اپنی فکر کے اندر سمونے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس لئے اداسی اور ویرانی ان کی شاعری کا ایک اہم فکری پہلو بن کر سامنےآتی ہے۔ ناصر کاظمی ہی  کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں!

۱؎  دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

اس کے علاوہ ناصر کی اداسی اور ویرانی کے فکری پہلوؤں کو ان کی غزل نمبر چار کے یہ اشعار بیان کرتے ہیں:

؎ شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
پیڑوں پر سونا بکھرا تھا
جنگل جنگل، بستی بستی
ریت کا شہر اڑا جاتا تھا
تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چور ہوا تھا
(پہلی بارش، ص: ۳۲)  [۴]

ناصر کاظمی کی شاعری میں یہ بھی ایک فن موجود ہے کہ وہ کسی بھی چیز کا نقشہ کھینچ کر ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پہلی بارش کے اندر بھی ان کی محاکات نگاری جگہ جگہ ہمارے سامنے آتی ہے۔ وہ تمام چیزوں کی محاکات نگاری انتہائی سادہ اور دلچسپ انداز میں کرتے ہیں۔ قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ ساری صورتحال اور ماحول کے اندر خود بھی شامل ہو چکا ہے اور پورے ماحول کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہا ہے۔ پہلی بارش مجموعہ کی غزل نمبر 5 کے درج ذیل اشعار اس بات کو سمجھنے میں کافی ممدون ہیں:

۱؎  دن کا پھول ابھی جاگا تھا
دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا ہے
ٹھنڈی دھوپ کی چھتری تانے
پیڑ کے پیچھے پیڑ کھڑا تھا
(پہلی بارش، ص: ۳۳-۳۴)  [۵]

پہلی بارش کے ان اشعار میں ناصر کاظمی کا فن کھل کر قاری کے سامنے آتا ہے اور قاری اس ساری صورتحال سے محظوظ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک فکری پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے 22 سال کی عمر میں ہجرت کی اور اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف آ گئے۔ اس وقت کیونکہ شہروں کے شہر خاموش نظر آتے تھے، گلیاں ویران نظر آتی تھیں،کوچے بے رونق اوران میں بے شمار سناٹا تھا۔ ناصر کاظمی کی طبیعت بھی نازک تھی اور ان کی فکر بھی نازک تھی۔ وہ اس طرح کی صورتحال میں شہروں کی حالت زار کا نقشہ بھی کھینچتے ہیں اور شہروں کی بربادی کا نقشہ کھینچ دیتے ہیں اور اس ویرانی کو اپنے اشعار میں جگہ دیتے ہیں۔ ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

۱؎  پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا
پیڑ بھی پتھر پھول بھی پتھر
پتا پتا پتھر کا تھا
چاند بھی پتھر جھیل بھی پتھر
پانی بھی پتھر لگتا تھا
لوگ بھی سارے پتھر کے تھے
رنگ بھی ان کا پتھر کا سا تھا
(پہلی بارش، ص: ۳۵)  [۶]

ان اشعار کا اگر فکری سطح پر مطالعہ کیا جائے تو ان میں ناصر کاظمی نے شہر کی حالت زار کا بیان کیا ہے لیکن اگر انہیں اشعار کا فنی سطح پر مطالعہ کریں تو ان اشعار کے اندر صنعت تکرار استعمال کی گئی ہے کیونکہ ہر ایک شعر کے اندر پتھر کا لفظ بکثرت استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح ناصر کی شاعری میں بیک وقت فکری اور فنی دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری کے اندر ماضی کا دکھ اور یاد کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس کے ماضی سے بہت ساری چیزیں وابستہ ہیں ماضی میں ہجرت کرنے سے پہلے اس کا اپنا گھر تھا، اپنے دوست تھے، اپنا وطن تھا، ایک محبوبہ بھی تھی اور کئی اور بھی بہت عزیز رشتے دار ہجرت کی نذر ہو گئے اور ناصر کاظمی سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ جاتے ہیں اور ابھی تک ان کا کوئی گھر ہے نہ دوست، نہ رشتہ دار، بس اسی تناظر میں وہ ماضی کی یاد کو گلے سے لگا رکھتے ہیں اور ان کی فکر کا ایک خاص پہلو بن جاتی ہے۔ پہلی بارش میں وہ ماضی کی یاد کا بیان ان الفاظ میں کرتے ہیں غزل نمبر آٹھ میں گویا ہوتے ہیں کہ!

