حقوق العباد پر احادیث، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 16

سوال۱: حقوق العباد پر تفصیلی جواب تحریر کریں۔

جواب: انسان کی فطرت مدنی الطبع وہ اپنی زندگی میں جماعت زندگی کا محتاج ہے اور بغیر اجتماعیت کے اس کا زندہ رہنا مشکل ہے اسی لئے پیدائش سے موت تک معاشرہ کا حاجت مند ہے اس کے جسم اور خلق جیسے عطیات قدرت نے دولیعت فرمائے ہیں اس کی پرورش ماں باپ وغیرہ کی محتاج، ہوش سنبھال کر اسے معاشرہ (سوسائٹی)، برادری،نظام معیشت و سیاست سے واسطہ پڑتا ہے وہ اپنی خوراک، لباس، مکان اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں جماعت کا دست نگر ہوتا ہے۔

اگر ہم تھوڑا سا غور و فکر کریں تو یہی معلوم ہوا کہ ہر ایک انسان دوسرے انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اور متاثر بھی۔ یہی بات اسے مدنی الطبع ثابت کرتی ہے۔ جماعت کا وجود، افراد، جماعت پر موقوف ہے اور ان سے ہر فرد کا نفع نقصان جماعت کے نفع نقصان پر اثر انداز ہوتا ہے اس بناء پر دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں اس کی حیثیت قطعی حدیث نبویﷺ کے مطابق ایک جسم کی ہے کہ ”اگر جس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو تمام اعضاء تکلیف محسوس کرتے ہیں۔“

غرض یہ کہ معاشرہ کے یہ بے شمار روابط ہیں جو ایک انسان کو دوسرے انسانوں سے جوڑتے ہیں اور ان کی صحت و تندرستی پر تمام انسانوں کو فلاح و بہبود کا انحصار ہے اور وہ اللہ ہی ہے جو انسانوں کے روابط اور تعلقات کے لئے صحیح، منصفانہ اور پائیدار اصول اور اس کے حدود متعین فرماتا ہے اور جہاں ان حدود میں ردوبدل یا ترمیم و تنسیخ انسان اپنی محدود عقل کی بناء پر کرتا ہے زندگی کی نعمتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔

مذہب اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے معاشرہ میں انفرادی طور پر ہر ایک کا حق مقرر کیا ہے اور جس پر ان حقوق کی ادائیگی ضروری قرار دی، انہیں ”فرائض“ قرار دیا تاکہ ایک خاندان کے اندر ایک دوسرے پر حقوق و فرائض کے ذریعے سے انفرادی طور پر ہر انسان کی تربیت کی جائے اور آگے بڑھ کر ہی حقوق و فرائض ایک صالح معاشرہ کی تعمیر میں حصہ لینے کے لئے تیار ہوجائیں۔ جس کا نتیجہ میں دنیا میں انسان امن و عافیت سے زندگی گزار سکے اس کی اہمیت اسلام نے اتنی بڑھا دی کہ بعض مقامات پر اسے ”عبادت“ کا قائم مقام قرار دے دیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس کی احتیاج اور اثر اندازی کو واضح کرنے کے لئے حیوانات و نباتات کے حقوق مقرر کرکے انسان کے لئے نظام کائنات سے فائدہ اٹھانے کے اصول بتائے۔ جانوروں کو بھوکا رکھنا عذاب کا سبب بتایا۔ ایک بار رسول اللہﷺ جوار مدینہ تشریف لے گئے، ایک باغ کے کنارے اونٹ بندھا ہوا تھا۔ وہ آپﷺ کو دیکھ کر بلبلانے لگا اور آپﷺ کے سامنے اپنی گردن جھکاری، حضورﷺ نے اس کی گردن پر انتہائی شفقت سے تھپتھپایا۔

ادھر یہ منظر ادھر اونٹ کا مالک بھاگا ہوا آیا اور دست بستہ کھڑا ہو گیا حضورﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا:
”اے ظالم تو نے اسے کھانے کو کیوں نہ دیا تو ظالم ہے تجھ سے باز پرس ہوگی۔“ اس کے علاوہ حضورﷺ نے دشمنوں تک کے درخت کاٹنے اور جلانے کی ممانعت کر دی اور ان کی نشونما پر اتنا زور دیا کہ لگائے ہوئے درخت کا سایہ میں کوئی بیٹھےگا تو اس کا اجر درخت لگانے والے کو ملے گا۔ اور اس درخت ےس جو جاندار پھل کھائے گا تو اس کا بھی اجر لگانے والے کو ملے گا، جب حالت یہ ہوتو اللہ اور رسولﷺ کس طرح انسانی تعلقات سے قطع نظر کر سکتے تھے۔ جس پر دنیا کے امن و عافیت کا انحصار ہے اور یہ حقوق و فرائض کی حیثیت رکھتےہیں۔

سوال۲: اولاد کے حقوق پر تفصیلی نوٹ لکھیں۔

جواب:اولاد کے حقوق ویا والدین کے فرائض ہیں جس طرح اولاد پر والدین کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح اسلام نے والدین پر بھی اولاد کے کچھ حقوق متعین کیے ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے والدین کی فطرت میں اولاد کی محبت پیدا کی ہے لیکن ان کے حقوق کا تعین اسلام نے کرکے انہیں واضح اور مستحکم کر دیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ والدین پر اولاد کے حقوق کو اسلام کی طرف سے متعینہ طور پر بیان کر دیا جائے تاکہ اس میں فروگزاشت اور تساہل اختیار نہ کیا جائے اور اولاد کی پرورش اور تربیت میں افراد و تفریط اور کمی و بیشی کا امکان نہ رہے۔

پرورش:

