جمع و تدوین قرآن کے چار ادوار

0
  • سبق نمبر 29:

سوال۱: قرآن مجید کی کتابت پر تفصلی نوٹ لکھیں۔

جواب: حضور نبی اکرمﷺ کے دور مبارک تک قرآن کی کتاب ایک جلد میں نہیں کی گئی تھی اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آیات کا نزول ہوتا رہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین رات دن اس کو یاد کرتے اور اس کے احکام کی طرف ہمہ وقت مصروف رہے دوسری وجہ یہ کہ عرب اپنی زبان دانی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اس لئے قابل تعریف اور شیریں کلام و کامل کتاب میں ایسے مستغرق رہے کہ ان کو کسی اور جانب توجہ ہی نہیں ہوئی۔

تیسری وجہ حافظہ کی اہمیت تھی اور اللہ تعالیٰ نے زبانی دانی کے ساتھ انکی قوت حافظہ اور قدر فرمادی تھی کہ اسے وہ اپنی خصوصیت اور امتیاز سمجھنے لگے تھے اور ان کا خیال تھا کہ کسی کلام کو زبانی یاد کرلینا اور حفظ ہی سب سے معتبر ہے اور اس قومی خصوصیت کے بارے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے اور ایک ایک شخص ہزار ہزار اشعار ایک ہی نشست میں برملا سنا دیا کرتا تھا۔

چوتھی وجہ سامان کتابت کی کمی بھی تھی مگر یہ سمجھنا کہ نزول قرآن کے وقت صرف چند صحابہ رضوان اللہ اجمعین ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے بالکل غلط ہے بھلا سوچنے کی بات ہے کہ جس کتاب کا نام قرآن ہواس کی پہلی ہی وحی میں ”اقراء“(یعنی پڑھ) سے اس کی ابتداءہو پھر قراطیس اور دوسرے الفاظ میں لکھنے پڑھنے کا ذکر ہو اور جو میں مداد یعنی روشنائی اور اق وغیرہ کا ذکر ہو تو کیا ایسی کتاب ایسی وحشی اور غیر مہذب قوم میں نازل ہوئی جو گونڈوں اور بھلیوں(بھیڑ بکریوں اور قدیم وحشی قوم) جیسے ہوں گے یہ قطعاً غلط ہے۔

دیکھنا چاہئے کہ قریش تجارت پیشہ تھے اور دور دور تک سفر تجارت کرتے تھے تو کیا دوسرے ملکوں اور قوموں کے لکھنے پڑھنے سے متاثر نہ ہوئے ہوں گے اور ان کی سیاست اور اثر کی وجہ سے دوسرے قبائل کے لوگ لکھنے پڑھنے کی طرف متوجہ نہ ہوئے ہوں گے اس لئے یہ قیاس کرنا کہ عرب لکھنے پڑھنے میں کورے ہوں گے محض قیاس اور زیادہ تحقیق نہ کرنے کی وجہ سے ہے اب یہ معاملہ کہ اس زمانے میں لکھنے کے سامان کی نایابی تھی تو یہ بھی قیاس اور غلط اندازہ ہے اب اگر اس بات کی تحقیق کی جائے کہ اس زمانے میں کتابت کے لئے سامان دستیاب تھا تو معاملہ اور یہ بحث طویل ہو جائے گی البتہ عام تحقیق کے مطابق کم از کم دیانت شدہ چمڑہ عرب کی گوشت خوری کے باعث وافر مقدار میں پایا جاتا تھا اور جس کے خیمے تک بکثرت بنائے جاتے تھے اس کے علاوہ اونٹ کے شانے کی چوڑی ہڈیاں مزید پتھر کی تختیاں اور کھجور کے تنے کی لکڑیاں اور دوسرا سامان کافی مقدار میں موجود تھا جس پر صحابہ رضوان اللہ اجمعین قرآنی آیات لکھ لیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان آیات کو ترتیب کے ساتھ کیسے رکھا جا سکتا ہے۔