۱؎  گئے دنوں کی خوشبو پاکر
میں دوبارہ جی اٹھا تھا
سوتی جاگتی گڑیا بن کر 
تیرا عکس مجھے تکتا تھا
وقت کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر
ایک ہی پل میں سمٹ گیا تھا
(پہلی بارش، ص: ۳۸)  [۷]

ناصر کاظمی کے فن کا جائزہ لیا جائے تو ایک اور بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ انہوں نے تشبیہات اور استعا رات کو جس خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے یہ انہی کا خاصہ ہے۔ اس قدر آسانی کے ساتھ وہ کوئی بھی تشبیہ یا استعارہ استعمال کر جاتے ہیں کہ قاری کو پتہ ہی نہیں چلتا تھوڑا غور کرنے پر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس جگہ پر انہوں نے فلاں تشبیہ یا استعارہ استعمال کیا ہے۔ پوری شاعری میں اس کی بہت عمدہ مثالیں ہیں، لیکن پہلی بارش کی نویں غزل میں ناصر کی اپنے محبوب سے ملاقات کا تذکرہ ہوتا ہے اس کا محبوب یا معشوق اس سے ملنے آتا ہے اور اس کا محبوب بارش کی وجہ سے بھیگ جاتا ہے اور اس بات کا نقشہ ناصر کی غزل میں اس طرح ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:

۱؎ بھیگے کپڑوں کی لہروں میں
 کندن سونا دمک رہا تھا

 اس شعر میں کندن سونے کو استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ناصر کے محبوب کا بدن بھیگے کپڑوں میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا اور بالکل سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ اسی لیے ناصر نے اس کو کندن سونا ہی بول دیا ہے اور اپنے فن کی عمدہ انداز میں ترجمانی کی ہے۔ ناصر کاظمی کو چونکہ ہجرت اور اداسی کا شاعر کہا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے ہجرت کی صعوبتیں برداشت کیں ہیں اور اس ہجرت نے ان کو اداس، حیران اور پریشان کرنے کے علاوہ جدائی کا غم بھی اس کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ ناصر سے اس کے دوست، رشتہ دار اور اس کی محبوبہ جدا ہو جاتی ہیں اور ان تمام عناصر کو ناصر نے اپنے فکر میں جذب کر لیا ہے۔ یہ تمام عناصر اس کی باطنی ذات کا ایک لازمی جزو بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ رات ناصر کی شاعری میں ایک تخلیقی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ناصر کی فکر نے رات کو غمگین اور تاریک پہلو عطا نہیں کیے۔ اس پر غم آتا ہے لیکن ناصر غم سے نکل جانے کا فن جانتے ہیں۔ اس طرح رات ان کو تنگ ضرور کرتی ہے لیکن وہ رات کو ایک تخلیقی عنصر یاقوت کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ!

۱؎  پھر وہی گھر، وہی شام کا تارا
پھر وہی رات، وہی سپنا تھا
اب نہ وہ گھر نہ وہ شام کا تارا
اب نہ وہ رات نہ وہ سپنا تھا
مرجھائے پھولوں کا گجرا
خالی کھونٹی پر لٹکا تھا
(پہلی بارش، ص: ۴۰-۴۲)  [۸]

ناصر کاظمی کی شاعری میں ایک اور فکری پہلو انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ ناصر نے طلسماتی فضا کو قائم کرنے کے لیے انتہائی عقلمندی سے کام لیا ہے اورمجرد اشیاء کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مجسم دکھایا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری میں ایک اور قابل دید فنی خوبی پائی جاتی ہے انہوں نے اساطیری اور دیومالائی تمثیلیں بھی پیش کی ہیں۔ قاری کسی الجھن کا شکار نہیں ہوتا بلکہ آسانی سے اسے سمجھ آجاتی ہے کہ یہاں پرناصر کاظمی نے ایک داستان کا رنگ پیدا کردیا ہے اور ایک طلسماتی فضا کو قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ناصر کاظمی اپنی مرضی سے کسی بھی جگہ پر اپنے فکرو فن کو استعمال کر جاتے ہیں اور اس عمل میں کامیاب ٹھہرتے ہیں۔پہلی بارش کی غزل نمبربارہ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

۱؎  دیکھ کے دو چلتے سایوں کو
میں تو اچانک سہم گیا تھا
ایک کے دونوں پاؤں تھے غائب
ایک کا پورا ہاتھ کٹا تھا
ایک کے الٹے پیر تھے لیکن
وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا
ان سے الجھ کر بھی کیا لیتا
تین تھے وہ اور میں تنہا تھا
(پہلی بارش، ص: ۴۴)  [۹]

ناصر کاظمی کی شاعری میں ایک اور فکری پہلو نہایت اہم اور قابل غور ہے۔ وہ اپنے محبوب کی یادوں میں مگن رہنا سیکھ چکا ہے اس ہجرت نے محبوب کو اس سے جدا کر دیا تھا لیکن ناصر کاظمی کو نہ ہی تو اپنے محبوب سے کوئی گلہ ہے اور نہ ہی اس کائنات کے نظام سے وہ گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ جو کچھ انسان کی قسمت میں لکھا ہوا ہے وہ انسان کو مل کے رہنا ہے اور جو اس کی قسمت میں نہیں ہے وہ انسان کے حصے میں کبھی نہیں آ سکتا۔ ان کا ہی ایک شعر ان کے اس نظریے کی عکاسی کرتا ہے!

