8th Class Urdu Book Question Answer | NCERT | چچا کبابی دلی والے

0
  • کتاب”اپنی زبان”برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر08:کہانی
  • مصنف کا نام: ملاواحدی
  • سبق کا نام: چچا کبابی دلی والے

خلاصہ سبق:

اس سبق کے مصنف “ملا واحدی” چچا کبابی دلی والے کے شخصی خاکے کو بیان کرتے ہیں۔یہ چچا دلی میں اپنے کبابوں کی وجہ سے مشہور تھے۔چچا کبابی اپنی دوکان جامع مسجد کے پھلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر جہاں اور کوئی دوکاندار نہیں بیٹھتا تھا لگایا کرتے تھے۔ شام چھ سے رات بارہ بجے تک یہاں کباب بیچا کرتے تھے۔

ان کا نام تو معلوم نہیں مگر یہ 1857ء کے بعد پیدا ہوئے اور 1947ء سے قبل وفات پا گئے۔ان کا شمار دلی کے ممتاز کبابیوں میں ہوتا تھا۔چچا کبابی کو کباب بنانے میں کمال حاصل تھا۔ وہ غصہ ور شخصیت کے مالک تھے لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل آئے۔ ان تک گاہک دس کبابیوں کو چھوڑ کر پہنچا کرتا تھا۔

غصہ ہر وقت ان کی ناک پر دھرا رہتا تھا۔ان کا مزاج بھی منفرد خصوصیات کا حامل تھا کبھی کسی بڑے آدمی یا سوٹ بوٹ میں ملبوس گاہک سے وہ کبھی مرعوب نہیں ہوئے۔چچا کبابی اپنے گاہکوں کو باری باری کباب دیا کرتے تھے۔ اور اگر کوئی جلدی کرتا تو ان کا پارہ چڑھ جاتا اور وہ اس سے کہتے کہ جو پہلے آیا ہے اسے پہلے کباب ملے گا اور حضور جلدی ہے تو کسی اور سے لے لیجئے۔

جلدی کا لفظ سن کر ان مزاج برہم ہو جاتا۔ ایک دفعہ ایک زندہ دل شخص نےجلدی کباب نہ ملنے پر پلٹ کر ان کو جواب دیا کہ نجانے آپ کے کباب طبیعت پر کیا اثر ڈالیں اچھا ہوا ان سے بچ گیا تو چچا کبابی نے زندہ دل شخص سے کہا حضور کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بجار پر لتھیڑ دوں تو گل کر گر پڑے۔

مرے کبابوں سے آپ کو تکلیف پہنچ جائے تو ہسپتال تک کا خرچ دوں گا، لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا تو کچے رہ جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں۔ اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھنتا ہے ، جو پہلے آیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔وہ کسی کی دھونس برداشت نہ کرتے خواہ ان کا دوست ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں تک کے ان کے دوستوں کو بھی اپنی باری کا انتظار کرنے کے بعد کباب ملا کرتے تھے۔

وہ گاہک جو جامع مسجد میں بیٹھ کر کباب کھاتے تھے ان کو گھی سے بگھار لگا کر اور ہرا دھنیہ پودینہ کاٹ خصوصی طور سے کباب بھجوایا کرتے تھے۔ اصولی اس قدر تھے کہ ایک بچہ ان سے روز چار آنے کے کباب لینے آتا تھا۔چچا کبابی نے بچے کو کباب دینے سے انکار کر دیا کہ وہ بچہ کباب کے لیے پیسے چرا کر لاتا تھا۔ کیونکہ اس کے گھر والے روزانہ اس کو کباب کھا نے کو چار آنے ہر گز نہ دیں گے۔اور چچا کبابی نہیں چاہتے تھے کہ اسے چوری کی عادت لگ جائے۔مولانا راشد الخیری کو ان کے کباب بہت پسند تھے۔ ملا واحدی اور وہ اکثر جامع مسجد میں جا کر یہ کبا ب کھاتے تھے۔

سوچیے اور بتایئے:

چچا کبابی اپنی دکان کہاں لگایا کرتے تھے؟

چچا کبابی اپنی دوکان جامع مسجد کے پھلواری والے چبوترے کے نیچے پٹری پر جہاں اور کوئی دوکاندار نہیں بیٹھتا تھا لگایا کرتے تھے۔

چچا کبابی کی شخصیت کی کیا خوبیاں تھیں؟

چچا کبابی کو کباب بنانے میں کمال حاصل تھا۔ وہ غصہ ور شخصیت کے مالک تھے لیکن کیا مجال جو زبان سے بیہودہ لفظ نکل آئے۔ غصہ ہر وقت ان کی ناک پر دھرا رہتا تھا۔

چچا کبابی اپنے گا ہوں کو کباب دینے کے لیے کیا طریقہ اپناتے تھے؟

چچا کبابی اپنے گاہکوں کو باری باری کباب دیا کرتے تھے۔ اور اگر کوئی جلدی کرتا تو ان کا پارہ چڑھ جاتا اور وہ اس سے کہتے کہ جو پہلے آیا ہے اسے پہلے کباب ملے گا اور حضور جلدی ہے تو کسی اور سے لے لیجئے۔

چچا کبابی نے زندہ دل شخص کو کیا جواب دیا؟

چچا کبابی نے زندہ دل شخص سے کہا حضور کبابوں میں وہ مسالہ ڈالتا ہوں جسے مست بجار پر لتھیڑ دوں تو گل کر گر پڑے۔ مرے کبابوں سے آپ کو تکلیف پہنچ جائے تو ہسپتال تک کا خرچ دوں گا، لیکن کباب جلدی نہیں دے سکتا۔ جلدی میں کباب یا تو کچے رہ جاتے ہیں یا جل جاتے ہیں۔ اور دوسرے گاہکوں کا حق بھی چھنتا ہے ، جو پہلے آیا ہے کباب اسے پہلے ملنے چاہئیں۔”

چچا کبابی نے بچے کو کباب دینے سے انکار کیوں کیا ؟

چچا کبابی نے بچے کو کباب دینے سے اس لیے انکار کر دیا کہ وہ بچہ کباب کے لیے پیسے چرا کر لاتا تھا۔ اور چچا کبابی نہیں چاہتے تھے کہ اسے چوری کی عادت لگ جائے۔

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے۔

عیاں علی کا سچ سب کے سامنے عیاں ہو چکا تھا۔
انتخاب انعام سے نوازنے کے لیےاستاد نے جماعت میں سے بہترین طالب علم کا انتخاب کیا۔
مجال محافظ فوج کے ہوتے ہوئے دشمن کی کیا مجال کہ وہ ہمارے ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔
ترجیح بہتر تعلیمی قابلیت رکھنے والے لوگوں کو اس نوکری کے لیے ترجیح دی جائے گی۔
تباہی جنگ تباہی کا دوسرا نام ہے۔
مرغوب پلاؤ میری مرغوب غذا ہے۔
حجت آخر احمد کو قرضہ لینے کی حجت کیوں پیش آئی؟
تلملانا علی کی بری عادت ہے کہ وہ بے بات غصے میں تلملانا شروع کر دیتا ہے۔

عملی کام: اس سبق میں ایک مرکب لفظ حجت بازی استعمال ہوا ہے۔جس کا مطلب ہے حجت کرنا۔ اسی طرح “بازی” لگا کر پانچ مرکب الفاظ بنائیے۔

کبوتر بازی
پتنگ بازی
بیت بازی
مقابلہ بازی
شو بازی