سوال۲: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کی تدوین و تالیف پر نوٹ لکھیں۔

جواب:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلیمہ کذاب کا فتنہ پیدا ہو اجس نے شرکت نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور بچے کھچے دشمنان اسلام نے اس موقعہ کو غنیمت جان کر اس کا ساتھ دیا تھا آخر کار مسلمانوں نے اس کافر کے خلاف جہاد کیا ان حالات میں وہ اپنے پیارے رسول ﷺ کی جدائی کے صدمے سے نڈھال تھے مگر اس فتنہ کو کچلنے کے لئے دشمنان اسلام کے خلاف صحابہ کرام سف بستہ ہوگئے اور جان نثاران اسلام نے اپنی جان کی بازی لگا کر اس فتنہ کو اس طرح کچل دیا کہ پھر کسی کو ایسی جرات نہ ہوئی مگر اس جنگ یمامہ میں ستر حفاظ نے جام شہادت نوش کیا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس جانب متوجہ کیا کہ قرآن کو ایک جلد میں جمع کر دیا جائے چنانچہ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مشورے سے حضرت زین بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہ خدمت سپرد کی گئی کہ وہ قرآن کو رسول اللہﷺ کی فرمائی ہوئی ترتیب کے مطابق ایک جلد میں جمع کریں اور عام اعلان کر دیا گیا کہ جس کے پاس قرآنی آیات لکھی ہوئی ہوں لے کر جمع ہوجائیں اس طرح حضرت زید رضی اللہ عنہ نے دوسرے نے دوسرے حفاظ قرآن کو ایک جلد میں لکھا اور اس کے لئے بڑی احتیاط کی گئی اور ہزاروں حفاظ قرآن کی تصدیق کے بعد وہ جلد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دی گئی اور اعلان کر دیا گیا کہ جس کو قرآن لکھنا ہو وہ اس جلدی سے نقل کرے اس طرح اس کی بہت نقلیں تیار کی گئیں۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد وہ نسخہ حضرت عمر کی رضی اللہ عنہ کی تحویل میں دے دیا گیا اور ان کے بعد اسے ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ کر دیا گیا۔

سوال۳: عہدِ عثمانی میں قرآن کی جمع و تدوین پر نوٹ لکھیں۔

جواب: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اور اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی بناء پر اسلام کا دائرہ دور دور تک پھیل گیا تو اسلامی جہد کے لئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ عراق اور ایران کی شمالی سرحدوں تک پہنچے اور وہاں سے لوٹنے کے بعد انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ لوگ مختلف ملکوں میں قرآن کو اپنے اپنے لہجوں میں تلاوت کررہے ہیں اس لئے بار بار ان کے درمیان جھگڑے ہوجاتے ہیں اس لئے مجھے اس کا خدشہ ہے کہ کہیں قرآن کے بارے میں تنازعات اور جھگڑے نہ کھڑے ہو جائیں اس لئے آپ اس وقت ملت کی معاونت فرمائیں۔

چنانچہ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مشورے سے سب کو ایک قرأت پر جمع کرنے کے لئے مکتوبہ جلد قرآن حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے منگوا کر دوبارہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حفاظ قرآن کی ایک جماعت کے ساتھ مقرر کیا گیا کہ وہ اپنی نگرانی میں اس کی متعدد نقلیں تیار کرائیں اور جہاں کتابت میں اختلاف ہو تو قریشی رسم الخط کے مطابق لکھا جائے اوراس کی قرأت بھی قریشی قرأت کے مطابق ہو پھر اس کی نقلیں ہر صوبے میں بھیج دی گئیں اور حکم دیا گیا کہ اس کے خلاف لکھے ہوئے نسخے ضائع کریئے جائیں یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کارنامے کی وجہ سے ”جامع القرآن“ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور مفسرین اور محققین نے اس کے رسم الخط کے علاوہ کتاب قرآن کو ناجائز قرار دےدیا ہے۔