Urdu Guldasta Class 8th Solutions | ہندوستان جنت نشان

0
  • کتاب” اُردو گلدستہ”برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر02:سفرنامہ
  • مصنف کا نام: صالحہ عابد حسین
  • سبق کا نام: ہندوستان جنت نشان

تعارف مصنف:

صالحہ عابد حسین کا اصل نام مصداق فاطمہ تھا۔ وہ پانی پت میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق حالی کے خاندان سے تھا۔ ان کی شادی ڈاکٹر عابد حسین سے ہوئی تھی ، جو اپنے زمانے کے ممتاز دانشور تھے۔ صالحہ عابد حسین کے اہم ناول یادوں کے چراغ ، قطرے سے گہر ہونے تک، اپنی اپنی صلیب ، ساتواں آنگن اور راہ عمل ہیں ۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے ہیں۔

ان کے کچھ مجموعوں کے نام اس طرح ہیں : نقش اول ، ساز ہستی ، در و در ماں ، تین چہرے ، نر اس میں آس و غیر۔ صالحہ عابد حسین نے بچوں کے لیے بھی کہانیاں اور مضامین لکھے ہیں ، جیسے سنہرے بالوں والے بچوں کا دیں ، بہار سندر ، اور بچوں کے الطاف حسین حالی وغیرہ۔ ان کی خودنوشت سوانح حیات کا نام سلسلۂ روز وشب ہے۔ صالحہ عابد حسین نے اپنی تحقیقات کا موضوع متوسط طبقے کے عام ساجی اور نفسیاتی مسائل کو بنایا ہے۔ ان کی زبان عام فہم اور سادہ ہے۔ اس مضمون میں صالحہ عابد حسین نے کشمیر، بھوپال، آگرو اور حیدرآباد کے اپنے سفر کا بیان بڑےدلچسپ انداز میں کیا ہے۔

خلاصہ سبق:

صالحہ عابد حسین کا سبق “ہندوستان جنت نشان” میں انھوں نے ہندوستان کے کئی طرح کے خوبصورت مقامات کی سیر کو بیان کیا ہے۔ صالحہ عابد حسین کی جب شادی ہوئی توانھوں نے اپنے شوہر سے سیرو سیاحت کی فرمائش کی۔مصنفہ کی صحت کی کمزوری کی وجہ سے عابد صاحب ان کو گرمی میں دلی کی بجائے پہاڑی مقام پر لے جاتے۔وہاں جا کر وہ سیر کے ساتھ ساتھ لکھنے کا کام بھی کر لیتے۔

ہندوستان کے کئی پہاڑی مقامات جیسے شملہ،نینی تال اور رانی کھیت کی بھی سیر کی۔ مہا بلیشور بھی جا کر تین دن رہے۔ لیکن مصنفہ نے سب سے زیادہ کشمیر کی سیرکی۔ سری نگر اور آس پاس کے علاقے تو چھان ہی ڈالے۔ اس کے علاوہ پام پور، سون مرگ، یوس مرگ، مانس بن جھیل جس کے چاروں طرف کنول کے پھولوں کے تختے اسے عجیب حسن بخشتے ہیں ۔ اچھا بل ، مگر ناگ، انت ناگ کے آب حیات کے سے چشمے دیکھے۔ ان کا ٹھنڈا میٹھا پانی پیا۔ اور ان کے حُسن سے آنکھوں کو تراوٹ بخشی ۔ دائل کا جھولتا پل خود ایک عجیب چیز ہے اور پھر دریا کا حُسن اور اس کے رنگ برنگے پتھر جو جواہرات کو مات کرتے ہیں۔

