ذکر الہیٰ کی مفہوم، فوائد، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 25:

سوال۱: ذکر الہیٰ سے کیا مراد ہے؟

جواب: ذکر کا استعمال عربی زبان میں یاد رکھنے اور قول و بیان کے محفوظ ہونے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اسے ”یاد رکھنے“کے معنی میں ارشاد فرمایا:
الا بذکر اللہ تطمین القلوب
”ہوشیارہو (مسلمانو!)کہ اللہ کی یاد سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔“(سورۃالرعد:۲۸)

امام راغب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ذکر سے مراد وہ کیفیت ہے جس کے ذریعہ انسان جو معرفت حاصل کرے، اسے یاد رکھے گویا وہ حفظ اور یادداشت کی ہی ایک صورت ہے۔کبھی یہ لفظ اس وقت بھی استعمال ہوتا ہے جب گفتگو کے درمیان کوئی بات یاد آجائے۔ اسی لئے ان کے نزدیک ذکر کی دوقسمیں ہیں۔ ایک ذکر قلبہ دوسرا ذکر لسانی یا زبان۔ پھر ان میں سے ہر ایک دو دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ بھولنے کے بعد پھر یاد آجانا اور دوسرے بھولے ہوئے کا یاد رہنا اور ہمیشہ اور ہرحال میں یاد رکھنا۔ اس کے علاوہ یہ لفظ گفتگو اور بیان کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

سوال۲: قرآن مجید کی روشنی میں ذکرالہیٰ کو بیان کریں؟

اب ہم اسلامی اصطلاح میں اس کے معنی اور مفہوم کو تلاش کریں تو ہمیں آیات قرآنی کو سمجھنا پڑے گا۔
ایک موقعہ پر اسے اطاعت و یادالہیٰ کے معنی میں ارشاد فرمایا گیا۔
فاذکرونی اذکرکم
”پس تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔“(سورۃ بقرۃ:۱۵۲)

دوسرے مقام پر نماز پنجگانہ کا مفہوم نکلتا ہے:
”پس جب امن میسر آجائےتو اللہ کو اس طرح یاد رکرو جس طرح اللہ نے تمہیں سکھایا۔“ (البقرۃ: ۲۳۹)
”اے مومنو! جب اذان دی جائے جمہ کے لئے نمازکی ذکر الہیٰ کی طرف دوڑ پڑو۔“(سورۃ جمعہ:۹)

سوال۳: سیرت نبویﷺ کی روشنی سے ذکر الہیٰ کو بیان کریں۔

جواب: سیرت نبویﷺ میں ذکر الہیٰ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ صبح اٹھنے،ر ات سونے، کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے وقت بلکہ ہر حالت میں ذکر الہیٰ فرمایا کرتے۔ روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا میں اپنے رب سے طلب مغفرت کے لئے ہر روز سات سو سترمرتبہ سے زیادہ دعا کرتا ہوں۔ سفر کو روانہ ہوتے ہوتے سفر سے واپسی پر کھانا شروع کرنے سے پہلے اور کھانےکے بعد ہر کام شروع کرتے ہوئے اور اسے انجام دینے کے بعد دعا اور ذکر الہیٰ فرمایا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ نے دعائیں کیں اور جس طرح ذکر الہیٰ فرمایا اس کے لئے مستقل کتابیں تدوین کی گئیں۔

عین میدان جنگ میں جب تیر سنسنارہے ہیں تلواریں چل رہی ہیں، میدان کارزار گرم ہے اس وقت بھی آپﷺ کی زبان مبارک ذکرالہیٰ سے خاموش نہیں رہی۔ بدر کے معرکہ میں جس کو ”یوم الفرقان“ بھی کہتے ہیں ایک طرف غالم، خونخوار دشمنوں کا لشکر لوہے میں ڈوبا ہوا اور پوری طرح مسلح اور دوسری جانب بے سروسامان اور تقریباً نہتے مسلمان نبردآزما موت و زندگیکا مرحلہ سامنے ہے لیکن اللہ کا پیارا نبی ﷺسب کچھ بھول کر اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہے اور عرض کررہا ہے۔”اے میرے رب اپنے نصرت کے وعدہ کو پورا فرمایا۔اے اللہ آج اگر یہ مٹھی بھر تیرے بندے مٹ گئے تو قیامت تک اس دنیا میں تیرا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا۔“

سوال۴: غزوہ حنین کا واقعہ بیان کریں؟

جواب: غزوہ حنین کے موقع پر آپﷺ کی زبان مبارک پر ذکرالہیٰ جاری تھا۔ عین میدان جہاد میں نماز کا وقت آجاتا ہے تو ایک جماعت نماز کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور اس کے علاوہ لوگ دشمنوں اور کافروں سے جنگ میں مصروف رہتے ہیں۔ جب یہ گروہ ذکر الہیٰ سے فارغ ہوتا ہے تو اس کی جگہ سنبھال لیتا ہے اور دوسرے مجاہدین ذکر الہیٰ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

فتح ونصرت ایسے مردان رب کا مقدر تھی اور تائید الہیٰ ان کی پکار کی منتظر ۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ دیئے۔ ان کے غرور و تکبر کا ملیا میٹ کر دیا اور جہاں آگ کی پرستش اور ناقوس کی آواز بلند ہوتی تھی اللہ جل شانہ، کا نام بلند کیا اور جہاں پہنچے دکھی انسانوں کو جابروں اور ظالموں سے نجات دلائی۔ پتھر بتوں کو پاش پاش کرکے نعرۂ تکبیر اور ذکر الہیٰ کا غلبہ بلند کیا، انہوں نے اللہ کو یاد کیا اور اللہ نے انہیں یاد فرمایا کیونکہ رب العزت نے فرمایا تھا کہ تم مانگو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ (سورۃ غافر:۶۰)