رحمت اللعالمین کی وضاحت سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 20:

سوال۱:رسول اکرمﷺ کے رحمت اللعالمین ہونے پر ایک نوٹ لکھیں۔

جواب: جب دنیا میں جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، برائیوں کا دور دورہ تھا، کمزور اور بے کسوں پر ظلم روارکھا جاتا تھا۔ یتیموں کا مال کھایا جاتاتھا۔ بیواؤں کی کو عزت نہیں تھی، عورتوں کو غلام کی طرح سمجھا جاتا تھا، لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا، معمولی معمولی باتوں پر جنگیں جھڑجاتیں تھیں، جو کئی کئی نسلوں تک جاری رہتی تھی۔ ایسے ہی معاشرے میں اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبیﷺ معبوث فرمایا جسے لوگوں نے نبوت سے پہلے امین و صادق کہہ کر پکارا اور نبوت کے بعد حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور رحمت اللعالمین پکارا گیا۔

رحمت اللعالمین:

سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے(ترجمہ)”ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کےلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔“
حضورﷺ امن و سلامتی کا پیغام لے کر آئے۔ اسلام کی اشاعت کی پہلے چالیس سال ایک صالح ، ایماندار، سچے انسان کی حیثیت سے منوایا۔ مشکلات اور تکالیف برداشت کیں، کفار کے رویے سے تنک آکر مدینے ہجرت بھی کی، اور اللہ کے سچے پیغام کو عام کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس طرح حضورﷺ نے لوگوں کو درد ناک عذاب سے بچایا۔ کئی خداؤں اور بتوں کے بجائے ایک اللہ کی عبادت اور محبت سکھائی اور ایسا متوازن نظام زندگی دیا جو انسانوں کو امن و سلامتی کی جانب لے جاتا ہے۔ یہ پیغام سراسر رحمت ہی رحمت ہے۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پیغام لانے والے کو تمام جہانوں کے لئے رحمت قرار دیا۔ حضورﷺ کی پوری عملی زندگی کا مطالعہ کر لیجئے، ہر پہلو میں آپﷺ محبت اور رحمت کا پیکر نظر آتے ہیں۔

سوال۲)آپ ﷺ کی ذات کیسے امت پر شفقت و رحمت تھی؟

امت پرشفقت ورحمت:

اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی ”سورۃ التوبہ“میں ارشاد فرماتا ہے (ترجمہ): ”تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا ایک رسول آیا ہے جو تم میں سے ہے۔ تمہاری تکلیف اس پر گراں گزرتی ہے، تمہاری بھلائی کا خوہش مند رہتا ہے، اہل ایمان کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں۔“حضورﷺ سراپا شفقت اور رحمت ثابت ہوئے، جس کی گواہی اللہ تعالیٰ بھی دے رہا ہے، حضورﷺ قرضداروں کا قرض ادا فرماتے، غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی مدد فرماتے۔

آپﷺ کے دروازے سے کبھی کوئی سائل خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ حضورﷺ اپنے ساتھیوں کو تکلیف میں دیکھ کر بے چین ہو جاتے۔ تکالیف کے خاتمے کی کوشش کرتے۔ جن کو مددکی ضرورت ہوتی، اخلاقی اور مالی مدد فرماتے۔ غریبوں اور مجبوروں کی دل جوئی کرتے وہ صحابہؓ اور امت مسلمہ کو بھی دشواری میں نہیں ڈالنا چاہئے، حضور ﷺ کا ارشاد ہے”اگر امت پر دشواری نہ ہوتی میں انہیں ہر نماز کے لئے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“اسی طرح کی بے شمار مثالیں ایسی ہی ہیں جو حضورﷺ کو سراپا رحمت ثابت کرتی ہیں۔

سوال۳:آپ ﷺ کی ذات کیسےیتیموں اور غلاموں کے لیے باعثِ رحمت تھی؟

جواب: حضورﷺ بچوں کے لئے رحمت تو تھے ہی یتیم بچوں پر بہت زیادہ محبت اور شفقت رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں آپﷺ نے فرمایا ”میں اور یتیم کی نگہداشت کرنے والا جنت میں یوں ہوں گے (اور اپنی دونوں انگلیاں ملالیں)“اسی طرح نوکروں اور غلاموں کے متعلق آپﷺ نے فرمایا: ”تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنایا ہے تم جو خود کھاؤ وہی انہیں بھی کھلاؤ، اور جیسا خود پہنوویسا ہی انہیں پہناؤ، اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کام کا بوجھ نہ ڈالو۔