Advertisement
Advertisement
  • کتاب”اپنی زبان”برائے آٹھویں جماعت
  • سبق نمبر07:نظم
  • شاعر کا نام: فراق گورکھپوری
  • نظم کا نام: دیوالی کے دیپ جلے

نظم دیوالی کے دیپ جلے کی تشریح:

نئی ہوئی پھر رسم پرانی، دیوالی کے دیپ جلے
شام سلونی رات سہانی دیوالی کے دیپ جلے

یہ شعر فرق گورکھپوری کی نظم دیوالی کے دیپ جلے سے لیا گیا ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے ہندوستانی تہوار دیوالی کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ دیوالی کی رسم ہندوستان کے تہواروں کی ایک پرانی رسم ہے جو ایک طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔مگر جیسے ہی یہ تہوار منانے کا دن آتا ہے یہ پرانی رسم پھر سے نئی ہو جاتی ہے۔ دیوالی کے دن چونکہ چراغاں کیا جاتا ہے اسی لیے دیے جگمگانے لگتے ہیں۔شام کے وقت دیوالی کے دیے جلنے سے شام کا حسن مزید بڑھ جاتا ہے۔

Advertisement
دھرتی کا رس ڈول رہا ہے دور دور تک کھیتوں کے
لہرائے وہ آنچل دھانی دیوالی کے دیپ جلے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دیوالی کے آنے سے ہر حسن جو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ ساری سر زمین اور دور دور تک کے کھیت ہرے بھرے اور تروتازہ دکھائی دے رہے ہیں کہ جیسے ساری سرزمین کا رس امڈ یا ہو۔زمین کی ہریالی کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کسی کا سبز آنچل یعنی دوپٹہ لہرا رہا ہو اور ہر جانب دیوالی کے دیپ جل رہے ہیں۔

نرم لووں نے پھر زبانیں کھولیں پھر دنیا سے کہنے کو
بے وطنوں کی رام کہانی دیوالی کے دیپ جلے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ روشن ہوتے دیوں کی نرم و نازک لووں کو آج پھر سے زبان مل۔رہی ہے اور وہ دنیا سے ان لوگوں کی کہانی بیان کر رہی ہیں جو اپنے گھر سے دور پردیس میں یہ تہوار منانے پر مجبور ہیں۔

Advertisement
آج منڈیروں سے گھر گھر کی نور کے چشمے پھوٹ پڑے
پگھلے شعلوں کی یہ روانی، دیوالی کے دیپ جلے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دیوالی کے تہوار کی بدولت ہر گھر کی منڈیروں سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں اور ان نور کی روشنیوں اور پگھلے ہوئے شعلوں کی روانی یہ بتا رہی ہے کہ یہ دیوالی کے دیے ہیں۔

Advertisement
جلتے دیپک رات کے دل میں گھاؤ لگاتے جاتے ہیں
شب کا چہرہ بے نورانی، دیوالی کے دیپ جلے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ تمام رات کے یہ روشن دیے گزرتی رات کے ساتھ جل جل کر ختم ہوتے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ رات کے دل میں ایک زخم لگاتے ہوئے جا رہے ہیں کیونکہ رات کے اندھیرے کو یہ اپنی روشنی سے توڑ رہے ہیں۔ اور رات کو یہ بتا رہے ہیں کہ رات میں جو نور ہیں وہ ان دیوں کی بدولت ہے ورنہ یہ رات بے نور و نورانی ہے اور دیوالی کے دیے روشن ہیں۔

چھیڑ کے ساز نشاطِ چراغاں آج فراق سناتا ہے
غم کی کتھا خوشی کی زبانی دیوالی کے دیپ جلے

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ دیوالی کی شب کا چراغاں خوشی کا ایک گیت چھیڑںے کے بعد اب فراق کا درس دیتا ہوا جا رہا ہے یوں ہم خوشی کی زبان سے غم۔کی داستان سن رہے ہیں کہ اب گزرتے وقت کے ساتھ یہ تہوار اپنے اختتام کو جا رہا ہے۔

Advertisement

سوچیے اور بتایئے:

دھانی آنچل کے لہرانے سے کیا مراد ہے؟

دھانی آنچل لہرانے سے مراد سبزے سے بھرے کھیتوں کا لہلانا ہے۔

چراغ کی لویں دنیا سے کیا کہہ رہی ہیں؟

چراغ کی لویں دنیا سے بے وطنوں یعنی گھر سے دور رہنے والوں کو غم بیان کر رہی ہیں۔

منڈیروں سے نور کے چشمے کس طرح پھوٹتے ہوئے لگ رہے ہیں؟

منڈیروں پر دیوالی کے چراغ روشن ہونے کی وجہ سے ان کی روشنی یوں محسوس ہو رہی ہے کہ جیسے منڈیروں سے نور کے چشمے پھوٹے ہوئے ہوں۔

رات کے دل میں گھاؤ لگنے سے کیا مراد ہے؟

رات کے دل میں گھاؤ لگنے سے مراد روشنی سے رات کے اندھیرے کا خاتمہ ہے۔

Advertisement

شاعر غم کی کتھا کیوں سنا رہا ہے؟

شاعر دیوالی کے چراغاں اور دیوالی کے موقع پر گھر سے دور ہونے کی وجہ سے غم کی کتھا سنا رہا ہے۔

مصرعوں کو مکمل کیجیے:

لہرائے وہ آنچل دھانی دیوالی کے دیپ جلے
آج منڈیروں سے گھر گھر کی نور کے چشمے پھوٹ پڑے
جلتے دیپک رات کے دل میں گھاؤ لگاتے جاتے ہیں
پگھلے شعلوں کی یہ روانی، دیوالی کے دیپ جلے
چھیڑ کے ساز نشاطِ چراغاں آج فراق سناتا ہے

نیچے دیے ہوئے لفظوں کو جملوں میں استعمال کیجیے۔

رسمہندوستان میں بیٹی کو جہیز دینا ایک رسم بن چکا ہے۔
سلونیدیوالی کی شب سانولی و سلونی ہے۔
منڈیرمیں نے گھر کی منڈیر پر طوطے کو بیٹھا دیکھا۔
نور رسولِ اقدس صلی و علیہ وسلم کی پیدائش پر زمین سے آسمان تک نور ہی نور تھا۔
روانی دریا کے پانی میں روانی تھی۔
نورانیمیں نے خواب میں نو رانی چہرے والے بزرگ کو دیکھا۔

ان لفظوں کے متضاد لکھیے۔

الفاظمتضاد
شبروز
پرانینئی
نوربے نور
نشاطرنج
غمخوشی

املا درست کیجیے۔

نشاتنشاط
صازساز
بے وتنبے وطن
ثلونیسلونی
چراگاںچراغاں

Advertisement

Advertisement