Ek Gaye Aur Bakri Tashreeh | نظم ایک گائے اور بکری کی تشریح

0
  • کتاب”دور پاس” برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر07:نظم
  • شاعر کا نام: علامہ اقبال
  • نظم کا نام: ایک گائے اور بکری

نظم ایک گائے اور بکری کی تشریح:

کسی ندی کے پاس اک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی

یہ شعر علامہ اقبال کی نظم ” ایک گائے اور بکری” سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ کسی ندی کے پاس ایک بکری کہیں دور سے چرتی چرتی وہاں آ نکلی تھی۔

جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پایا

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ بکری جو کہیں دور سے چرتی چرتی ندی کے پاس آ پہنچی تھی اس نے جب ندی کے پاس ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا تو اپنے پاس ہی اس نے ایک گائے کو کھڑا دیکھا۔

پہلے جھک کر اسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا

شاعر کہتا ہے کہ بکری نے جب گائے کو ندی کے کنارے اپنے قریب پایا تو پہلے اس نے جھک کر گائے کو سلام کیا اور پھر نہایت ادب اور سلیقے سے کچھ اس طرح اس سے بات کرنے لگی۔

کیوں بڑی بی مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بکری نے نہایت سلیقے سے گائے کو بڑی بی کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے گائے سے اس کا مزاج دریافت کیا۔

کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی

شاعر کہتا ہے کہ بکری کے پوچھنے پر گائے بکری سے یوں گویا ہوئی کہ چاہے اچھی ہو یا بری میری زندگی کٹ رہی ہے۔ اصل میں میری زندگی مصیبت کا شکار ہوئی ہے۔

آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے خدا نہ کرے

شاعر کہتا ہے کہ گائے اپنے شکوے شکایت کے دفتر کھولتے ہوئے بکری کو بتانے لگی کہ آدمی یعنی انسان سے بھلائی کا کوئی زمانہ نہیں ہے۔ اللہ نہ کرے کہ کسی جانور کا پالا کبھی انسان جیسی مخلوق سے پڑے۔

دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ گائے بکری کو اپنی شکایات بتاتی ہے کہ اگر میں دودھ کم دوں تو میرا مالک بڑبڑاتا ہے اور اگر میں ذرا سی کمزور ہو جاؤں تو وہ فوراً مجھے بیچنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں انسان پر اتنے احسانات کر رہی ہو ں کہ اس کے بچے میں پالتی ہوں کیونکہ میرے دودھ کی بدولت اس کے بچوں کے جسموں میں جان آتی ہے۔

سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی ایسا گلہ نہیں اچھا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب بکری نے گائے کی تمام بات سن لی تو وہ اس سے کہنے لگی کہ ایسے گلہ کرنا اچھی بات نہیں ہوتی ہے۔

یہ چراگہ یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایہ

شاعر کہتا ہے کہ بکری گائے کو بتانے لگی کہ یہ جو تمھیں تروتازہ چارے کے چراگاہ میسر ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوائیں اور اور ہری بھری گھاس اور سایہ وغیرہ یہ سب انسان کی بدولت ہی ممکن ہو سکا۔

یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لطف سارے اسی کے دم سے ہیں

بکری گائے کو تمام نعمتوں کا احساس دلاتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ سارے مزے جو ہمیں میسر ہیں یہ سب کے سب انسان کے دم سے ہی ممکن ہیں۔ ہم اسی کی بدولت سب چیزوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ بکری گائے کو کہنے لگی کہ ہمیں موجود آرام انسان کی بدولت میسر ہے تو کبھی بھی اس آرام کی قدر کو کم مت جانو اور اس وجہ سے کبھی بھی کسی انسان کا گلہ مت کرو۔

گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جب گائے نے بکری کی تمام باتیں سنی توں گائے یہ سب سن کر شرما گئی۔ یوں گائے اس قدر انسان کا گلہ کرنے پر شرمندہ بھی ہوئی۔

دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے

شاعر کہتا ہے کہ گائے نے بی بکری کی تمام باتیں سننے کے بعد جب دل ہی دل میں تمام باتوں کو سمجھا تو اس پر اصل حقیقت کھلی پھر اس نے کچھ سوچ سمجھ کر یہ کہا کہ

