آج کا انسان

0
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

باری تعالیٰ نے انسان کو خوبصورت شکل دے کر “اشرف المخلوقات” ہونے کے شرف کے ساتھ اس دنیا فانی میں اتارا۔ جس معاشرے میں انسان زندگی بسر کرتا ہے وہ اس کا معاشرتی حیوان ہے۔ بلا شبہ ایک معاشرے میں رہتے ہوئے ہر انسان کو دوسرے انسان سے واسطہ پڑتا ہے۔ لین دین، کاروبار، بول چال، تہذیب و تمدن ، ضروریات زندگی کی تکمیل وغیرہ کی خاطر ہر انسان دوسرے انسان پر بھروسہ کرتا ہے اور تعلقات پیدا کرتا ہے۔

بنیادی طور پر انسان”چاہے وہ کسی بھی مذہب یا مسلک” سے تعلق رکھتا ہو، فطرت سلیم پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی تربیت کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اس کو فطرت سلیم پر گامزن رکھتے ہیں یا “ڈی ٹریک” کر دیتے ہیں۔

پیدائش کے بعد گھریلو تربیت، انسان کی سکول، کالج، یونیورسٹی وغیرہ سے ملنے والی تربیت سے بلا شبہ مقدم ہے۔ گھریلو تربیت ہی کی بدولت ، اس کے خاندان، نسل اور چال ڈھال سے واقفیت ہوتی ہے۔ گھر سے ملنے والی تربیت ہی انسان کی اعلیٰ ظرفی یا کم ظرفی کا پتہ دیتی ہے، اور یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ “سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی”۔

اس سب کے برعکس اگر آج کے انسان کا نفسیاتی مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تربیت میں کہیں نا کہیں ضرور کوئی کمی بیشی واقع ہوئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب عمومی طور پر کوئی برائی نظر آتی ہے تو اس کی مثال ان الفاظ میں دی جاتی ہے کہ”ہر دوسرا آدمی” اس برائی کا شکار ہے۔

لیکن آج کل کی جو صورتحال چل رہی ہے، جس میں انسان غیروں کو چھوڑ کر اپنے خونی رشتوں کی تذلیل و تحقیر کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ خونی رشتوں کو بھی ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے، خونی رشتوں کے لئے بھی اس کے دل میں بغض، کینہ ، حسد، دھوکہ، فریب جیسے منفی رویے پیدا ہورہے ہیں، کیا ان ساری چیزوں کے پیچھے ایک نامکمل تربیت نہیں ہے؟

یہ صورتحال چہار طرف موجود ہے، آپ کسی گھر کو دیکھ لیں، سکول کو دیکھ لیں، کالج اور یونیورسٹیوں کو دیکھ لیں، ہر دوسرا آدمی نہیں بلکہ ہر “ڈیڑھ آدمی” ایک دوسرے کے درپے ہے۔ خدشہ ہے کہ “ہر دوسرے آدمی” کی پرانی ترکیب اپنا فاصلہ بہت تیزی سے طے کرتے کرتے اب “ڈیڑھ آدمی” سے ہوتی ہوئی”ہر ایک آدمی” تک نہ پہنچ جائے۔

آپ کہیں بھی چلے جائیں، گھر ، گلی بازار، سکول، کالج، یونیورسٹی، آفس، یہاں تک کہ اب مسجد اور مندر بھی ایسے فسادی لوگوں سے خالی نہیں رہے۔ سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مگن ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ کھینچا تانی ہر جگہ جاری و ساری ہے۔ کبھی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے تو کبھی بے بنیاد الزامات کی بھرمار کے ذریعے سے اپنے دلِ بیکراں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انسان کے ذمے دو طرح کے حقوق ہیں: 1۔ حقوق اللہ 2۔ حقوق العباد۔ حقوق اللہ میں کوتاہی قابل معافی اور قابل رحم ہو سکتی ہےلیکن حقوق العباد میں کوتاہی کی ہر گز معافی نہیں ہے۔

حقوق العباد کی تکمیل کے لئے بہت ضروری ہے کہ کسی بھی انسان کو جسمانی، ذہنی اور اخلاقی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ آپ کسی کے حقوق کا خیال رکھیں گے تو آپ کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے گا۔ کسی کو خوشی دیں گے تو بدلے میں آپ کو بھی سکون جیسی نعمت ملے گی۔ لہذا حسد، بغض، کینہ، لالچ، کھینچا تانی، الزامات، نیچا دکھانے کی کوشش، تذلیل و تحقیر، نفرت، کدورت، دشمنی، حق تلفی ، ان ساری چیزوں کو اپنی خوبصورت شخصیت کا حصہ ہر گز نہ بننے دیا جائے، اور خود کو مسجودِ ملائک کے درجے پر ہی رکھا جائے۔ کیوں کہ یہ ہی زندگی کا حسن اور سلیقہ ہے۔

تمام انسان آپس میں برابر ہیں ، کسی عجمی کو عربی پر ،کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہ ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے ہم سب یہاں ایک مسافر سے زیادہ اوقات نہیں رکھتے بلکہ اپنا سفر طے کر کے چلتے بنیں گے اور اللہ کے حضور ایک ایک چیز کا حساب دینا ہو گا۔ لہذا ایسی ساری چیزوں سے قطع نظر ہو کر زندگی میں آگے بڑھا جائے۔ جو نصیب میں لکھ دیا گیا ہے اس سے زیادہ اور مقررہ وقت سے پہلے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا، بلکہ ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر اور اپنے نصیب اور مقدر کی بنیاد پہ ہی ملے گی، اس لئے اپنے وقت اور نصیب کا انتظار کیا جائے نہ کہ دوسروں کے راستے کی رکاوٹ بنا جائے۔

انسان معاشرتی حیوان ہے یہاں ہر انسان دوسرے انسان سے ضروریات اور سماجی تعلقات کی بنیاد پر بندھا ہوا ہے۔ کوئی بھی تنہا زندگی نہیں گزار سکتا، سب کو سب کے ساتھ تعلق اور سروکار لازمی طور پر رکھنا پڑتا ہے۔ تو پھر ہم کیوں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے سے کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں ؟ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ ہم مادی سوچ کے حامل ہوتے جا رہے ہیں اور مادی سوچ اور ذہن ہمیں کبھی بھی سکون اور اطمینان میسر نہیں ہونے دیتا، اسی لئے ہمارے اندر لالچ اور ہوس پیدا ہوتے ہیں اور ہم نہیں دیکھ پاتے کہ سامنے والے شخص کے ساتھ ہمارا خون کا رشتہ ہے یا احساس کا ، بس ہم اس سے سب کچھ چھین لینے کی ٹھان لیتے ہیں چاہے اس کے لئے ہمیں اس کی جان ہی کیوں نا لینی پڑ جائے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اندر قناعت پسندی جیسے پاکیزہ جذبات پیدا کر دے اور آپس میں محبت و یگانگت پیدا کر دے۔آمین ثم آمین۔

تحریر امتیاز احمد ﴿کالم نویس افسانہ نگار﴾
آج کا انسان 1