سبق امراؤجان ادا , خلاصہ , سوالات

0
  • باب دوم: تنقیدی مضمون
  • سبق کا نام:امراؤجان ادا
  • صنف: تنقیدی مضمون
  • مصنف کا نام : خورشید الاسلام

تعارف سبق:

اس سبق میں تنقیدی مضمون کی صنف کا تعارف کراتے ہوئے”خورشید الاسلام”کے تنقیدی مضمون”امراؤ جان ادا” کو پیش کیا گیا ہے۔یہ مضمون مرزا ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا پر تنقیدی جائزے کے طور پر تحریر کیا گیا ہے۔

خلاصہ سبق:

امراؤ جان ادا “خورشید الاسلام کا تنقیدی مضمون ہے جس میں “مرزا ہادی رسوا” کے مشہور زمانہ ناول”امراؤ جان ادا” کے موضوع،کرداروں اور پلاٹ وغیرہ کو زیر بحث لایا گیا ہے۔خورشید الاسلام کے نزدیک امراؤ جان ادا ناول میں اہم کردار کی حیثیت رکھتی ہے۔مگر اس کے لیے لازم نہیں ہے کہ وہی ناول کا موضوع ہے۔ کیوں کہ ایک ناول کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کےلئے ضروری ہے کہ پہلے اس کے موضوع کو دریافت کیا جائے جس کے لیے ناول نگار کو وہ تمام امکانات بروئے کار لانے ہوتے ہیں جس کے ذریعے کرداروں اور واقعات کی ساخت پرداخت کو ہوتا ہوا دیکھا جا سکے۔

ناول میں رسوا نے ابتداء میں ہی امراؤ جان کا تعارف کچھ اس طرح کرایا ہے کہ وہ طوائف تھی مگر اس کے رہن سہن کا طریقہ دیگر رنڈیوں سے الگ تھا۔جس کمرے میں وہ رہائش پذیر تھی وہاں کسی کی آمدورفت نہ تھی۔ دروازے پر بھی دن رات پردے رہتے تھے۔مرزا نے مشاعرے کی محفل جمائی۔امراؤ جان اس مشاعرے میں آتی ہے تو اپنی غزل پیش کرتی ہے جس سے اس کے شاعری کے ذوق اور ادب سے دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

ناول کے قصے کا اصل آغاز امراؤ کی کہانی سے ہوتا ہے کہ وہ فیض آباد میں شہر کے کنارے ایک محلے میں رہتی ہے جہاں اس کا پختہ مکان ہے۔آس پاس کچھ کچے چھونپڑے بھی تھے۔ اس کے ابا بہو بیگم کے مقبرے پر نوکر تھے مگر دلاور جو امراؤ جان ادا کے مکان سے تھوڑا دور مقیم تھا اس کا ڈکیٹوں سے ملنا جلنا تھا اور وہ امراؤ کے ابا سے سخت دشمنی رکھتا تھا۔

ان اقتباسات سے امراؤ کے کردار کے بارے میں بہت سی ضروری باتیں معلوم ہو جاتی ہیں کہ کس طرح کے ماحول میں وہ پیدا ہوئی اور کس طرح کے ماحول میں پلی بڑھی۔بلکہ ان بھول بھلیوں کا بھی اندازہ ہو جاتا ہےجن سے اسے گزرنا پڑا۔گویا تمہید میں ناول نگار نے امراؤ کی زندگی کا کوئی راز باقی نہیں رہنے دیا۔ایک چوتھائی قصہ گزرنے کے بعد ناول کی کہانی جست لگا کر فیض آباد جا نکلتی ہے جہاں اب امراؤ موجود ہے۔وہ اپنے وطن میں ہے مگر سب کے لیے بے گانی ہے۔

سوالات

سوال نمبر 1: امراؤ جان ادا کے کردار پر روشنی ڈالیے۔

امراؤ جان ادا ناول کا بنیادی اور اہم کردار ہے۔امراؤ جان ادا ایک طوائف ہے مگر اس کا رہن سہن دیگر طوائفوں سے الگ ہے۔وہ شعر و سخن کا ذوق رکھتی ہے اور ادب کے چند اصناف سے واقف ہے۔اس کا بچپن ایک شریف اور متوسط گھرانے میں گزرا جہاں اس کا نام امراؤجان نہیں کچھ اور تھا۔

سوال نمبر 2:خورشید الاسلام نے ناول نگار کی کن ذمہ داریوں کو بیان کیا ہے؟

خورشید الاسلام کے نزدیک ناول نگار کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناول میں ان تمام امکانات کو بروئے کار لائے جو اس کے موضوع کو دریافت میں لاتے ہیں۔ ناول کو تحریر میں لا تے وقت ان تقاضوں کو پورا کریں اور فطرت کی ان لہروں کو بہتا ہوا دکھائیں جو واقعات اور کرداروں کی شناخت پرداخت کرتی ہیں۔

سوال نمبر 3: خورشید الاسلام نے امراؤ جان ادا کا ایک اقتباس پیش کرکے یہ وضاحت کی ہے کہ ہم اسے پڑھ کر امراؤ جان کے آغاز اور انجام دونوں سے واقف ہو جاتے ہیں آپ کے خیال میں کیا یہ بات صیح ہے؟ لکھیے۔

خورشید الاسلام نے امراؤ جان ادا کے اقتباس کو پیش کر کے تنقیدی مضمون میں استدلال کا رنگ پیدا کیا ہے۔ ان اقتباسات کو پڑھنے سے قاری کافی حد تک امراؤ جان کے کرادار اور اس کے آغاز و انجام سے واقفیت پا لیتا ہے۔ کیوں کہ خورشید الاسلام نے ایسے اقتباسات کا چناؤ کیا ہے جو ناول میں امراؤ کے کرادر کی واضح جھلک پیش کرتے ہیں۔ ان اقتباسات سے قاری امراؤ کے کرادر کی جھلک تو بخوبی پالیتا ہے مگر اس کا انجام مبہم رہ جاتا ہے۔

عملی کام۔

سوال: اس مضمون میں شامل محاوروں کی فہرست بنائیے۔

بروئے کار لانا
ساخت پرداخت کرنا
پروان چڑھا نا

جہاں دوزخ مہکتے ہیں اور فردوس خاموش ہیں اس کا مطلب اپنے استا د سے دریافت کرکے لکھیے۔

جہاں دوزخ مہکتے ہیں سے مراد ہے کہ جہاں وہ کام ہوتا ہے جو خلافِ شرع ہے۔جیسے کہ طوائف خانہ وغیرہ جہاں موسیقی و سرور کی محفلیں سجتی ہیں اور ایک طرح سے دنیاوی دوزخ مہک اٹھتا ہے۔یہ جملہ دراصل دوزخ دھکنے کے مترادف ہے۔اور فردوس خاموش سے مراد ہے فردوس ٹھنڈی پڑی ہے اور اس کے مقابلے میں دوزخ مہک رہی ہے۔