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی

بکری کی باتوں کو سمجھنے کے بعد گائے سوچ سمجھ کر یہ کہنے لگی کہ بے شک دیکھنے میں تو بکری کی ذات بالکل چھوٹی سی ہے۔مگر اس نے بات بہت عقل مندی کی کی ہے اور بکری کی بات میرے دل کو اچھی لگی ہے۔

سوچیے اور بتایئے:

بکری نے گاۓ سے کیا سوال کیا؟

بکری نے گائے سے پوچھا کہ بڑی بی آپ کے مزاج کیسے ہیں؟

گاۓ نے انسان کی کن برائیوں کا ذکر کیا؟

گائے نے کہا کہ اگر وہ دودھ کم دے تو انسان اس کو برا بھلا کہتا ہے جب کہ اگر وہ کمزور ہو جائے تو اس کا مالک اس کو بیچنے پر تل جاتا ہے۔

بکری نے گائے کو کیا سمجھایا؟

بکری نے گائے کو سمجھایا کہ اس طرح سے انسان کا گلہ کرنا ٹھیک نہیں کیوں کہ ہمیں سایہ،چراگاہیں اور جو ہرے بھرے کھیت تازہ ہوا میسر ہے یہ سب انسنا ہی کی بدولت تو ہے۔

بکری کی بات سن کر گائے شرمندہ کیوں ہوئی ؟

کیوں کہ بکری کی بات میں وزن تھا۔یہ بات گائے کے دل کو لگی جس وجہ سے وہ شرمندہ ہوئی۔

شاعر نے آخری شعر میں کیا پیغام دیا ہے؟

آخری شعر میں شاعر یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ عقل مندی اور سمجھداری کا تعلق ہر گز انسان کی عمر یا مرتبے سے نہیں ہے۔جہاں کسی کی بات میں وزن محسوس ہو تو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے مان کر اس کا اعتراف کیا جائے۔

جملے بنائے:

آنکلنا جنگل سے شیر بستی میں آ نکلا۔
پالا پڑنا میرا پاکا انتہائی نالائق انسان سے پڑا۔
جان ڈالنا کھانا انسانی جسم میں جان ڈالتا ہے۔
ماجرا سنانا میں نے تمام ماجرا اسے کہہ سنایا۔
دل کو لگنا بکری کی بات گائے کے دل کو لگی۔
کلام کرنا مجھے آپ سے کلام نہیں کرنا ہے۔
بڑ بڑانا بوڑھی عورت نے بچوں کا شور سنتے بڑبڑانا شروع کر دیا۔

مصرعوں کی ترتیب درست کرکے پورا شعر لکھیے۔

حصہ الف:
پہلے جھک کر اسے سلام کیا
یہ مرے آدمی کے دم سے ہیں
گاۓ سن کر میں بات شرمائی
دل میں پرکھا بھلا بُرا اس نے
کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی

حصہ ب:
لطف سارے اس کے دم سے ہیں
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
آدمی کے گلے پچھتائی

حصہ ج:

پہلے جھک کر اسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لطف سارے اسی کے دم سے ہیں
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے
کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی

نیچے کچھ حروف لکھے ہوئے ہیں۔ ان میں بیچ کا حرف غائب ہے۔ اس جگہ کوئی ایسا حرف لکھیے جس سے دونوں طرف سے پڑھنے میں دومختلف لفظ بن جائیں :

  • مثال: ن+ا+ک
  • سیدھی ترتیب: ناک
  • الٹی ترتیب:کان
ت+ا+ر = سیدھی ترتیب: تار الٹی ترتیب: رات
ل+و+گ= سیدھی ترتیب: لوگ الٹی ترتیب: گول
ب+ا+ت= سیدھی ترتیب: بات الٹی ترتیب: تاب
پ+ا+ن= سیدھی ترتیب:پان الٹی ترتیب: ناپ
ش+ا+ل= سیدھی ترتیب: شال الٹی ترتیب: لاش
ز+ا+ر= سیدھی ترتیب: زار الٹی ترتیب: راز