شرک کی اصطلاحی تعریف، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 03:

سوال۱: شرک پر نوٹ لکھیں:

جواب:عقیدہ توحید انسان کا سب سے پہلا عقیدہ ہے۔ شرک اور اس کے تمام اقسام بعد کی پیداوار ہیں۔ دنیا کا پہلا انسان عقیدہ توحید کا قائل تھا۔پہلے انسان جن کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا وہ حضرت آدم علیہ اسلام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنا خلیفہ انسان کو تخلیق کیا اور اسی سلسلہ میں حضرت آدم علیہ اسلام کو اپنا پیغمبر بنا کر دنیا میں بھیجا۔ جس طرح توحید کو تسلیم کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کے ذریعے انسان زندگی کے ہر مرحلہ میں کامیاب ہو سکتا ہے اور ”شرک“ کی وجہ سے تباہ و برباد اورعذاب میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توحید کو ماننے اور اس پر یقین کرنے کے لئے ضروری قرار دیا ہے کہ ”شرک“ سے بچا جائے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ اس کی صفتوں میں بھی کسی غیر کو شریک نہ مانا جائے اصل توحید یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ توحید پر جمے رہنے کے لئے شرک سے بچنا ضروری قرار دیا گیا اور قرآن مجید سورۂ لقمان۔۱۳ میں فرمایا گیا:
ترجمہ: یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ انسان کو شرک کے نقصان سے بچانے کے لئے بار بار تاکید کی گئی چنانچہ فرمایا:
یقیناً اللہ معاف نہیں کرتا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور معاف کر دیتا ہے اس کے علاوہ جس کو چاہتا ہے۔(سورۃالنساء:۴۸)

اس لئے شرک سے بچنے کے لئے اس کے ہر پہلو کو سامنے رکھنا ضروری ہے مثال کے طور پر :
اللہ کی ذات میں شرک: یہ کہ کسی کو اللہ کے برابر سمجھنا یا اس کے لئے باپ، ماں، یا اولاد کا خیال کرنا یہ سب کچھ شرک ہے اس سے بچنا لازم ہے کیونکہ مخلوق وہ نہیں بلکہ خالق حقیقی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات حکم ارادہ اور قدرت میں کسی دوسرے کو شریک سمجھنے سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے اس لئے اس کی تاکید کی گئی ہے۔
ترجمہ: حکم صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ (سورۃ یوسف:۴۰)

اسی انداز پر کوئی ایسی بات ماننا اور اس پر یقین نہ کرنا ایمان کا تقاضا ہے جس کی وجہ سے اللہ اور اس کی صفات میں کسی دوسرے کے شریک ہونے کا ذرا بھی شک و شبہ نہ ہو۔ ایمان کامل یہی ہے اور اس کا اختیار کرنے والا ”مومن“ ہو سکتا ہے۔

یہ عقیدہ قوت کا سرچشمہ اسی قدر نہیں ہے کہ ”اللہ ہر جگہ موجود اور ہر کام کو دیکھ رہا ہے“ بلکہ اللہ کی صفات پر بھی مکمل یقین جو انسان کو مختلف مرحلوں میں صحیح سمت کی طرف متوجہ کرتا ہے اس لئے صرف اس حد تک اسے مان لینا کافی نہیں کیونکہ اس حد تک تو دوسرے مذاہب نے بھی کسی نہ کسی طرح اسے مانا ہے البتہ جس چیز نے اسلام کو دوسرے مذاہب سے ممتاز و برتر کیا ہے وہ یہ ہے کہاس نے صفات باری تعالیٰ کا صحیح علم ہمیں بخشا ہے پھر اسی سے نفس کی پاکیزگی، اخلاق کی اصلاح، اعمال کی تنظیم، نیکی کی تبلیغ و اشاعت اور تمدن کی بنیاد کا کام لیا ہے جو دنیا کا کوئی مذہب اور دین نہیں لے رہا ہے۔

سوال۲: لوگوں نے شرک کرتے ہوئے کن کن کو پوجنا شروع کردیا؟

جواب: لوگوں نے جس چیز کو ہیبت ناک دیکھا، اس سے ایسے خوفزدہ ہوئے کہ اسے دیوتا سمجھ لیا اور اس کی پوجا پاٹ شروع کر دی۔ اس طرح انھوں نے آگ کا دیوتا، سمندر کا دیوتا اور آندھیوں کا دیوتا گھڑ لیے۔

سوال۳: شرک کے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کریں؟

جواب: شرک کے لغوی معنی ہیں ”حصہ داری“ اور ساجھے پن کے ہیں۔ دین کی اصطلاح میں شرک کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات یاصفات کے تقاضوں میں کسی کو اس کا حصہ دار اور ساجھی ٹھہرایا جائے۔

سوال ۴: انسان کی انفرادی زندگی پر عقیدہ توحید کےاثرات کیا ہیں؟

جواب: عقیدہ توحید کے اثرات:

توحید صرف ایک علمی حقیقت نہیں ہے بلکہ نہایت اہم عملی حقیقت بھی ہے۔ اس کا اثر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ توحید کو تسلیم کرنے کے بعد انسان کی زندگی بدل جاتی ہے ہم اس جگہ ان میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں۔

انسان کی انفرادی زندگی پر اس کا سب سے نمایاں اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ اسے آزادی و حریت کے اس مقام پر پہنچا دیتا ہے جس کا وہ اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے مستحق ہے۔ تمام کائنات انسان کے لئے پیدا کی گئی لیکن جب تک انسان توحید سے واقف نہ ہو اس وقت تک اتنا پست اور ذلیل و خوار رہتا ہے کہ وہ اپنی تابعدار چیزوں کے سامنے جھکتا ہے انہیں اپنا آقا اور حاجت روا سمجھتا ہے۔ اس کے مقابلہ پر عقیدہ توحید ایسی پست انسان کو انتہائی خوددار اور باعزت بنادیتا ہے۔

توحید پر یقین لانے والا یہ بات اچھی طرح سمجھ لیتا ہے کہ پاکیزگی نفس اور نیک اعمال کے علاوہ اس کی نجات اور بہتری کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے چونکہ وہ ایک ایسے اللہ پر یقین رکھتا ہے جو بے نیاز ہے۔

توحید پر عقیدہ رکھنے والا کسی حال میں مایوس اور دل برداشتہ نہیں ہوتا کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کا معبود زمین و آسمان کے تمام خزانوں کا مالک ومختار ہے جس کا فضل و کرم بے حد اور بے حساب ہے۔

اس عقیدہ کی بدولت انسان میں قناعت اور بے نیازی کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور وہ رشک و حسد جیسے رکیک جذبات سے پاک ہو جاتا ہے اس لئے وہ یقین رکھتا ہے کہ رزق اللہ کے قبضہ میں ہے جس کو چاہے زیادہ اور جسے چاہے کم دے۔