علامہ اقبال کی غزل گوئی

0

اقبال کا شمار دنیا کے عظیم فنکاروں میں ہوتا ہے۔ یہ ان کی خوبی ہے کہ انہوں نے شاعری میں فلسفیانہ تصورات کو بہت سلیقے سے اتارا ہے۔ انہوں نے مختلف فلسفیانہ تصورات و افکار کو دلکش زبان میں پیش کر کے عظیم الشان مثال قائم کی ہے۔ دنیا کی بیشتر ترقی یافتہ زبانوں میں کلام اقبال کے ترجمے ہو چکے ہیں ان تراجم کی مدد سے ہمیں جو ثقافتی و تخلیقی پہچان ملی ہے وہ ان کا احسان ہے۔

شعری خوبیاں

1۔ خلوص نیت

اقبال اپنی شاعری میں خون جگر کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یہ سوز و ساز کا استعارہ جو تحلیل ہو کر ان کی تخلیقات میں جاری و ساری ہے۔ خون جگر کی نمود سے ہی فن کے معجزات جنم لیتے ہیں گویا اگر خلوص نیت اور سوز نہیں تو تخلیق سے روح فنا ہو جائے گی۔

نقش ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر

2۔ پیامی شاعر

اقبال نے شاعری کو اپنے فلسفیانہ افکار و خیالات کی ترسیل کا وسیلہ بنایا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ان کے مقاصد اخلاقی اور فکری ہیں جنہیں عوام تک پہنچانے کے لیے شاعری کا سہارا لیا ہے۔ ان کے نزدیک شاعری نہ سامان تفریح ہے اور نہ ہی نشاط کار کا ذریعہ۔ وہ شروع ہی میں اپنا نظریہ قائم کر چکے تھے۔

شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ، بینائے قوم
و گرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے

3۔ انگریزی نظموں کے تراجم

بانگ درا سے ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ بچوں سے متعلق نظموں میں بھی ان کا کمال ہے۔ نظم بچے کی دعا بہت مشہور و مقبول نظم ہے۔ اس کے بعد جو دوسری نظمیں اور غزلیں ہیں ان میں اقبال سراپا سوالی نظر آتے ہیں۔ ہر شے کی حقیقت جاننے کی تڑپ ان میں ملتی ہے۔ استفسار اور استفہام محبوب مشغلہ بن کر ابھرتا ہے۔ ١٩١٤ء تک آتے آتے وہ اپنے منفرد فلسفہ کی بنیاد فراہم کر لیتے ہیں۔ خودی کا فلسفہ شاعری قالب میں ڈھلتا ہے۔

4۔ فطرت نگاری

اقبال کی فطرت نگاری فطرت پرستی نہیں بن سکی۔ وہ مقاصد آفرینی کے لیے جہاں مناسب سمجھتے ہیں اسے پس منظر کے طور پر استعمال کرتے ہیں خاص طور پر طویل نظموں کا ابتدائیہ اس کی واضح مثال ہے۔ خضر راہ کی یہ ابتدا ملاحظہ کریں:

ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محوِ نظر
گوشہ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب
شب سکوت افزا ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویرِ آب

مسجد قرطبہ کا پہلا بندا سی صوتی تکرار کے آہنگ سے آراستہ ہے۔

سلسلہ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہءروز و شب اصل حیات و ممات

5۔ الفاظ کی اہمیت

اقبال الفاظ کی اہمیت سے واقف ہیں۔ وہ الفاظ کے دروں بست سے آگاہ ہیں اور ان کو تخلیقی انداز میں برتتے جاتے ہیں۔ ان کے یہاں اکثر و بیشتر ایسے مصرعے یا اشعار عام ہیں جو صرف الفاظ کے اجتماع سے وجود میں آئے ہیں یہاں قواعد کے ضابطے بے معنی ہو جاتے ہیں۔

سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو۔
دم زندگی، رم زندگی، غم زندگی، سم زندگی،

اقبال لفظ و معنی دونوں کے باہمی ارتباط کے قائل ہیں کیونکہ ان دونوں کی مکمل ہم آہنگی سے ہی شعر میں صناعی اور معنی آفرینی کی ساحری پیدا ہوتی ہے جو دل و نگاہ کو خیرہ کرتی ہے۔

6۔ ارتباط لفظ و معنی ارتباط جان و تن

یہی جذبہ عشق اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ارکان خودی کے تین مرحلے ہیں۔ اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الہی۔
اقبال کا فنی لطیفہ کے بارے میں ایک مقصدی نقطۂ نظر ہے۔ وہ ادب برائے ادب کو بنی نوع انسان کے لیے سم قاتل خیال کرتے ہیں۔

مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے۔
یہ ایک نفس یادو نفس مثلِ شرر کیا
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا۔
اے قطرہء نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا

اقبال نقل در نقل کے یونانی نظریہ کو بھی پرفریب بتاتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ فنکار فطرت سے بڑا اور برگزیدہ تخلیق کار ہے۔ قدرت نے گھاس پوس جنگل کی تخلیق کی۔ مگر انسان نے باغ و چمن اور سبزہ وگل سے حسین مناظر تخلیق کیے۔ انہوں نے بال جبریل میں بہت عمدہ بات کہی ہے جس سے ان کے ادبی نظریہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا تو کر

