غیبت و اتہام، نفاق/منافقت، تکبر، اور حسد کے متعلق سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 19:

سوال۱ غیبت و اتہام کا فرق واضح بیان کریں۔

جواب: غیبت و اتہام:

غیبت شریعت اسلامی کی رو سے غیبت اس رذیلت کا نام ہے کہ کوئی دوسر ے کی غیر موجودگی میں ایسی بات اس کے بارے میں کہہ دے کہ اگر وہ سنے تو اسے رنج پہنچے۔
اس کی وضاحت خود رسول اکرمﷺ نے یوں فرمائی:
”تمہارے ذکر اپنے بھائی کے بارے میں جسے وہ ناپسندیدہ کرے۔ صحابہ رضی اللہ اجمعین نے عرض کیا کہ اگر اس میں وہ عیب موجود ہوتو فرمایا یہی تو غیبت ہے ورنہ بہتان ہے۔“ (ابوداؤد)

سورۂ الحجرات ۱۲ میں اس رذیلت یعنی غیبت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:
”اور ایک دوسرے کو پیٹھ پیچھے برا نہ کہو کیا تم میں کیا تم میں کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے حالانکہ تم اس سے نفرت کرتے ہو۔“
اس سے زیادہ غیبت کو قابل نفرت بنانے کے لئے اور کیا بات ہوسکتی ہے اور کون ایسا ہے جو اس سے گھن (نفرت) نہ کرے گا۔

بعض نافہم یعنی ناسمجھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی کسی برے آدمی کی برائیاں ظاہر کردی جائیں تو ٹھیک بات ہے لیکن اوپر بیان کی گئی آیات قرآنی اور حدیث نبویﷺ اس کی تردید کرتی ہے اور کسی حال میں بھی بدمزگی اور ناگواری نہیں کرتی۔
تہمت کے لفظی معنی ہیں”الزام لگانا۔“

شریعت کی اصطلاح میں تہمت سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کا ایسا عیب بیان کیا جائے جو اس میں موجود ہی نہ ہو اور اس کے دامن عفت کو بلاوجہ داغدار بنایا جائے۔ حضوراکرمﷺ نے غیبت اور تہمت کی ایسی تعریف بیان فرمائی ہے جس سے دونوں کا فرق بھی واضح ہوجاتا ہے۔فرمایا:
”تم اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرو کہ اسے ناگوارہو“ (یہ غیبت ہے۔)ایک صحابی نے پوچھا کہ”اگر اس میں واقعی وہ عیب ہو تو(کیا اس کا بیان کرنا بھی غیبت ہے؟)“آپ ﷺ نےفرمایا :”اگر اس میں واقعی وہ عیب ہوتب تو وہ غیب ہے، اور اگر وہ نہ ہو تو بہتان ہے۔“یعنی دوہراگناہ ہے۔

سوال۲ منافقت کے متعلق لکھیں۔

جواب: نفاق/منافقت:

منافقت کا لفظ نفق سے نکلا ہے جس کے معنی اس سرنگ کے ہیں جو زیر زمین خفیہ ہوتی ہے اور جس کے دومنہ ہوتے ہیں، آدمی ایک سے داخل ہو کر دوسری طرف نکل جاتاہے۔شریعت کی رو سے منافق وہ شخص ہے جو حقیقت میں تو کافر ہو لیکن کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے یادین اسلام کو نقصان پہنچانے کی غرض سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے۔ یعنی ظاہر میں مومن اور باطن میں کافر ہو۔ منافق، کافر کی سب سے خطرناک قسم ہے؛ کیوں کہ یہ آستین کا سانپ بن کر اپنی دھوکہ دہی کے ذریعے سے نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ: بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (سورۃ النساء:۱۴۵)

منافق کی نشانیاں:

حضورﷺ نے احادیث مبارکہ میں منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔چنانچہ ارشاد نبویﷺ ہے:
ترجمہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں:
(1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
(2) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔
(3) جب (اس کے پاس) امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔

سوال۳:تکبر کے متعلق لکھیں۔

تکبر کے لفظی معنی ہیں بڑائی کرنا۔
دین اسلام کی اصطلاح میں تکبر سے مراد یہ ہے کہ اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں برتر اور معزز سمجھا جائے اور دوسروں کو کم تر اور حقیر جانا جائے۔

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں تکبر کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اور تکبر کو اللہ تعالیٰ کی صفت قرار دیا گیا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ غرور اور تکبر کسی انسان کو زیب نہیں دیتا بلکہ یہ صرف اللہ ہی کے شایان شان ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: کیا جہنم میں تکبر کرنے والوں کو ٹھکانہ نہیں ہوگا؟ (سورۃ الزمر: ۶۰)

سوال۴:حسد کے متعلق لکھیں۔

کسی شخص کی دنیاوی ترقی دیکھ کر دل میں یہ خیال آنا کہ یہ نعمت چھن جائے ”حسد“ کہلاتا ہے۔ حسد ایک اخلاقی بیماری ہے۔ انسان دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے کسی بھائی کو اچھی حالت میں دیکھیں تو خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ لیکن حسد وہ بری خصلت ہے کہ جو کسی کو خوش حال اور پرسکون دیکھ کر انسان کو بے چین کر دیتی ہے اور وہ اپنے بھائی کی خوشحالی دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے دل ہی دل میں جلتا اور کڑھتا ہے۔ مسلمانوں کو اس جلن اور تکلیف سے بچانے کیلئے حضور نبی اکرمﷺ نے حسد سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد نبویﷺ ہے:
ترجمہ: دیکھو! حسد سے بچو؛ کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آک خشک لکڑی کو۔