مقاصد زکوٰۃ ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 12:

سوال۱: مقاصد زکوٰۃ پر تفصلی جواب تحریر کریں ۔

جواب: تزکیہ نفس:

زکوٰۃ کا تعلق انفرادی طور پر الگ الگ اپنی اپنی ذات سے ہوتا ہے اس طرح زکوٰۃ دینے والا اپنے دل کو دنیا کی حرص و پاک کرکے تقویٰ حاصل کرتا ہے۔ رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ” دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑہے“ جس طرح نماز کا ظاہری پہلو اس کے ارکان ہیں لیکن اصل چیز اللہ کی طرف توجہ ہے اس طرح زکوٰۃ کا ظاہری پہلو نقد و جنس کی ادائیگی ہے لیکن دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو برتری دینا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
”اس شخص کو جہنم سے دور رکھا جائے گا جو متقی ہو اور جو اپنے تزکیہ(نفس) کی خاطر دوسروں کو دولت دے۔“(اللیل:۱۸۔۱۷)

امداد باہمی:

زکوٰۃ کا دوسرا مقصد ملک کے نادار لوگوں کی صرف اللہ کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے لئے مالی امداد کرنا ہے اسی طرح دینے والے میں اپنی برتری کااحساس اور لینے والے میں کمتری کا احساس نہیں ہوتا۔ زکوٰۃ صرف اسے مالداروں پر فرض ہے جو مقروض نہ ہوں۔ جنہیں ضروریات زندگی حاصل ہوں اور پانی زائد دولت کے ایک سال تک مالک رہے ہوں اس کے علاوہ صرف اس مال پر فرض ہے جو ”نامیہ“ یعنی بڑھنے والے ہوں۔ پھر اصل رقم میں اس سے بھی ایک معمولی حصہ مقرر کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ ”یہ سب مال وزر خود تم نے پیدا نہیں کیا بلکہ سب کچھ اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے تو اس کا شکر زکوٰۃ کے ذریعہ ادا کرو۔“

دین کی نصرت:

زکوٰۃ کا ایک اہم مقصد دین کی حفاظت اور نصرت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”تم اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو۔“(سورۃ الصف:۶۱)

مطلب صاف ظاہر ہے کہ دین کی حفاظت کے لئے مسلح جہاد ضرورت ہے وہاں حفاظت دین کے لئے مال خرچ کرنے سے جان چرانا ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
زکوۃ۲ھ میں مسلمانوں پر فرض ہوئی خود رسول اللہﷺ کا دل مسکیوں کا ہمدر اور درد مندوں کا غمگسار تھا اسی لئے ابتداء اسلام سے ہی غریبوں کی مدد استطاعت والے اور مالدار کیا کرتے تھے مگر ایسا کوئی قانون مقرر نہ تھا اسی لئے مالدار جو کچھ کرتے وہ نیک دلی سے کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بعد جب اسلامی ریسات کی بنیاد پڑگئی تو اسے تیسرا رکن قرار دے کر فرض کر دیا۔

سوال۲:زکوۃ کے معنی و مفہوم بیان کریں۔

جواب: زکوۃ کےلغوی معنی پاک کرنے کے ہیں۔ جو انسان زکوۃ ادا کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نہ صرف اپنے مال کو پاک کر لیتا ہے، بلکہ اس کے ذریعے اپنے دل کو بھی دولت کی ہوس سے پاک کرتا ہے اور دولت کے مقابلے میں اللہ کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے اور اسی کے حکم پر اپنی دولت کو قربان کرتا ہے۔

سوال۳: مستحقین زکوۃٰ کون ہیں؟

  • جواب: مستحقین زکوۃ یعنی ان اشخاص کا تعین بھی ضروری ہے جنہیں دی جا سکے تو قرآن حکیم سورۃ توبہ کی آیت نمبر ۹ کے مطابق مندرجہ ذیل اشخاص مستحق قرار پائے۔
  • فقیر
  • مسکین
  • زکوۃ کے محصل
  • وہ لوگ جن کی ولد ہی اسلام کے منظور ہو
  • غلاموں کو غلامی سے نجات دلانے کے
  • قرض داروں کو قرض اتارنے کے لئے
  • راہ اللہ میں
  • مسافروں کے لئے

فرضیت زکوۃ کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ ملک عرب جس میں نوے فیصد سے زیادہ نادار و مفلوک الحال تھے اس نظام کے بعد چند سال میں ہی عام طور پر ایسے خوشحال ہوگئے کہ زکوٰۃ دینے والا مستحقین زکوٰۃ کا تلاش کرتا پھرتا اور کوئی لینے والا نہ ملتا۔

سوال۴:زکوٰۃ کو بیان کریں:

جواب:زکوٰۃ کے بارے میں قرآن و سنت پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عبادات میں اس کا مقام نماز کے بعد ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں جہاں ایمان صالح کا ذکر کیا گیا تو پہلی نماز اور دوسری زکوٰۃ کا ذکر آیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز اور زکوٰۃ پر جس نے عمل کر لیا اس نے گویا پورے دین پر عمل کر لیا۔ نماز کا تعلق ”حقوق اللہ“سے اور زکوٰۃ کا تعلق ”حقوق العباد“ سے ہے۔

قرآن حکیم نے بار بار ہمیں بتایا ہے کہ دین و ایمان میں اسی وقت قوت پیدا ہو سکتی ہے جب اللہ کی محبت ہر دوسری چیز پر غالب آجائے اس لئے نماز اور زکوٰۃ کو ایسا ہی اللہ کا عبادت گزار بنانے کی مؤثر تدبیر ہیں۔ نماز ان کو اللہ اور آخرت کی طرف لے جاتی ہے اور زکوٰۃ اسے دنیا کی طرف لڑھکنے سے روکتی ہے۔

زکوٰۃ کے معنیٰ عربی لغت میں پاک کرنے کے ہیں اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے مال میں مقررہ رقم بطور زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔ وہ اپنے مال کو پاک کر لیتا ہے اور اس کا دل بھی مال کی محبت اور خواہشات کی گندگی سے پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس میں اللہ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک ایماندار انسان اس کا بھی یقین حاصل کر لیتا ہے مال و دولت اور اسباب دوسائل خود اس کے پیدا کئے ہوئے نہیں ہیں اس لئے وہ حقیقی طور پر ان کا مالک نہیں بلکہ سب کچھ اللہ کیا دیا ہوا ہے اور اس کے حیثیت ایک”امین“ کی ہے جس کو حفاظت اور خرچ کا وہ ذمہ دار ہے۔ زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اکثر آیات میں جہاں نماز پڑھتے رہنے کی تاکید کی وہیں اسی کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم بھی دیا ہے جس سے ثابت ہے کہ نماز جسمانی عبادت ہے تو زکوٰۃ مالی عبادت کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہم کلام الہیٰ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کی ادائیگی کو اپنے ذمہ قرض فرمایا جس کا بدلہ آخرت میں اللہ تعالیٰ خود کئی گنا زیادہ عنایت فرمائے گا چنانچہ سورۃ تغابن۱۷ میں ارشاد فرمایا گیا:
ترجمہ: یعنی اگر تم قرض دو گے اللہ کو اچھی طرح تو وہ کئی گنا کردے گا اسے تمہارے لئے اور بخش دے گا تم کو اور اللہ تو قدردان اور تحمل والا ہے۔

اس کا مطلب واضح ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کتنی بڑی نعمت ہے اب دوسری طرف نظر ڈالئے کہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سخت ترین عذاب کی خبر دیتا ہے جو سورۃ توبہ کی آیت نمبر ۳۴ سے ظاہر ہے۔