اقبال کی نظموں کی طرح ان کی غزلیں بھی اردو کے دوسرے شاعروں کی غزلوں سے بہت مختلف ہیں۔ ایک تو موضوع کے اعتبار سے، دوسرے زبان و بیان کے استعمال سے، تیسرے لہجے کے اعتبار سے، اقبال کی غزلوں کا موضوع یا تو ان کا خاص فلسفہ زندگی اور فلسفے سے تعلق رکھنے والے اجزاء مثلاً خودی، عشق، عقل، عمل نقر، تقدیر، شاہین وغیرہ سے متعلق خیالات ہیں یا قوموں کے عروج و زوال، مشرق و مغرب کے فرق، قومی اور بین الاقوامی حالات پر تبصرہ، حالات پر تبصرے، تاریخ اسلام اور تاریخی انسانی پر تنقید، فلسفہ و حکمت کے متعلق باریک باتیں غرض کہ موضوعات کے اعتبار سے اقبال کی غزلوں کی دنیا اردو کے دوسرے شعراء کی دنیا سے بڑی حد تک مختلف ہیں۔

اس کے بعد اقبال نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔ وہ حالی کی مقصدیت کو آگے لے کر چلتے ہیں لیکن وسیع معنوں میں اقبال اخلاقیات اور مقصدی مضامین تک محدود نہیں رہے۔ انہوں نے غزل کی مرکزی فکر کو فطرت اور کائنات سے جوڑا۔

اس کے بعد سے غزل میں اتنی وسعت پیدا ہو گئی کہ وہ حقائق کی عکاسی ہو یا عصری معنویت ہو ہر ایک میدان کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔ جیسے انسان، خدا، کائنات اور فطرت کے رشتے اور پھیلی ہوئی کائنات سب کی سب آج غزل میں موجود ہے۔

اقبال نے ابتدائی غزلیات کو چھوڑ کر عام شاعروں کی طرح عشق و محبت اور ہجر و وصال کی باتیں نہیں کی۔ وہ ایک فلسفی شاعر ہیں۔ انہوں نے انسانوں کو آزادی عزت اور خودداری کی زندگی بسر کرنے کی تعلیم اپنی غزلوں کے ذریعہ دی ہے۔

انسان کو چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لئے سرگرداں رہنے کی بجائے اعلی نصب العین اور اعلی مقاصد کے لیے جدوجہد کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ خودداری اور دلیری کی مختصر زندگی کو بزدلی اور بے غیرتی کی طویل زندگی کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں۔

ان کے الفاظ میں “شیر کی ایک دن کی زندگی بھیڑوں کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے”۔ جو شخص اعلیٰ انسانی قدروں کا احترام کرتا ہے، اور ان کے لئے سینہ سپر ہو جاتا ہے وہی ان کے نزدیک اعلیٰ انسان ہے۔ اس فکر پر مبنی اقبال کی یہ غزل ملاحظہ فرمائیں:

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی

کہیں سار مایہ، محفل تھی، میری گرم گفتاری
کہیں سب کر پریشان کر گئی، میری کم آمیزی

زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریقے کوہ کن میں بھی، وہی حیلے ہیں پرویزی

جلال پادشاہی ہو، کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں، سیاست سنے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

سوادِ رومۃ الکبریٰ میں، دلی یاد آتی ہے
وہی عبرت، وہی عظمت، وہی شانِ دل آدیزی

اقبال نے اس غزل کے ابتدا میں لندن کی سخت سردی کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سخت سرد موسم میں بھی مشرقی تہذیب کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ دوسرے شعر میں انہوں نے اپنی جوانی میں اپنی حاضر جوابی کا ذکر کیا ہے جس سے مغربی عوام متاثر تھی۔

تیسرے شعر میں شاہی بادشاہوں کی حکومت، اشتراکیت اور مزدوروں کی حکومت کے ساتھ مقابلہ کی عکاسی کی ہے۔ جس میں خاص کر مزدوروں کے استحصال پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہی سلسلہ چوتھے شعر میں بھی ہے۔ سیاست اور حکومت، دین اور مذہب سے بے نیاز ہوائیں، تو ایسی حکومت چنگیزی کی حکومت ہو کر رہ جاتی ہے۔

آخری شعر میں روم جو موجودہ اٹلی کا پایہ تخت ہے، دنیا کے نہایت قدیم، پرشکوہ اور عجیب و غریب شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

یہ شہر 752 قبل مسیح میں آباد ہوا تھا۔ اس صدیوں تک عظیم مملکت روم (رومن امپائر) کا دارالخلافہ تھا۔ اور اس زمانے میں دنیا کا سب سے زیادہ متمدن اور شاندار شہر تھا۔ اس شہر کے قدیم اور پھر شوکت تاریخی آثار آج تک موجود ہیں۔

اقبال کہتے ہیں کہ”رومتہ الکبریٰ“ (گریٹ روم اسی نام سے یہ شہر معصوم تھا) کی نواح میں گھومتا ہوں، اور اس شہر کے عظیم اور حسین تاریخی آثار کو دیکھتا ہوں۔ تو اپنے وطن کے دارالحکومت دلی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

دہلی بھی روم کی طرح نہایت قدیم شہر ہے اور ہزاروں سال سے ہندوستان کے مختلف حکومتوں کا دارالحلافہ رہا ہے۔ ماضی کی وہی عظمت اور دلکشی جو دہلی میں نمایاں ہے روم میں بھی نظر آتی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ عبرت کا ایک شدید احساس بھی۔ ان دونوں شہروں کے تاریخی آثار کو دیکھ کر دل میں ایک جزبہ پیدا ہو جاتا ہے۔

Hina Maheen Written by