مساوات کی تعریف، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 22:

سوال۱:مساوات کے بارے میں رسول اللہ کا اسوہ حسنہ کیا ہے؟

مساوات:

مساوات کے لغوی معنی برابر کرنے یا برابری کے ہیں لیکن اسلام کی اصطلاح میں وحدت اسلامی میں داخل ہونے والے ہر شخص کو برابری کا حق دینا اور اسے تسلیم کرنا مساوات ہے۔

انسان کی شکل و صورت، علم و سائل میں برابر نہیں ہوتے اس لئے معاملات میں مساوات ممکن نہیں۔ ایک وفادار ایک بے وفا کے برابر نہیں ہوتا۔ ایک فاسق ایک دیندار کے برابری نہیں کر سکتا۔ایک کافر ایک مسلم کے مساوی نہیں ہوتا بلکہ جو شخص حلقہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے تو گویا وہ حکم الہیٰ اور فرمان رسولﷺ پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہے۔ اس صورت میں شریعت نے ان کے درمیان مساوات یعنی برابری قائم کر دی ہے۔ کہ ان میں ہر ایک دوسرے کے مقابلہ میں برابری کا حق رکھتا ہے یہی اصل مساوات ہے۔ اسلام نے حکم رب العالمین اور فرمان رسولﷺ کے سامنے کسی کو برتری نہیں دی جہاں تعمیل حکم میں برابر ہیں۔

اسلام کی نظر اصل حقیقت کی طرف ہے اللہ کے نزدیک سب یکساں حیثیت رکھتے ہیں ہاں اعمال کے سلسلہ میں ان کی پستی اور برتری کے درمیان فرق مراتب ہے لیکن جہاں تک قانونی احترام اور پابندی کا سوال ہے تو سب پر مساوی طریقہ سے ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔

سوال۲: اسلام میں برتری کا معیار کیا ہے؟

جواب: اسلام رنگ و نسل اور ملک و قوم دولت وسائل، شکل و صورت میں فرق نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک سب برابر ہیں۔ اولاد آدم علیہ السلام البتہ ان کے درمیان اگر فرق ہے تو تعمیل حکم کے مقام پر جو اللہ تعالیٰ کا زیادہ فرمانبردار ہوگا وہ فاسق سے برتر اور بلند مقام ہے۔ عبادت گزار غیر عبادت گزار سے اسلام کے نزدیک بہتر ہے۔

سوال۳: اسلام کو تمام ادیان پر فضیلت کیسے حاصل ہے؟

اسلام تمام ادیان میں یہ فضیلت رکھتا ہے کہ اس نے ایک نسل کی تفریق کو پسند نہ کیا اور سب کو حکم کی بجاآوری کا برابر ذمہ ٹھہرایا اور رنگ و نسل، قبیلہ روایت اور اسباب و وسائل کی کمی و زیادتی کو معیار انسانیت قرار نہ دیا۔ تعمیل حکم میں سب کو یکساں پابند کیا۔ سزا میں تحفیف و زیادتی کے رویہ کو باطل قرار دیا اور انسان کے قائم کی ہوئی عدم مساوات کی تمام شکلوں کو ختم کر دیا اور گزشتہ قوموں کے مقرر کردہ اونچ نیچ کے مراتب اور برتری، کمتری کا ہمیشہ کے لئے استیصال کردیا اور محمود و ایاز، حاکم و محکوم، غریب و مالدار کو ایک صف میں کھڑا کر دیا۔

سوال۴:رسول اللہﷺکے اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئےمساوات کو بیان کریں۔

جواب: رسول اکرمﷺ کی عملی زندگی مساوات کے اسی اعلیٰ اصول پر قائم تھی کہ بدترین دشمن اور بہترین دوست دونوں قانون کے سامنے یکساں تھے، ایک قریشہ عورت چوری کے الزام میں پکڑی گئی، کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے اس کے معزز قبیلہ قریش کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے معاملہ میں نرمی کرنے کی درخواست کی۔

رسول اللہﷺ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے اور فرمایا گزشتہ قومیں اسی لئےتباہ کردی گئیں کہ ان میں جب معزز جرم کرتا تو اس سے کچھ نہ کہا جاتا۔ پھر غصہ میں فرمایا”اللہ کی قسم اگر فاطمہ رضی اللہ عنہ بنت محمدﷺ بھی یہ جرم کرتی تو اس کے بھی ہاٹھ کاٹ دیئے جاتے۔“ یہ ہے اصلی مساوات جسے اسلام نے قائم و ثابت کرکے انسانوں کو بے جا طرف روادی سے روکا اور ہر انسان کے حقوق کی طرف متوجہ کیا اور خود رسول اللہﷺ نے حقوق کے مقابلہ خود کو دوسروں کے برابر سمجھا۔

وصال سے پہلے آپﷺ نے اسی لئے مجمع عام میں فرمایا کسی کا کچھ قرض مجھ پر ہو وہ مجھ سے لےلے اور کسی کو مجھ ست تکلیف پہنچی ہو تو وہ مجھ سے اپنا بدلہ لےلے۔ اسی طرح غزوہ بدر میں سواریوں کی کمی کی وجہ سے سواریوں کی باریاں مقرر کر دی گئی تھیں۔ اس موقع پر آپﷺ نے بھی دوسروں کی طرح اپنی سواری مقرر کی کہ جب آپﷺ کے پیدل چلنے کی باری ہوتی تو آپﷺ پیدل چلتے اور دوسروں کو سواری کرنے کے لئے کہتے اسی تعلیم و ہدایت کا یہ اثر تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیت المقدس پہنچنے کے وقت پیدل اونٹ کی نکیل پکڑے چل رہے تھے اور اونٹ پر غلام سوار تھا۔

اسی طرح غزوہ بدر کے گرفتاروں میں خود حضورﷺ کے چچا حضرت عباد رضی اللہ عنہ جو اس وقت ایمان نہ لائے تھے اسی قرابت کے سبب صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے ان کا فدیہ معاف کر دینا چاہا تو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو منع فرمایا اور دوسروں کی طرح ان کے فدیہ کا بھی حکم اور اس میں کسی طرح کی رعایت نہ کی۔جب مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی تو دوسرے مسلمانوں کی طرح حضورﷺ نے بھی ان کے شانہ بشانہ کام کیا۔ اسی طرح غزوہ خندق میں بھی آپﷺ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے مانند اس کی کھدائی میں مصروف ہے اور اپنے حصہ کا کام پورا کرکے دوسروں کے بچے ہوئے کام میں ان کی مدد کرتے رہے۔
ان تمام مثالوں سے ظاہر ہے کہ مساوات اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اسلام میں اور اس کی اہمیت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے بہت موقوں پر لوگوں کے سامنے خود مثالیں پیچ کیں اور صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو اس کی تاکید فرمائی کہ عمل مساوات میں فرق نہ آنے پائے۔