نزولِ قرآن، سورتوں کے نام اور ترتیب

0
  • سبق نمبر 27:

سوال۱: نزولِ قرآن کے متعلق لکھیں۔

جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو روزازل ہی میں مرتب فرما کر آسمان اول پر محفوظ فرمادیا تھا پھر اس کی ہدایات کی حسب موقع اپنی مثیت ایزدی (یعنی حکم الہیٰ)سے جب چاہا نازل فرمادیا اس بارے میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ”قرآن آیات مسلمانوں کے عمل کو عادی بنانے اور اعمال پر مستحکم بنانے کے لئے بتدریج نازل ہوتی رہیں کہ اسلام قبول کرنے والے ان کو یاد بھی کرتے رہیں اور احکام نازلہ پر تعمیل کے خوگر (یعنی عادی) بھی ہوجائیں اس لئے اگر قرآنی احکام تو رات کی طرح ایک دم نازل کر دیئے جاتے تو لوگ بنی اسرائیل کی طرح ان کی تعمیل سے یہ کہہ کر جان لگتے کہ اتنے احکامات پر ہم کس طرح عمل کرسکتے ہیں۔

اس لئے جتنا قرآن نازل ہوتا رہا مسلمان انہیں یاد بھی کرتے رہے اور اس کے احکامات پر عمل کے عادی بھی ہوتے گئے۔

اب جہاں تک نزول آیات کا تعلق ہے تو آیات قرآنی اگرچہ وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہیں مگر آیات کے نزول کے ساتھ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ان آیات کی جگہ مخصوص اور تربیت بھی رسول اللہﷺ کو بتاتے رہے اور رسول اللہﷺ اس ترتیب سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو واقف کرتے رہے جنہیں اسی ترتیب کے ساتھ زبانی یاد کیا جاتا رہا اور جوں جوں آیات کا نزول ہوتا رہا اس کی تلاوت اسی ترتیب کے ساتھ خود رسول اللہﷺ کرتے رہے۔

سوال۲:سورتوں کے نام اور ترتیب لکھیں۔

سورتوں کے نام اور ترتیب:

یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن مجید تحریر پیغام نہیں بلکہ تقریری پیغام ہے اس لئے اس میں ترتیب کا تلاش کرنا غلط ہے۔ یہ ایسا بلیغ اور دلچسپ کلام ہے کہ اس کی تلاوت میں توجہ کسی دوسری طرف نہیں ہوتی اور ہر چند آیات کے بعد ایک مضمون اور نئی دلچسپی محسوس ہوتی ہے۔

قرآن کا یہ معجزہ ہے کہ اتنی ضخیم کتاب ہونے کے باوجود اس کی دلچسپیاں کم نہیں ہوتیں بلکہ شروع سے آخر تک بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ یہ موقعہ ان تمام خوبیوں کے بیان کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس موضوع پر ہزاروں محققین نے کتابیں لکھی ہیں اور قیامت تک لکھتے رہیں گے کیونکہ یہ کلام زبانی ہے کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔

اب یہ کہ سورتوں کے نام کیونکر رکھےگئے تو اس سلسلے میں ہم یہ بات کہہ چکے ہیں قرآن تحریری پیغام نہیں کہ نہیں میں ایک عنوان قائم کرکے اس پر بحث کی گئی ہو بلکہ ان کے نام علامتی ہیں۔ جس کے ذریعے سے اس سورہ کا علم ہو جاتا ہے جس میں وہ علامات پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال یہ کہ سورہ البقرۃ ایک ایسی سورہ کو نام ہے اس میں گائے کی پرستش کے اہم واقعہ کا ذکر ہے۔

اگر ہم غور کریں تو یہ ایسا اہم واقعہ ہےکہ حلقہ کفر میں اب تک گائے کی پوجا کی جاتی ہے اور علم کے اتنے عام ہونے کے باوجود کروڑوں انسان گئور کشا ہی نہیں اس کی پوجا بھی کرتے ہیں اور اس کی پیشاب کو پوتر اور مقدس سمجھتے ہیں اگر ہم یہ کہیں کہ سورۃ البقرہ نے آج سے تقریباً پندرہ سو سال پہلے قرآن کے ذریعہ کافروں کی بے عقلی کا ذکر کردیا تھا تو کیا قرآن کی الہامی حیثیت واضح نہیں ہوجاتی یہ کیسی بدبختی ہے کہ آج بھی انسان ایک گائے کے تحفظ کے نام پر ہزاروں انسانوں کا خون بہا دیتا ہے یہ غور کرنے کا مقام ہے۔

جب کسی سورہ میں شامل آیات ختم ہوجاتیں تو رسول اللہﷺ اس سورۃ کا نام تجویز فرمادیتے اور آیات کی ترتیب کے ساتھ اس کی ابتدا اور انتہا بھی واضح فرمادیتے اور یہ بات من جانب اللہ یعنی توفیقی ہوتی۔ پھر جوں جوں سورتیں مکمل ہوتی گئیں ان کی ترتیب بھی بتا دی گئی اس ترتیب کے مطابق خودرسولﷺ نازل شدہ قرآن حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کو سناتے رہے مگر آخری سال کے رمضان میں آپ نے بجائے ایک کے دومرتبہ قرآن کی تلاوت فرمائی جس کی وجہ سے حالت بصیرت صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو تشویش ہوئی کہ کہیں حضورﷺ کی تلاوت کا آخری سال نہ ہو اور ایسا ہی ہوا جس طرح حجۃ الوداع کے موقع پر جب تکمیل دین کی آیات نازل ہوئیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بجائے خوش ہونے کے رونے لگے جب دین مکمل ہوگیا تو اب حضورﷺ کا کام ختم ہوگیا اور اب حیات بشری میں ہم سے جدا ہونے والے ہیں۔

وقت اور مدت کے لحاظ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور مفسرین کرام نے سورتوں کی تقسیم کی ہے جن میں تیری سالہ مکی دور میں نازل شدہ سورتوں کو مکی اور ہجرت کے بعد نازل شدہ سورتوں کی مدنی نام دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے۔