انت ناگ کی جھیل مقدس مانی جاتی ہے۔جموں کے راستے سری نگر آتے جاتے کئی بار ویری ناگ جھیل کو دیکھا۔ حسب دستور مغلوں نے اس کے گرد وسیع باغ بنوا رکھا تھا۔کشمیر کا چپہ چپہ جنت ارضی معلوم ہوتا ہے۔مصنفہ پہلگام ،آڑؤ اور چندن واڑی تک گئیں۔ یہاں کی اونچی برف پوش چوٹیاں چشموں کی بہتی ہوئیں چاندی کی سی آبشاریں اور سر سبز وادیاں نظروں کو اپنا اسیر بنا لیتں۔گل مرگ کئی بار گئے۔ یہاں کے خوبصورت مناظر دیکھ کر منھ سے بے اختیار نکلتا ہے سبحان تیری قدرت۔

پہاڑوں کے علاوہ میدانی علاقوں کی بھی خوب سیر کی۔ پونا،ممبئی تو بیسوں بار گئیں۔ ممبئی کے آس پاس خوب سیریں کیں۔ وہاں کا سمندر،میرین ڈرائیو،گیٹ وے آف انڈیا اور جوہو چوپاٹی اور سمندر پر غروب آفتاب کے مناظر ان کے پسندیدہ تھے۔ بھوپال عابد صاحب کا وطن ثانی تھا۔بھوپال کے ساتھ آگرے کی سیر بھی کی۔پہلی بار تاج کو دیکھا۔تاج محل کو دن میں بھی دیکھا اور رات کی چاندنی میں بھی۔ پہلی بار تاج کو دیکھ کر جو اثر ہوتا ہے اس سے انسان محسور ہو جاتا ہے۔

محبت اور عقیدت کا یہ شہکار جس طرح دل میں بستا ہے اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔مصنفہ نے تاج کی جالیوں اور باریکیوں پر سر دھنا۔اس میں انسان کی محنت،حسن کاری اور نفاست کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی شہکار نہیں ہو سکتا۔مصنفہ نے حیدرآباد میں کئی بار جا کر عثمانیہ یونیورسٹی دیکھی۔اس کی کشادہ و مرکزی عمارت نہایت خوبصورت شاندار اور نفیس تھی۔ گولکنڈہ قلعہ کو خوب گھوم پھر کر دیکھا اور اس سے مرعوب ہوئیں۔ سالار جنگ میوزیم کے نوادرات وہاں کے امام باڑے ،مساجد قابل دید تھے اور ان کو بہت متاثر کرتے تھے۔

سوچیے اور بتایئے:

شادی کے بعد مصنفہ نے اپنے شوہر سے کیا فرمائش کی ؟

مصنفہ نے اپنے شوہر سے سیرو سیاحت کی فرمائش کی۔

مصنفہ نے کشمیر میں کن مقامات کی سیر کی؟

مصنفہ نے سب سے زیادہ کشمیر کی سیر کی۔ سری نگر اور آس پاس کے علاقے تو چھان ہی ڈالے۔ اس کے علاوہ پام پور، سون مرگ، یوس مرگ، مانس بن جھیل جس کے چاروں طرف کنول کے پھولوں کے تختے اسے عجیب حسن بخشتے ہیں ۔ اچھا بل ، مگر ناگ، انت ناگ کے آب حیات کے سے چشمے دیکھے۔ ان کا ٹھنڈا میٹھا پانی پیا۔ اور ان کے حُسن سے آنکھوں کو تراوٹ بخشی ۔ دائل کا جھولتا پل خود ایک عجیب چیز ہے اور پھر دریا کا حُسن اور اس کے رنگ برنگے پتھر جو جواہرات کو مات کرتے ہیں۔ انت ناگ کی جھیل مقدس مانی جاتی ہے۔جموں کے راستے سری نگر آتے جاتے کئی بار ویری ناگ جھیل کو دیکھا۔ حسب دستور مغلوں نے اس کے گرد وسیع باغ بنوا رکھا تھا۔کشمیر کا چپہ چپہ جنت ارضی معلوم ہوتا ہے۔مصنفہ پہلگام ،آڑؤ اور چندن واڑی تک گئیں۔

