Junoon e Latifa Summary | سبق جنون لطیفہ کا خلاصہ

0

کتاب”سب رنگ”برائے دسویں جماعت۔

سبق جنون لطیفہ کا خلاصہ

مشتاق احمد یوسفی کا سبق “جنون لطیفہ ” طنز ومزاح کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔جس کے ذریعے مصنف نے باورچی رکھنے کے تجربے کو بیان کیا ہے۔

مصنف کے مطابق انسان کو اطمینان کا سانس لینا دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے ایک جب کوئی نیا خانساماں آتا ہے اور دوسرا جب کوئی اگلا جاتا ہے۔ دوسروں سے کام لینا ایک دشوار عمل ہے۔ اب میری نا اہلی سمجھیں یا کچھ اور کہ کوئی باورچی ایک ہفتے سے زیادہ ٹک کر کام نہیں کرتا ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر ہنڈیا رمضانی نے چھڑائی ہے تو بگھار آکر شبراتی لگا رہا ہے۔

میرے پاس آنے والے خانساماؤں کا اگر تعارف کرایا جائے تو کچھ عرصہ قبل ایک میٹرک فیل باورچی آیا۔اس مڈل فیل خانساماں نے سب سے پہلے آتے ہی میرا نام اور پیشہ دریافت کیا۔اس کے بعد سابق خانساماؤں کے پتے اور ان کی ملازمت چھوڑنے کی وجہ کے بعد میرے ہر ہفتے باہر مدعو ہونے کے اوقات کار بھی دریافت کر لیے۔

اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے کام کرنے کے اصول اور اوقات بھی واضح کردیے۔یہ بھی بتا دیا کہ وہ نہ تو برتن لگائے نہ مہمان آنے پر کسی کے ہاتھ دھلوائے گا اور نہ ہی برتن دھوئے گا وغیرہ۔ میں نے اسے سودا سلف لانے کا کہا تو ماہانہ تنخواہ کے ساتھ اس نے سودا سلف کی تنخواہ الگ سے طے کی۔

اس کے بعد ایک اور خانساماں آیا جو بے حد عقل مند معلوم ہوتا تھا۔وہ مغلئی اور ہر انداز کے کھانے پکا سکتا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ وہ ہر گز بیٹھ کر چولہا نہیں جھونکے گا مجبوراً اس کے کیے جھڑے ہو کر پکانے کا اہتمام کیا گیا۔ مگر اس کے بعد آنے والے باورچی نے فرمائش کی کہ وہ کھڑے ہو کر ہر گز نہ پکائے گا بلکہ بیٹھ کر اور برادے کی انگھیٹی پر پکائے گا۔

اس کے بعد آنے والا خانساماں تو اتنے سارے چولہے دیکھ کر ہی بھاگ گیا۔ایک خانساماں ایسا بھی تھا کہ وہ پکاتا تو طرح طرح کے کھانے تھا مگر اپنا پکا کھانا خود ہر گز نہ کھاتا تھا بلکہ اپنے لیے ہمیشہ باہر سے پکا ہوا منگواتا تھا۔ اس کی جب وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ میں نے ہاتھ بیچے ہیں زبان نہیں۔ اس کی اس بات کی وجہ سے اسے بھی ملازمت سے برخاست کیا گیا۔

اس کے بعد ایک ایسا باورچی بھی آیا جس کے آنے سے دستر خوان پر ہر خطے،تحصیل اور ضلعے کے کھانے سمٹ آئے۔ ایک روز کھانے کے شوربے میں کیری موجود تھی اور سالن اس قدر ترش تھا کہ آنکھیں بند ہو جائیں اور بند ہوں تو پٹ سے کھل جائیں۔

ایک اور باورچی کا قصہ سنیے جس کے آنے کی وجہ سے گھر میں ڈاکٹر اور حکیموں کی ریل پیل ہونے لگی۔ میرے روز بیمار ہونے کی وجہ سے میرے کھانے میں نقص جان کر وہ خود ہی ملازمت چھوڑ گئے اور محض یہی نہیں بلکہ اپنے بقایاجات لینے سے بھی انکاری ہوگئے۔

اس کے بعد نیا خانساماں ایسا آیا کہ اس کے پکائے ہوئے قورمے میں بھی غوطے لگانے پڑتے تھے۔ آخر کو کسی نے مشورہ دیا کہ میں کوئی ریفریجریٹر خرید لوں تا کہ ایک دن لذیذ کھانا پکوا کر بعد میں بھی کھا سکوں۔ریفریجریٹر خریدنے کے بعد میں نے یہ فرق محسوس کیا کہ پہلے جو بدمزہ کھانا وہ صرف ایک ہی وقت کھاتے تھے۔اب اسے ہفتے بھر کھانا پڑتا ہے۔

سوچیئے اور بتایئے:

سوال نمبر01:مصنف کو اطمینان کا سانس لینا کب نصیب ہوتا ہے؟

مصنف کو اطمینان کا سانس لینا دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے ایک جب کوئی نیا خانساماں آتا ہے اور دوسرا جب کوئی اگلا جاتا ہے۔

سوال نمبر02:مصنف نے مڈل فیل خانساماں کی کیا خصوصیات بیان کی ہیں؟

مصنف نے بتایا کہ مڈل فیل خانساماں نے سب سے پہلے آتے ہی مصنف کا نام اور پیشہ دریافت کیا۔اس کے بعد سا بق خانساماؤں کے پتے اور سن کی ملازمت چھوڑنے کی وجہ کے بعد مصنف کے ہر ہفتے باہر مدعو ہونے کے اوقات کار بھی دریافت کر لیے۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے کام کرنے کے اصول اور اوقات بھی واضح کردیے۔یہ بھی بتا دیا کہ وہ نہ تو برتن لگائے نہ مہمان آنے پر کسی کے ہاتھ دھلوائے گا اور نہ ہی برتن دھوئے گا وغیرہ۔

سوال نمبر03:”ہاتھ بیچا ہے زبان نہیں” خانساماں نے یہ کیوں کہا؟

خانساماں نے ہاتھ بیچا ہے زبان نہیں اس لیے کہا کہ وہ اپنے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ہر گز نہ کھاتا تھا۔اس کے مطابق اس نے ملازمت کے عوض محض اپنے ہاتھوں کی محنت کا سودا کیا ہے اپنی زبان کا نہیں کہ وہ ایسا پکا ہوا کھانا کھائے۔

سوال نمبر04:مصنف نے ایک تجربہ کار باورچی کے ترش کھانوں سے متعلق کیا کہا ہے؟

مصنف نے تجربے کار باورچی کے ترش کھانوں کے متعلق لکھا کہ ان کے آنے سے دستر خوان پر ہر خطے،تحصیل اور ضلعے کے کھانے سمٹ آئے۔ ایک روز کھانے کے شوربے میں کیری موجود تھی اور سالن اس قدر ترش تھا کہ آنکھیں بند ہو جائیں اور بند ہوں تو پٹ سے کھل جائیں۔

سوال نمبر05: ریفریجریٹر خریدنے کے بعد مصنف کو کیا فرق محسوس ہوا؟

ریفریجریٹر خریدنے کے بعد مصنف نے یہ فرق محسوس کیا کہ پہلے جو بدمزہ کھانا وہ صرف ایک ہی وقت کھاتے تھے۔اب اسے ہفتے بھر کھانا پڑتا ہے۔