منتخب احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

0
  • سبق نمبر 34:

منتخب احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

إِنَّمَا الاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِ امْرِءٍ مَا نَوی۔ (بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی،ابن ماجہ ، اصول کافی بہ الفاظ مختلفہ)

ترجمہ:

بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پرے اور بے شک انسان وہی کچھ پائے گا جو اس نےنیت کی ہوگی۔

تشریح:

حدیث بالا ایسی حدیث ہے جسے کثرت سے محدثین نے روایت کیا ہے اور اس کی اہمیت اس بنا پر ہے کہ انسانی اعمال پر ہی جزا اور سزا کا انحصار ہے۔ اسلام محض نظریاتی اور ذہنی و فکری مذہب نہیں ہے بلکہ اس نے جہاں انسانی خیالات اور فکری صلاحیتوں کی درستی اور استحکام کی طرف توجہ کی ہے وہیں اس کے نتیجہ میں انسانی عمل میں خلوص پر بھی زور دیا ہے کیونکہ عمل ہی کسی کی نیت اور خیالات و معتقدار کا ثبوت ہوتا ہے۔

إِنَّمَا بُعِثْتُ لأُتممَ حُسْنَ الْأَخْلَاقِ۔ (موطا امام مالک)

ترجمہ:

بے شک مجھے اس خاطر رسول بنا کر بھیجا گیا ہے تاکہ میں اعلی اخلاق کی تکمیل کروں۔

تشریح:

سب سے پہلی حسن اخلاق کی مثال تو آپﷺ کے ”صادق و امین“ ہونے کی ہے جو بعثت اور اعلان نبوتﷺ سے پہلے تمام عرب میں مشہور تھی۔ سیرت نبویﷺ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ آپﷺ کا ہر عمل اخلاق حسنہ کی بہترین مثال تھا۔ انسانی زندگی کا کوئی پہلو اس کی روشنی سے خالی نہیں اسی لئے حضور ﷺ نے اپنی بعثت اور نبوت کا مقصود اخلاق فاضلہ کی تکمیل بتایا ہے۔

لا يُؤْ مِن أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِہ وَالنَّاسِ اَجْمَعِينَ (بخاری، مسلم)

ترجمہ :

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُسے اس کے والدین اور اولاد اور سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔

تشریح:

محبت رسولﷺ عین ایمان ہے کہ بغیر اس کے ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ باپ صرف اس کی پیدائش نشوونما اور جسمانی صحت اور ضروریات کا کفیل ہوتا ہے ا س لئے ان تمام ذمہ داریوں میں کہیں نہ کہیں اولاد کو اپنی خواہشات کی تکمیل اور حصول آرزو میں کمی محسوس ہوتی ہے اور اس کی پرورش صرف جسمانی نشونما تک محدود ہوتی ہے مگر رسولﷺ اس سے بڑھ کر اس کی روحانی اور اخلاقی نشونما کرتے ہیں جو پائیدار ہمہ گیر ہی نہیں ہوتی دلی سکون کے ساتھ اسے آخرت تک کامیاب و بامراد کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ احکام رسولﷺ کی بجا آوری میں محبت سب سے زیادہ اجر کا سبب ہے۔

لَا يَرْحَمُهُ اللهُ مَن يَرْحمِ النَّاس (مسلم ، ترمذی، مسند احمد بن حنبل)

ترجمہ:

اللہ تعالی اس پر رحم نہیں فرماتے جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔

تشریح:

ظاہر ہے کہ دنیا میں کون ایسا ہوگا جس سے فروگزاشتیں نہ ہوں لیکن غافل انسان دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اسے اپنی غلطیوں کا خیال نہیں آتا۔ کوئی مالدار ہے تو دولت کے گھمنڈ میں غریبوں کی مدد کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اپنے بارے میں کبھی نہیں سوچتا کہ اس کی بھی یہ حالت ہو سکتی ہے۔ خود تو دوسروں سے اچھے توقعات رکھتا ہے مگر دوسرے ضرورت مندوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ یہ نہیں سمجھتا کہ جس اللہ نے سب کچھ اسے دیا ہے وہ اس سے چھین بھی سکتا ہے ایسے خود پسند اور متکبر انسانوں کو ہدایت کے لئے فرمایا کہ اگر تم اللہ سے اس کی امید رکھتے ہو کہ وہ تمہارے قصوروں اور گناہوں پر رحم کرے تو اس کا واحد طریقہ یہ ہےک ہ تم رضا الہیٰ کے لئے دوسرے انسانوں پر رحم کرو تو اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔

كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَعِرْضُهُ۔ (ابن ماجہ ، مسند احمد بن حنبل)

ترجمہ:

ہر مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت۔

تشریح:

مجموعی طور پر غور کریں تو ظاہر ہوگا کہ رسول اللہﷺ نے یک جائی طور پر ان تینوں باتوں کا ذکر کیا اور سب کے لئے حرام ہونے کا حکم دیا اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے مطابق مسلمانوں کی جانیں ان کے اموال اور ان کی عزت و ناموس دوسرے مسلمانوں کے لئے اسی طرح قابل احترام ہیں جیسی بھائیوں کے لئے اپنے بھائیوں کی جانیں، مال اور عزت و ناموس حرام ہے۔

مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ۔ (مسند احمد بن حنبل، اصول کافی باالمعنی)

ترجمہ :

جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہو گا۔

تشریح:

اللہ تعالیٰ نےا پنے خاص کرم سے ہمیں اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنےکے طریقوں کی بھی ہدایت فرمائی۔ اس میں میانہ روی کو بڑی اہمت حاصل ہے اور جو ایسا نہ کریں انہیں مسرف یعنی فضول خرچ فرما کر اس کی مذمت یہاں تک کی کہ فرمایا:
بے شک فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں۔ (سورۃ نبی اسرائیل:۲۷)

گویا اللہ کے نزدیک برائیاں پھیلانے والے اللہ کے نافرمان ہیں۔ اسلام کی تعلیم ہے کہ جو کچھ تمہیں حاصل ہو اس کو اللہ کا کرم سمجھ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد اللہ کی رضا کے لئے اس کے حکم کے مطابق صرف کرو۔

مَنْ سَلَكَ طَرِيقاً، يَطْلُبُ فِيہ عِلْماً سَلَكَ اللهُ بِه طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الجَنَّةِ۔ (بخاری، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل)

ترجمہ :

جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے کسی راستہ پر لے جاتا ہے۔

تشریح:

اسلام نے علم کو اس قدر فضیلت دی کہ دوسرے مذاہب میں اس کی مثال کہیں نہیں ملتی اس کی دلیل یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی میں ارشاد ربانی ہے:
اللہ نے انسان کو ایسا علم دیا۔ جس کو وہ قطعاً نہ جانتا تھا۔ (سورۃ العلق:۵)

جو شخص راہ طلب علمی میں نکلتا ہے کہ وہ کہیں سے حاصلکرے اور اسی تک و دو میں لگا رہتا ہے کہ علم حاصل کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ جستجو اور نیک خؤاہش اس درجہ پسند آتی ہے کہ اللہ اسے جنت کا راستہ دکھا دیتا ہے۔

الْمُؤمِنُ اَخُوُ الْمُؤمِنِ كَالْجَسَدِ الْوَاحِدِ انِ اسْشتکَى شَيئًا مِنْهُ وَجَدَ اَلَهُمْ ذلك فی سَائِرِ جَسَدِه۔ (مسلم ، ترمذی، مسند احمد بن حنبل، اصول کافی)

ترجمہ :

ہر مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے۔ جیسے ایک جسم۔ اگر اس جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں مبتلا ہو تو وہ اپنے سارے جسم میں تکلیف محسوس کرے گا۔

تشریح:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اس لئے اللہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے کہ ایک بھائی تکلیف اور مصیبت میں مبتلا ہو اور دوسرا بھائی آرام سے زندگی گزارے، اسلام ایسے معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے جس میں سب ایک دوسرے کے مدد گار ہوں اور ایک کی تکلیف دوسرے کی اذیت کا سبب بن جائے اس کے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ حتیٰ الوسیع اس کی تکلیف دور کرنے کے لئے اس کی مدد کی جائے۔ یہ بات رسول اللہﷺ نے کی بلیغ وضاحت اور مثال سے واضح فرمائی ہے”کہ اگر انسان کے جسم میں کوئی عضو تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو تمام جسم اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اور اس وقت تک اسے چین نہیں آتا جب تک ‘جسم کے اس حصہ کی تکلی رفع نہ ہو جائے۔“