والدین پر اولاد کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کی پروش کی جائے۔ ان کی خبر گیری ان کی صحت و تندرستی کی حفاظت والدین پر فرض ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اس کے لئے ہر طرح کی تکلیف اور زحمت کو خوشدلی سے برداشت کیا جائے۔حکم الہیٰ ہے:
”اور مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو سال دودھ پلائیں اگر وہ اپنے دودھ پلانے کی مدت کو پورا کر چاہیں۔“ (سورۃ البقرۃ: ۲۳۳)
اور اگر والدہ موجود نہ ہو تو باپ پر فرض عائد کیا گیا ہے کہ وہ اولاد کو دودھ پلانے کا انتظام کرے اور لڑکے کو لڑکیوں پر ترجیح نہ دے بلکہ آپﷺ نے لڑکیوں کی پرورش کے بارے میں فرمایا: ”جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش ان کے بالغ ہونے تک کرتا رہا تو قیامت کے دن میں اور وہ شخص اس طرح قریب ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں۔“حضورﷺ نے دو انگلیاں ملا کر بتایا“ (ترمذی)

تعلیم و تربیت:

والدین پر دوسرا فرض یہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھیں اور ساتھ ہی ان کی روحانی اور اخلاقی تعلیم پر توجہ مبذول کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کے ذریعہ والدین کو حکم دیا ہےکہ:
”اے ایمان والو! تم خود کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ۔“(سورۃ التحریم:۶)
اس سے واضح ہے کہ صرف اپنی اولاد کی پرورش ہی والدین کی ذمہ داری نہیں بلکہ ان کی تربیت اس انداز میں کریں کہ وہ اسلام کے احکام پر عمل کے عادی ہو جائیں۔

عقیقہ:

دراصل عقیقہ بچہ کی پیدائش بالوں کے منڈوا کر بطور شکرانہ جانور کو ذبح کرکے غریبوں اور مسکیوں کو کھلانا دینا ہے۔ یہ خیرات ہی کی ایک قسم ہے اور چونکہ یہ صدقہ اس لئے ہر ایک پر فرض نہیں صرف مقدرت (دولت مندی) اور استطاعت رکھنے والوں کے لئے ضروری ہے اور امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک سنت ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
”کڑکی یا لڑکے کی پیدائش کے ساتھ عقیقہ ہے تو اس کی طرف سے خون بہاؤ(جانور زبح کرو)اور بالوں کی گندگی دور کرو۔“

نکاح میں رضا مندی:

جب بچے بڑے ہو جائیں تو والدین کا چوتھا فرض یہ ہے کہ اپنی اسطاعت اور مقدور(گنجائش) کے مطابق مال خرچ کرکے ان کی شادی کریں لیکن شرط یہ ہے کہ اس شادی سے لڑکا اور لڑکی راضی ہوں اور یہ رضا مندی آزدانہ ہو زبردستی اور جبر سے نہ ہو۔ یہ شرط اس لئے ضروری رکھی گئی ہے کہ والدین اپنی پسند سے بعض موقعوں پر ایسی جگہ ان کی شادی کر دیتے ہیں جہاں وہ راضی نہیں ہوتے۔ اس طرح وہ زندگی بھر خلجان(اندیشے، فکر) میں مبتلا رہتے ہیں۔اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہؓ نے ایک روایت بیان کی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:

”بیوہ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے اسی طرح کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک دریافت نہ کر لیا جائے۔“ یہ سن کر صحابہ رضی اللہ اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ کنواری سے اجازت کیسے لی جائے۔ آپﷺ نے فرمایا”اس کی صورت یہ ہے کہ خاموش رہے(گویا اجازت مانگنے پر خاموش رہے)“

سوال۳: اولاد کے فرائض قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کریں۔

والدین کے حقوق:

معاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی ہے وہ والدین ہیں۔ جو محض اس کے وجود میں لانے کا ذریعہ ہی نہیں ہوتے ، بلکہ اس کی پروش اور تربیت کا بھی سامان ہوتے ہیں۔ دنیا میں صرف والدین ہی کی ذات ہے جو اپنی راحت اولاد کی راحت پر قربان کر دیتی ہے۔

ان کی شفقت، اولاد کے لیے رحمت باری کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے، جو انھیں مشکلات زمانہ کی دھوپ سے بچا کر پروان چڑھاتی ہے۔ انسانیت کا وجود اللہ تعالی کے بعد والدین ہی کا مرہون منت ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے بعد انہی کا حق ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
ترجمہ: اور حکم کر چکا تیرارب کہ نہ پوجو اس کے سوائے اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر پہنچ جائیں تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان میں سے، یا دونوں، تو نہ کہہ ان کو ” ہوں!” اور نہ جھڑک ان کو۔ اور کہہ ان سے بات ادب کی۔ اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کر کے نیاز مندی سے ، اور کہہ اے رب، ان پر رحم کر، جیسا پالا انھوں نے مجھ کو چھوٹا سا “۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ والدین کا نافرمان شخص جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے بوڑھے والدین کی خدمت پر بہت زور دیا ہے، کیونکہ وہ اپنی زندگی کی صلاحیتیں اور توانائیاں اولاد پر صرف کر چکے ہوتے ہیں، اس لیے اولاد کا فرض ہے کہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بن کر احسان شناسی کا ثبوت دے۔

ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی محفل میں ارشاد فرمایا۔ ” ذلیل و خوار ہوا۔ ذلیل و خوار ہوا ذلیل و خوار ہوا۔ ” صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے دریافت کیا۔ کون ؟ یار سول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم) ارشاد فرمایا۔ “وہ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی۔ (مسند احمد بن حنبل)