تاج محل کو دیکھ کر کیا محسوس کیا ؟

تاج محل کو دن میں بھی دیکھا اور رات کی چاندنی میں بھی۔ پہلی بار تاج کو دیکھ کر جو اثر ہوتا ہے اس سے انسان محسور ہو جاتا ہے۔ محبت اور عقیدت کا یہ شہکار جس طرح دل میں بستا ہے اس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔مصنفہ نے تاج کی جالیوں اور باریکیوں پر سر دھنا۔اس میں انسان کی محنت،حسن کاری اور نفاست کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی شہکار نہیں ہو سکتا۔

مصنفہ حیدرآباد کے کون کون سے مقامات سے متاثر ہوئیں؟

مصنفہ نے حیدرآباد میں کئی بار جا کر عثمانیہ یونیورسٹی دیکھی۔اس کی کشادہ و مرکزی عمارت نہایت خوبصورت شاندار اور نفیس تھی۔ گولکنڈہ قلعہ کو خوب گھوم پھر کر دیکھا اور اس سے مرعوب ہوئیں۔ سالار جنگ میوزیم کے نوادرات وہاں کے امام باڑے ،مساجد قابل دید تھے اور ان کو بہت متاثر کرتے تھے۔

اپنے کسی سفر کا حال لکھیے۔

حال ہی میں، میں نے براستہ ریل ایک سفر کیا۔مجھے بچپن سے ریل گاڑی میں سفر کرنے کا بہت شوق تھا۔ کچھ روز قبل مجھے اپنے گھر جانا تھا تو میں نے اس شوق کو پورا کرنے کی خاطر ریل کا سفر کرنے کا ارادہ کر ہی لیا۔ میں بہت خوش اور پرجوش تھی۔ میرے ساتھ میری ایک دوست سعدیہ بھی میرے گھر جا رہی تھی تو اس کا بھی یہی حال تھا۔ پرجوش اور خوش۔ اس خوشی کے لمحات کو ہم سوشل میڈیا پر شیئر کرنا نہیں بھولے۔ ہم لوگ پورے ایڈونچر موڈ میں تھے۔

ہماری ساڑھے چار بجے کی سبک خرام ٹرین تھی۔ ہم دونوں ممبئی ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ داخلی گیٹ پر ایک قلی نے اپنی خدمات کی پیشکش کی جس کو ہم نے منع کر دیا۔ ہمارے پاس کوئی سامان تو تھا نہیں۔ ہاں البتہ قلی کو دیکھ کر میں خوش بہت ہوئی کیونکہ اس سے پہلے میں نے آج تک فلموں میں ہی قلی دیکھے تھے۔ پھر ہم ایک بڑے ہال میں پہنچے جو کہ کھچا کھچ لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ ہم نے ٹکٹ کاونٹر پر پوچھا کہ بھائی راجدھانی کہاں کھڑی ہے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ آپ پلیٹ فارم نمبر چار پر جائیں۔ہال میں لوگوں کا بہت ہجوم تھا۔

میں بہت غور سے ان سب لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق مڈل اور لوئر کلاس سے تھا۔ میں نے سعدیہ سے کہا کہ اب ہمیں پلیٹ فارم نمبر چار پر جانا ہے۔ اصل سفر تو یہاں سے شروع ہوا۔ ہم نے تنگ سی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔ دو دفعہ تو میں گرتے گرتے بچی کیونکہ کچھ افراد کو سیڑھیاں اترنے کی کچھ زہادہ ہی جلدی تھی۔

خیر سیڑھیوں کے آگے ایک روش تھی جو کہ اس قدر خستہ حال تھی کہ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ اتنے لوگوں کا بوجھ برداشت نہیں کر پائے گی اور کبھی بھی گر سکتی ہے۔ ہمت کرکے ہم پلیٹ فارم نمبر چار پر پہنچ گئے۔ پلیٹ فارم نمبر چار کا تو اپنا الگ ہی نظارہ تھا۔لوگوں کی بھیڑ تھی۔ سب سفر کی بھرپور تیاری کے ساتھ وہاں موجود تھے۔بلاآخر گاڑی آگئی اور ہم اس میں بیٹھ کر سفر کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہ سفر بہت ہی یادگار تھا۔