۱؎  درد سے آشنا ہونا تھا کسی طور ہمیں
تو نہ ملتا تو کسی اور سے بچھڑے ہوتے

اس کے علاوہ اگر ان کے مجموعے پہلی بارش کی بات کی جائے تو اس نے ان کا فکر وفن کچھ اس طرح سے کھل کر ہمارے سامنے آتا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ:

۱؎  مچھلی جال میں تڑپ رہی تھی
  نوکا لہروں میں الجھا تھا
 ہنستا پانی، روتا پانی
مجھ کو آوازیں دیتا تھا
 تیرے دھیان کی کشتی لے کر
 میں نے دریا پار کیا تھا
(پہلی بارش، ص: ۴۹)  [۱۰]

 ان اشعار سے یہ چیزیں سامنے آتی ہے کہ ناصر نے اپنی فکر اور اپنی سوچ کے علاوہ اپنی ذات اور شخصیت کے اندر اس چیز کو جذب کر لیا ہے کہ وہ مطمئن ہوگیا ہے اور اپنے محبوب کی یادوں میں مگن رہ کر وہ آگے بڑھنا سیکھ چکا ہے۔

ناصر کاظمی نے اپنی شاعری کے اندر صنعت تضاد کا استعمال بھی احسن طریقے سے کیا ہے جس سے ان کا فنِ شاعری چمک کر سامنے آتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ:

۱؎   ہنستا پانی روتا پانی
مجھ کو آوازیں دیتا تھا
(پہلی بارش، ص: ۴۹)  [۱۱]

ایک طرف تو وہ ہنستے ہوئے پانی کا ذکر کرتے ہیں ساتھ ہی وہ روتے ہوئے پانی کی بات کرنے لگ جاتے ہیں انہوں نے اپنی شاعری کے اندر تمام اصولوں اور قواعد کا استعمال کیا ہے اور اس جگہ پر ان کے فن کی ایک اور کڑی کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ انہوں نے تلمیح، حسن تعلیل وغیرہ کے علاوہ تکرار اور تضاد کی صنعت کا بھی استعمال کیا ہے۔

ناصر کاظمی کی شاعری میں ایک اور پہلو فکری لباس پہن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس بات کا ذکر ہو چکا تھا کہ انہوں نے اپنی شاعری کے اندر تصوف کو خاص طور پر جگہ دی ہے لیکن پہلی بارش کی بائیسویں غزل میں وہ ایک دفعہ پھر سے تصوف کا رنگ شامل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ:

۱؎  گاتے پھول، بلاتی شاخیں
پھل میٹھے ، جل بھی میٹھا تھا
جنت تو دیکھی نہیں لیکن
جنت کا نقشہ دیکھا تھا
(پہلی بارش، ص:۵۸)  [۱۲]

اس کے بعد اگر ناصر کاظمی کی شاعری خاص طور پر پہلی بارش کا اس کے علاوہ فکری جائزہ لیا جائے تو ایک سب سے قوی پہلو سامنے آتا ہے ان کی شاعری میں میر تقی میر کا غم تو لازمی طور پر ہے لیکن میراس غم کو سر پر سوار کر لیتے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ناصر کاظمی اس غم سے باہر نکل جانے کا فن بخوبی جانتے ہیں ان کی شاعری میں ایک رجائیت پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہ ہے کہ وہ نا امید بھی ہوتے ہیں، اداس بھی ہوتے ہیں، غمگین بھی ہوتے ہیں، لیکن اگلے ہی لمحے وہ خود کو ان تمام منفی رویوں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

۱؎  وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

پہلی بارش میں ان کا رویہ اس صورت میں سامنے آتا ہے:

۱؎  تنہائی کا دکھ گہرا تھا
میں دریا دریا روتا تھا
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
تنہائی میں یاد خدا تھی
تنہائی میں خوف خدا تھا
(پہلی بارش، ص: ۵۹)  [۱۳]

اس ساری بحث کے بعد یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہےکہ ناصر کاظمی کی شاعری میں غم، اداسی، جدائی، تنہائی، امید، تصوف، خدا پر یقین، ہجرت کا دکھ، فطرت سے پیار، جمال پسندی، صداقت وغیرہ نے فکری چولا پہن رکھا ہے، اور اگر ان کی پہلی بارش کے مجموعے کا ظاہری فن دیکھا جائےتو انہوں نے ایک نیا تجربہ ہمارے سامنے رکھا۔ اس میں درج ذیل چیزیں ہمارےسامنےآتی ہیں:

(۱) انہوں نے سہل ممتنع کا استعمال کیا ہے،  (۲) چھوٹی بحر میں لکھا، (۳) صنعت تضاد اور تلمیح کا استعمال کیا، (۴) بغیر مقطع کے غزل لکھی، (۵) آسان اور سادہ تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا، (۶) بغیر ردیف کے غزل لکھی۔

ناصر کاظمی بلا شبہ ایک دور کا نام ہے جنہوں نے غزل کو ڈوبتے وقت سہارا دیااور کلاسیکیت اور جدیدیت کے امتزاج سے ایک نئی غزل کی بنیاد رکھی۔

تحریر امتیاز احمد

Leave a Comment