روزہ کا مفہوم، اہمیت، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 11:

سوال۱: روزے کےانفرادی فوائد بیان کریں۔

احساس بندگی:

روزہ کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کا اعتراف مستحکم ہوتا ہے اور یہ شعور اسے اتنا مستحکم اور ثابت قدم بنا دیتا ہے کہ احکام الہیٰ کے سامنے روزہ دار اپنی آزادی اور خود مختاری سے پوری طرح دستبردار ہوجاتا ہے۔

اطاعت امر:

روزہ کا فائدہ یہ ہے کہ احساس بندگی کے ساتھ جو چیز لازمی طور پر پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ انسان جس ذات کو اپنا معبود اور خود کو بندہ سمجھتا ہے اس کی اطاعت کرکے بندگی کا حق ادا کرے کیونکہ آپ جس کی بندگی کا اقرار کریں گے تو لازمی طور پر اس کی اطاعت کا ثبوت بھی دیں گے تب ہی آپ کا اقرار تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے اس کا مقصد احساس بندگی کی یاروحانی کے ساتھ اطاعت امر کی بھی تربیت دیتا ہے۔ روزہ انسان کو کئی کئی گھنٹے ایک پورے مہینے کے دنوں میں ایسی حالت میں رکھتا ہے کہ اس کو اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی اور اپنے پروردگار کے حکم کا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ جب تک اس کا حکم نہ ہو وہ اپنی ذاتی خواہشات کو پورا نہیں کر سکتا۔

تعمیر سیرت:

روزہ کا یہ تیسرا فائدہ ہے جس کی بدولت روزہ دار کی بہترین سیرت کی تعمیر ہوتی ہے قرآن حکیم کہتا ہےک ہ روزہ ان کی پوری زندگی کو تقویٰ کے مقام تک پہنچا دیتا ہے روزہ کا مقصد دوسری عبادت کی طرح ان کو فجور اور گناہگاریوں سے بچانا ہے۔

سوال۲: روزے کے کیا معنی ہیں ؟

جواب: عربی اور شریعت میں روزہ کے لئے لفظ صوم استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پورا کرنے کی ممانعت ہے، روزہ بھی ہر نبی کی تعلیمات میں ضروری اور فرض قرار دیا گیا۔ نماز روزہ مرہ کی عمومی نظام تربیت ہے، اور روزہ سال بھر میں ایک مہینے رمضان میں ایک زبردست انقلابی نظام، تربیت ہے، جو مجموعی طور پر مسلمان کو تقریباً بارہ سے چودہ گھنٹے تک اپنے نظم و ضبط کے شکنجے میں کسے رکھتا ہے تاکہ وہ روزمرہ کی ترتیب کی کمی کو پورا کر سکے۔

روزہ صرف کھانے پینے سے رک جانے پر منحصر نہیں بلکہ اس میں آنکھیں، زبان دل اور ہاتھ پاؤں اور تمام قوتوں کو احکام رب کائنات کے مطابق عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا اور نفسانی خواہشات پر سخت گرفت کی گئی ہے۔

شریعت محمدیﷺ سے پہلے بھی ہر شریعت کے نظام میں روزہ شامل تھا لیکن زیادہ تعداد میں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم اور حضورﷺ کے ذریعہ اس آخری دین کے لئے اس کی فرضیت صرف ایک ماہ میں رمضان تک محدود کر دی۔ اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اس فرض شریعت سے بھی ہمیں کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

سوال۳: ضبطِ نفس کے متعلق لکھیں؟

جواب: انسان کو نیکی کے راستے، اور برائی کے راستے پر ڈالنے والی اہم چیز خواہش نفس ہے۔خواہشات اگر اللہ تعالیٰ کے تابع رہیں تو انسان کی انفرادی اور اجتماعی خوبیوں کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔لیکن جب خواہشات نفسانی ہدایت زبانی کے تابع نہیں رہتیں، تو انسان کا حیوانی سطح سے بھی گرادیتی ہیں۔ روزے کا اصل مقصد انسان کی خواہشات کو احکام الہیٰ کے تابع کرکے اسے متقی بنانا ہے۔جو شخص ہر سال، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر پورا مہینہ اپنی بنیادی خواہشات پر قابو پانے کی مشق کامیابی سے مکمل کرلے تو اسے ضبط نفس کی وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے وہ شیطان کی ہر ترغیب کا آسانی سے مقابلہ کر سکتا ہے۔

سوال۴: روزہ کا اجتماعی فوائد بیان کریں۔

جواب: روزہ کا فائدہ یہ بھی ہے کہ روزہ کے ذریعے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے لوگوں میں فطری اور اصلی وحدت ابھرآتی ہےجہاں زبان، نسل قبیلے اور ملک کی تفریق اور جداگانہ حیثیت باقی نہیں رہتی اور یہی سب تعریفیں انسان کشی، جنگ و جدل اور فساد کا سبب ہوتی ہیں جنہیں روزہ کی ہمہ گیری ختم کر دیتی ہےاور یہی وہ اصولی رشتہ ہے جو ایک کو دوسرے سے باندھ دیتا ہے جس کے اثر سے تصور آدمیت پیدا ہوتا ہے اور ان میں یک رنگی پیدا ہوتی ہے اور ایک پوری امت خواہ ان کی قومیں الگ الگ ہوں ان کے وطن جداگانہ ہوں ان کی نسلیں مختلف ہوں اور جو کہیں بھی آباد ہوں سب متحد ہو جاتے ہیں۔

تیسرا اجتماعی فائدہ امدادباہمی ہے جو امیر و غریب کی تفریق مٹا کر اللہ تعالیٰ اپنے سے کم تر لوگوں کی مدد کے لئے آمادہ کرتا ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ امیروں میں غریبوں اور ناداروں کی مدد کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور ان کی بھوک پیاس اور بے وسیلہ ہونے کی حالت کو حقیقی طریقہ پر صاحب وسیلہ لوگوں میں پیدا کرتا اور دوسرے کے دکھ درد کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس قوم میں اپنے سے کمتر لوگوں کی مدد کا جذبہ ہو اور جہاں انفرادی طور پر بھی ایک مستحق کی مدد کی جاتی ہو تو وہ قوم خوشحالی میں زندگی گزارتی ہے۔