Muje Mere Buzurgon Se Bachao Summary | مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ خلاصہ

0
  • کتاب” اُردو گلدستہ”برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر04: انشائیہ
  • مصنف کا نام: کنہیا لال کپور
  • سبق کا نام: مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ

تعارف مصنف:

کنہیالال کپور چک ضلع لائل پور ( موجودہ فیصل آباد، پاکستان میں1910ءمیں پیدا ہوۓ ۔ان کے والد کا نام ہری کپور تھا۔ طنز ومزاح کے میدان میں کنہیا لال کپور اہم مقام رکھتے ہیں ۔ ان کے اہم مضامین اخبار بینی، چینی شاعری ، غالب ترقی پسند شعرا کی محفل میں وغیرہ ہیں ۔

ان کی کتابوں کے نام سنگ وخشت ، شیشه و تیشه ،جنگ در باب ، نوک نشتر ، بال و پر ، نرم گرم اور گرد کارواں میں کنہیا لال کپور کی زبان عام نہم ہے ۔ ان کا طنز و مزاح قاری کو زبر لب ہنساتا ہے ۔ وہ اپنے طنز و مزاح سے کسی فرد کی دل شکنی نہیں کرتے ، بات میں بات پیدا کر کے قاری کو ہنساتے ہیں۔ بھی بھی حقائق کوالٹ پھیر کر بھی مزاح پیدا کر دیتے ہیں۔

مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ خلاصہ

مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ “کنہیا لال کپور” کا انشائیہ ہے۔ جس میں مصنف نے دلچسپ انداز میں بزرگوں کی بے جا روک ٹوک کو بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ایک چھوٹا سا لڑکا ہوں جو ایک بڑے گھر میں رہتا ہے۔ گھر میں دادا جی ان کی صحت کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ گھر سے باہر تک نہیں نکلنے دیتے کہ باہر گرمی یا برف پڑ رہی ہے۔ یا درختوں سے جھڑنے والا کوئی پتا تڑاخ سے لگ نہ جائے۔ ان کا بس چلے تو بچوں والے ہر گھر کو سینٹرل جیل میں بدل دیں۔

دادی بھی ہر وقت انھیں جنوں بھوتوں کے واقعات سنا کر ڈراتی ہے۔مصنف کی دادی انھیں مندر کے پاس موجود پیپل کے پیڑ تلے کھیلنے سے منع کرتی ہیں۔ان کے مطابق اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے جو برسوں پہلے ان کی سہیلی پر بھی اثر انداز ہوا تھا۔ اس کے علاوہ پانی سرائے کے پاس موجود کنویں کے قریب جانے سے بھی روکتی ہیں کہ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے جو بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ یہی اس کی خوراک ہے۔ جبکہ ان کے پتا جی کا تکیہ کلام تھا۔ “نالائق” اور ” جب میں طالب علم تھا”۔

وہ ان سے پوچھتےآج کتنے سوال کیے اور جواب پا کر کہتے نالائق۔ان کی ہر بات کا آغاز اس جلمے سے ہوتا کہ جب میں طالب علم تھا۔ مصنف کی ماتا جی کو ہر وقت یہ خدشہ لاحق رہتا کہ کہیں انھیں کچھ ہو نہ جائے۔یہی وجہ ہے کہ وہ انھیں نہ تو تالاب میں تیرنے دیتی اور نہ ہی آتش بازی میں حصہ لینے دیتیں۔ان کے نزدیک کرکٹ بھی ایک خطرناک کھیل تھا کہ گیند آنکھ پر لگ سکتا ہے۔مصنف کے بڑے بھائی کے بقول جو چیز بڑوں کے لیے بے ضرر ہے وہ چھوٹوں کے کیے مضر ہے۔

خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے لیکن مصنف کو کھاتے دیکھ کر منھ چڑھاتے اسی طرح وہ خود سیمنا کے شوقین تھے مگر ان کے مطابق بچوں کا سینما دیکھنا ان میں اخلاقی بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ ان کے مطابق چھوٹے بچوں کو عطر نہیں لگانا چاہیے کہ ہر وقت خوشبو آنے سے بڑے ہو کر کہیں وہ شاعر نہ بن جائیں۔ان کی بھابی افسانہ لکھنے اور جاسوسی ناول پڑھنے کی شوقین تھیں۔

وہ ہر وقت کہتی کہ لپک کر جاؤ فلاں ناول اور رسالہ لاؤ۔مصنف کی بھابھی سندر مکھی،تارا مکھی، چندر مکھی، چالاک چور، پھرتیلا ڈاکو ،ںقاب پوش اور پراسرار قلعہ جیسے ناول منگواتی تھیں۔ اسی طرح ان کی بہن گانے بجانے کو شوقین تھیں۔ ان کی فرمائش ہارمونیم ،ستار اور طبلہ ٹھیک کروانے کی رہتی۔ لے دے کے مصنف کا کتا “موتی” ہی ان کا غم گسار تھا جو نہ تو انھیں ڈراتا اور نہ ہی کسی معاملے میں نالائق کہہ کر ان کی حوصلہ شکنی کرتا۔ اس کے ساتھ اکثر کسی درخت تلے سستاتے ہوئے مصنف یہ بات سوچتا کہ بزرگ کیوں نہیں سمجھتے کہ وہ بھی کبھی بچے ہی تھے۔

سوچیے اور بتایئے:

بزرگوں کی زیادہ نصیحتوں سے بچوں کو کیا نقصان ہوتا ہے؟

بزرگوں کی زیادہ نصیحتوں سے بچوں کے اندر خود اعتمادی نہیں رہتی۔وہ کبھی اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں کر پاتے ہیں۔وہ اپنا بچپن بزرگوں کے دباؤ اور پابندیوں میں گزار دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بچپن کے بہت سے سنہری پلوں اور کھیلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔

مصنف کی دادی اسے کہاں کہاں جانے سے منع کرتی تھیں؟

مصنف کی دادی مندر کے پاس موجود پیپل کے پیڑ تلے کھیلنے سے منع کرتی تھیں۔ان کے مطابق اس کے اوپر ایک بھوت رہتا تھا۔اس کے علاوہ وہ پانی سرائے کے پاس موجود کنویں کے قریب جانے سے بھی روکتی تھیں کہ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے جو بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ یہی اس کی خوراک ہے۔

مصنف کے بڑے بھائی کا چھوٹے بچوں کے بارے میں کیا خیال تھا؟

مصنف کے بڑے بھائی کے بقول جو چیز بڑوں کے لیے بے ضرر ہے وہ چھوٹوں کے کیے مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے لیکن مصنف کو کھاتے دیکھ کر منھ چڑھاتے اسی طرح وہ خود سیمنا کے شوقین تھے مگر ان کے مطابق بچوں کا سینما دیکھنا ان میں اخلاقی بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ ان کے مطابق چھوٹے بچوں کو عطر نہیں لگانا چاہیے کہ ہر وقت خوشبو آنے سے بڑے ہو کر کہیں وہ شاعر نہ بن جائیں۔

مصنف کے پتا جی کا کیا تکیہ کلام تھا؟

مصنف کے پتا جی کا تکیہ کلام تھا۔ “نالائق” اور ” جب میں طالب علم تھا”

مصنف کی بھابھی اور بہن کے کیا کیا شوق ہیں؟

مصنف کی بھابی افسانہ لکھنے اور جاسوسی ناول پڑھنے کی شوقین تھیں جبکہ ان کی بہن گانے بجانے کو شوقین تھیں۔

مصنف کی بھابی کون کون سے ناول منگواتی تھیں؟

مصنف کی بھابھی سندر مکھی،تارا مکھی، چندر مکھی، چالاک چور، پھرتیلا ڈاکو ،ںقاب پوش اور پراسرار قلعہ جیسے ناول منگواتی تھیں۔